عائشہ عزیز
دسمبر کے مکمل ہونے میں گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں ۔ پچھلے سال دسمبر میں ہم یہاں شفٹ ہوئے تھے ابھی کل کی ہی تو بات ہے۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے سال کے تین سو پینسٹھ دن، ہر دن کے چوبیس گھنٹے ،ہر گھنٹے کے ساٹھ منٹ اور ہر منٹ کے ساٹھ سیکنڈ گزر جائیں اور پتہ بھی نہ چلے! جب کہ وہ باریک بین پلک جھپکنے کے برابر بھی ہم سے بے خبر نہیں، جو ہمارے دل میں آنے والے ہر ہر خیال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔
ہزاروں خیال میرے دل میں آئے جن کا مجھے اندازہ بھی نہیں جن کا کوئی حساب نہیں رکھا کب میرا کون سا خیال کس عمل کی وجہ بن گیا؟ نہیں معلوم، کب میری کون سی نیت میرے کس عمل کو اکارت کر گئی؟ نہیں معلوم، مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے اوقات کہاں صرف ہوئے؟ کہاں درج ہوئے؟
دیکھو!!یوں نہ کرو!! کچھ اور دن ٹھہر جاؤ!! کہہ دو کہ یہ سال ابھی نہیں بیتا کہیں نہیں گیا!! چند لمحے مستعار دے دو!! چند ثانیے ہی میرے کاسےمیں اور ڈال دو!! میں منت کرتی ہوں تمہاری!! چند دن اور ٹھہر جاؤ!! کچھ تو ایسا کرنے دو جو جلی حروف میں لکھے جانے کے قابل ہو!! کچھ تو ایسا ہو کہ میں تم سے نظریں ملا پاؤں!!
وقت یوں پر لگا کر اڑ جائے گا میں نے ہرگز نہیں سوچا تھا ۔۔۔ میرے بہتے آنسوؤں کو دیکھ لو!! میرے پھیلے ہاتھوں کو دیکھ لو!! میری سسکیاں میری آہیں کیا تم ان کے بدلے میں بھی کچھ ثانیے مجھے نہیں لوٹا سکتے؟؟ اچھا!! دیکھو! میری بات سنو!! بدلے میں کیا لو گے؟؟ ایک دن کی کیا قیمت لگاؤ گے؟؟ میں بہت مالدار نہیں ہوں لیکن پھر بھی میں تمہیں ایک دن کا ایک ہزار دے سکتی ہوں اپنی حلال کی کمائی سے اپنی محنت کی کمائی سے، ہر اس دن کو واپس لینے کے لئے جس میں میں نے کچھ اچھا نہیں کیا جس کو میں نے بے مصرف کاموں میں ضائع کر دیا۔۔۔
تم اگر یہ سودا قبول کر لو اور مجھے چند دن ہی واپس کردو ایسا ہو کہ جب باقی ساری دنیا نئے سال کا آغاز کر رہی ہو تو میں کہہ سکوں کہ نہیں میرا نیا سال ابھی شروع نہیں ہوا ابھی کچھ دن ہیں میرے پاس، میں نے کچھ دے دلا کر چند دن واپس لے لئے ہیں۔ کیا کہا؟؟ ایسا ممکن نہیں ہے؟؟ کیسے؟؟کیوں؟؟ کیوں ممکن نہیں ہے؟؟
تم تو خود اس وقت کے خالق ہو، تم تو خود ہر گزرتے لمحے کے مالک ہو کیا تم اس گزرتے وقت کی رفتار کو روکو گے نہیں؟ میری منت سماجت قبول نہیں کرو گے؟ میرے بہتے اشکوں اور لرزتی سانسوں کی پرواہ نہیں ہے تمہیں؟ یہ ہاتھوں سے پھسلتی ریت تھم نہیں سکتی کیا؟ یہ اس طرف کو جاتی لہریں کیا واپس نہیں پلٹ سکتیں ؟ کیا کہا؟؟ تم نے بتایا تھا؟؟ ہاں!! میں مانتی ہوں تم نے بتایا تھا۔ ہاں میں مانتی ہوں تم نے قسمیں کھا کھا کر بتایا تھا،
اس زمانے کی قسم کھا کر بتایا تھا کہ میں نقصان اٹھاؤں گی۔۔۔۔ہم سب انسان نقصان اٹھائیں گے اگر ہم نے گزرتے لمحوں کو یوں ہی گزرنے دیا اگر ہم نے سوت کات کر کپڑا نہ بنایا تو گویا ہم نے اسے ضائع کر دیا۔۔۔لیکن بھول ہو گئی، بہت بڑی بھول ہو گئی تو کیا اب؟؟ اب واپسی کی کوئی راہ نہیں؟ جو چلا گیا لوٹ کر نہیں آ سکتا؟ کسی قیمت پر نہیں آ سکتا؟ کوئی منت، کوئی سماجت، کوئی سسکی، کوئی آنسو، کوئی مال ودولت، کوئی دھونس دھمکی، کوئی زور اسے واپس نہیں لا سکتا؟؟ کیا اتنا بے وفا ہے وہ؟ کیا اتنا بے نیاز اور لاپرواہ ہے وہ؟ کوئی مول تول، کوئی بھاؤ تاؤ، کوئی روپیہ پیسہ کچھ نہیں چلے گا اس کے آگے؟؟
میرے پچھتاوں، میری فریادوں، میرے اشکوں، میرے نالوں کو کوئی تو آس دے دو! ایک بار ہی سہی بس اتنا کہہ دو کہ وہ لوٹ آئے گا!! کوئی تو مرہم رکھو، کوئی تو آسرا دو!!کیا کہا؟؟ ایک صورت ہے؟؟ کون سی صورت؟؟ کیا ہو سکتا ہے؟؟ کیا ممکن ہے میرے لئے؟؟ بتاؤ!! میں سب کرنے کو تیار ہوں!!
توبہ!! کیا کہا؟توبہ کروں؟ کیا گزرا وقت واپس آ جائے گا؟ نہیں؟؟ تو پھر؟؟
معافی مل جائے گی؟؟ میرے اعمال نامے سے وہ سارے بے مصرف لمحے ساقط کر دئیے جائیں گے؟؟ شکریہ!!! بہت شکریہ!!!
اے وقت کے خالق!اے لمحوں کے مالک! تیرا شکریہ!! تو نے ایک دروازہ تو رکھا ورنہ ہم تیرے خطا کار بندے کسی بند گلی میں داخل ہو جاتے تو دیواروں کے ساتھ سر پٹخ پٹخ کر مر جاتے۔۔۔۔
وہ بیتے لمحے
جو جا چکے ہیں
انہیں کوئی گر، کبھی جو چاہے
نہ لا سکے گا
کوئی بھی منت کوئی سماجت
نہیں چلے گی
کوئی بھی آنسو
کوئی بھی سسکی
کسی کی آ ہیں
کوئی صدائیں
وہ ایک لمحہ جو جا چکا ہے
نہ لا سکیں گی
تم عہد کر لو
کہ اب کے موسم
کوئی بھی لمحہ
بچھڑ کے جانے سے پیشتر ہی
وفا کرو گے
تم اس کے جانے سے پیشتر ہی
اس کی ایسی قدر کرو گے
کہ وہ حروف جلی میں لکھا
تمہارے رستے میں بیٹھ جائے
تمہاری منزل کا آ گے بڑھ کر پتہ بتائے۔