جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے شہدا

شہدائے سقوط ڈھاکہ کے نام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمدہ بخاری

قومی سالمیت , ملکی ترقی اور تعمیر وطن میں ہمیشہ چند شخصیات جو بنیادی کردار ادا کرتی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہتا مگر یہ کردار اچانک ظہور میں نہیں آتا بلکہ اس کے پس منظر میں وہ تعلیم و تربیت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے جو وہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں ۔

جس نہج پر ان کی تربیت ہوتی ہے ویسا ہی ان کا ذہن بنتا ہے اور وہ تکمیل تعلیم کے بعد زندگی کے جس بھی شعبے میں جاتے ہیں وہاں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انہی افعال و اطوار کا مظاہرہ کرتے ہیں جو انہوں نے درس گاہ سے اخذ کیے ہوتے ہیں ۔

1971ء میں اپنوں اور غیروں کی ملی جلی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی وجہ سے حالات دن بدن بد سے بدتر ہو رہے تھے تب کسی نے تعمیر وطن میں حاصل لیا تو کوئی تخریب وطن میں ۔

تخریب وطن میں ہمارے اپنے حکمرانوں کے ساتھ بھارت ( جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ) سے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح غنڈے اور ہندو شامل تھے

یہ تاریخ کا عجیب بھیانک واقعہ تھا جس میں اپنے اور غیروں نے مل کر ظلم ڈھائے تھے پہلے قتل عام شروع ہوا اور پھر بستیاں جلائی جانے لگیں ۔ والدین اور بھائیوں کے سامنے بہنوں, بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی ۔ ان بہنوں اور بیٹیوں کے عریاں جسم کو ڈھانپنے والا کوئی بھائی تک موجود ہی نہ تھا۔

تعمیر وطن میں افواج پاکستان کے ساتھ البدر و الشمس کے خاموش مجاہدین بھی شامل رہے ۔

جو نہ رک سکے نہ جھک سکے
جو وطن بنا کر چلے دئیے

جو وطن سجا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں

افواج پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود بھی ان لوگوں نے شکست قبول نہ کی بلکہ پوری ثباتی سے اپنے ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کے لئے اپنی سانس کا آخری قطرہ تک بہانے کے لئے تیار کھڑے رہے ۔ نوجوان یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے سر کی بولیاں لگ چکی ہیں اب موت یقینی ہے ۔ اس سب کے باوجود بھی یہ رضاکار اپنی جان ہھتیلے پر لیے میدان عمل میں ہی رہے ۔

یہ سراپا اخلاص , درد مند کون تھے ؟

انسانیت اور وطن کی بے لوث خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار کسی معاوضے کی تمنا نہ کرنے والے آخر تھے کون ؟؟؟

مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے کارکنان و قائدین ۔

یہ کارنامہ اس سبق کا تھا جو ان کو تربیتی مراحل کے دوران بتدریج دیا جاتا رہا ۔

یہ اس روح کا نتیجہ تھا جو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اپنے لٹریچر کے ذریعے اپنے تمام کارکنان کے ذہنوں میں پھونک کر گئے ۔ لسانیت , عصبیت , فرقہ واریت سے بالاتر صرف اور صرف اپنے دین اسلام اور ملک کے لیے ان تھک کام کرنا اور اس کام کے معاوضہ کی تمنا کسی انسان سے نہیں رب العالمین سے ہی کرنا۔

دستور یہی چلتا ہے کہ جنگ میں رضاکاروں کے نام کئی تمغے کیے جاتے ہیں مگر ان کے نام فقط تخت دار ہی آیا۔
کئی نوجوان , بزرگوں کو جیلوں سے نکال کر اذیتیں دی جاتی رہیں جب اس پر بھی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو ایک ایک کو سزائے موت دی جانے لگیں۔
محب وطن استاد کی گردن میں اس کے شاگردوں کی گردنیں کاٹ کاٹ کر اس کا ہار لٹکایا گیا ۔
اپنے وطن کی محبت ہی کے جرم میں پھانسی چڑھ جانے والے یہ عظیم کارکنان آج بھی زندہ ہیں ۔

ہاں یہ حب الوطنی کے بیج بکھیر کر چل دئیے اور آج ان ہی کے مثل بہت سے کردار ہر ملک و شہر میں نظر آتے ہیں ۔ بہت دور نہ جائیں ہم صرف اپنے ملک کا ہی جائزہ لے لیتے ہیں یہ کارکن ہیں کہاں ؟

کبھی اس جماعت کے کارکنان تکمیل پاکستان کا ایجنڈا لیے کشمیر کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں تو کبھی حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں ” کراچی کو حق دو” کی تحریک چلاتے ہیں ۔ کہیں سینیٹر مشتاق کی شکل میں یہ کارکن نظر آتا ہے جو سینیٹ میں اکیلی حق کی توانا آواز بنتا ہے اور حال ہی میں دیکھیں تو مولانا ہدایت اللہ لسانیت , عصبیت ,قومیت سے بالاتر ہو کر ” حق دو گوادر کو ” کے لئے متحرک ہیں۔

میرے کارواں میں شامل کوئی کم نظر نہیں ہے
جو نہ کٹ سکے وطن پر میرا ہمسفر نہیں ہے

درغیر پر ہمیشہ مجھے سجدہ ریز دیکھا
کوئی ایسا داغ سجدہ میرے نام پر نہیں ہے

کسی سگندل کے در پر میرا سر نہیں جھکے گا
میرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے

مگر افسوس یہ ہے کہ اس تحریک نے پاکستانی قوم کو اپنے ہیرے بطور رہنما دئیے عوام نے ہمیشہ ان کو شدت سے ٹھکرایا ہے ۔
فیصلہ عوام کا ہے
چاہے تو ان ہیروں کو چن لے
چاہے تو کھوٹے سکوں سے جیب بھرتی رہے !!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں