ڈاکٹر خولہ علوی
25 دسمبر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے اور عیسائیوں کی عید کا دن یعنی کرسمس ڈے بھی ہے۔
اور قائد اعظم کے یوم پیدائشں کی وجہ سے اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اور بچے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس تعطیل کا تعلق کرسمس کے ساتھ ہے۔ اس غلط فہمی کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔
پاکستان مسلمان اکثریتی ملک ہے اس لیے 25 دسمبر اس کے کیلنڈر میں باقی دنوں کی طرح ایک عام دن ہونا چاہیے۔ اور کرسمس کے ساتھ اس کا خصوصی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں اگرچہ عیسائی اقلیت میں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کرسمس کے مذہبی تہوار کے موقع پر بھرپور طریقے سے اپنی عید مناتے ہیں۔
بیکریوں میں کرسمس کیک اور مٹھائیاں وغیرہ بکتی ہیں، اور کھانے پینے کے مختلف آئٹمز اور دیگر چیزیں خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔
کرسمس کی مناسبت سے مسیحی لوگوں کے مختلف معمولات ہوتے ہیں مثلاً جشن منانا، زیب وزینت اختیار کرنا، چرچ میں سروس (عبادت) کے لیے حاضر ہونا، تقاریب اور دعوتوں کا اہتمام کرنا، گھروں کو غباروں وغیرہ سے سجانا ، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم اور کیک کاٹنا ، کھانوں کی تیاری کرنا، اور تعطیل کرنا وغیرہ۔
پھر بچوں کے لیے ایک اہم اور دلچسپ اور سرپرائزنگ معاملہ ایک افسانوی کردار بوڑھے سفید ڈاڈھی والے بابا “سانتا کلاز” کا عموماً رات کو سوتے ہوئے ان کو تحائف دینا ہوتا ہے۔ جسے وہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔
کرسمس ڈے، کرسمس کیک، کرسمس ٹری، سانتا کلاز وغیرہ کے تصورات مسلمان بچوں کو بھی بہت اپیل کرتے ہیں۔ وہ کرسمس منانا اور سانتا کلاس سے تحفہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیے ان کی ذہن سازی اور اسلامی تہواروں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی فضیلت و اہمیت اور شان و شوکت کا ان کے قلب و ذہن میں راسخ کرنا بڑا ضروری ہے۔
اس موقع پر مختلف بڑے شہروں میں ممتاز مسلمان سیاسی شخصیات کی مبارکباد کے بینرز اور فلیکسز نظر آتے ہیں جو شہروں میں جا بجا کئی جگہوں پر نمایاں طور پر آویزاں ہوتے ہیں۔ اور اس میں ہر سال مزید اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جو اسلامی احکامات کے منافی ہے۔ اور یہاں مذہبی رواداری کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا پر کرسمس کو جس طرح ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اور مختلف پروگرام، ڈرامے، اور ڈاکو مینٹری وغیرہ دکھائے جاتے ہیں تو اس سے بڑوں کے علاوہ مسلمان بچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور کرسمس کے تہوار اور مختلف ایونٹس میں دلچسپی لیتے ہیں۔
لیکن۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی عیسائی بھی مسلمانوں کے تہواروں میں اسی طرح دلچسپی لیتے ہیں اور عید الفطر کے موقع پر پر تکبیرات پڑھتے، عیدین کی نماز ادا کرتے اور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے نظر آتے ہیں؟
عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں اور 25 دسمبر کے دن کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ آج اللہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ تو یہ شرک جیسا کبیرہ گناہ ہے۔
نعوذ باللہ من ذلک ۔
عرب و عجم اور امریکہ و افریقہ میں بسنے والے کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ یا کسی اور مذہب کے پیروکار کو دوست بنائے، ان سے دلی دوستی اور تعلقات رکھے، ان سے رشتے ناتے کرے اور نبھائے اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کرے ۔
اہل کتاب کے ضرر اور نقصان سے بچنے کے لیے ان کے ساتھ ظاہری طور پر حسن سلوک کیا جا سکتا ہے اور اچھا اخلاق برتا جا سکتا ہے لیکن ان کے ساتھ قلبی دوستی، رشتے ناتے کرنا اور تہواروں میں شرکت کی سخت ممانعت ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ
ترجمہ: ”اور انہوں نے کہا کہ رحمان نے کوئی اولاد بنالی ہے، بلاشبہ تم ایک بہت بھاری بات (گناہ) تک آپہنچے ہو۔ قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گِر پڑیں کہ انہوں نے رحمان کے لیے کسی بیٹے کا دعویٰ کیا۔“ (سورۃ مریم: 88، 89، 90، 91)
سورۃ مریم میں ہی مزید ارشاد ہے کہ
“اور رحمانﷻ کی یہ شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔” (سورة مریم 19: 92)
لہذا کرسمس کی مبارک دینا اللّٰہﷻ کو گالی دینا ہے۔ اور اس کی شان اور عظمت کے خلاف ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ
قال انی عبداللہ۔ (سورۃ مریم 19 : 30)
ترجمہ:”اس نے کہا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔”
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حافظ عبد السلام بھٹوی صاحب رقم طراز ہیں کہ
“خود سب سے پہلا کلمہ جو پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی زبان سے ادا کیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا، جو ان کے خود اللہ تعالیٰ ہونے یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے یا تین معبودوں میں سے ایک ہونے کی یعنی (عقیدہ تثلیث کی) صاف نفی ہے۔ “
(تفسیر حافظ عبدالسلام بھٹوی، تفسیر سورۃ مریم 19 : 30)
سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالی نے عیسائیوں کے بنیادی عقائد عقیدہ تثلیث اور عقیدہ ابنیت کی تردید کی ہے۔
کرسمس منانا اسلامی تہواروں کی حیثیت کی نفی کرنا ہے
مسلمان کے لیے کفار اور مشرکین کے کسی بھی دن کو بطور تہوار منانا جائز نہیں ہے کیونکہ تہوار منانا شریعت کا حصہ ہے، اور ہر مسلمان کے لیے شرعی احکامات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
اس تہوار کو منانے کی کم از کم حیثیت ایک گناہ ہے، اور انہی خصوصی تہواروں کی طرف آقائے دو جہاںﷺ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
’’یَا أبابَکر ان لکل قوم عیدا و ھذا عیدنا۔”
(صحیح بخاری: 952)
ترجمہ: “اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے اپنا ایک تہوار ہوتا ہے اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے۔”
یہ حدیث مکمل طور پر یوں بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ کہتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور میرے پاس اس وقت انصار کی دو بچیاں تھیں جو جنگ بُعاث کے دن انصار کی طرف سے کہے جانے والے اشعار گنگنا رہی تھیں، آپ کہتی ہیں کہ : “وہ دونوں کوئی گلوکارہ بھی نہیں تھیں”، انہیں سن کر ابو بکر نے کہاکہ: “کیا شیطانی بانسریاں رسول اللہ ﷺ کے گھر میں!” یہ کام عید کے دن ہو رہا تھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے اپنا ایک تہوار ہوتا ہے اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے۔” (صحیح بخاری:952؛ صحیح مسلم: 892)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“سالانہ دن منانا بھی ایسا منہج ، مسلک اور شریعت میں شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
لكل جعلنا منكم شرعة و منهاجا” (المائدۃ:48)
ترجمہ: “ہم نے ہر ایک کے لئے شریعت اور منہج بنا دیا ہے.”
اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه (الحج: 67)
ترجمہ: “ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پر وہ چلتے ہیں۔”
بلکہ امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں کہ “جشن اور تہوار تو کسی بھی شریعت کا خاص الخاص امتیاز ہوتے ہیں. اس میں اہل کفرے سے مشابہت ان کی خاص چیز میں مشابہت ہے جو بسا اوقات انسان کو کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم، 1/ 528,529)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا کوئی خاص تہوار ہو، تو جس طرح کوئی مسلمان انکے مذہب اور قبلہ میں انکے ساتھ موافقت نہیں کرتا، بعینہٖ کوئی مسلمان ان کے تہوار میں بھی شرکت نہ کرے۔”
(“تشبه الخسيس بأهل الخميس”، مجلہ “الحکمۃ”(4/193)
خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا کہ
ترجمہ: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (الحدیث)
“جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، تو وہ انہی میں سے ہو گا”
(سنن ابی داؤد : 4033)
فقہاء نے اس اہم اور حساس مسئلہ کے بارے میں یہ اجماع نقل کیا ہے کہ
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شام کے عیسائیوں کو باقاعدہ پابند کیا تھا کہ “وہ دارالاسلام میں اپنے تہوار کھلے عام نہیں منائیں گے۔”
اور اسی پر تمام صحابہ کرام اور فقہائے امت کا عمل رہا ہے۔
چنانچہ جس ناگوار چیز کو مسلمانوں کے سامنے آنے سے بھی روکا گیا ہو ، کسی مسلمان کا وہاں پہنچنا اور اس میں کسی بھی طرح شریک ہونا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہے۔
اس کے علاوہ کئی روایات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم نامہ بھی منقول ہے کہ
ترجمہ: “عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔ اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے روز مت جاﺅ، کیونکہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔”
(اقتضاءالصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ)
علاوہ ازیں کافروں کے تہوار میں شرکت اور مبارکباد کی ممانعت پر حنفیہ ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ تمام مسالک متفق ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں کہ فقہائے مالکیہ نے تو اس حد تک کہا ہے کہ
“جو آدمی کفر کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے، وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔” (اقتضاءالصراط المستقیم، ص: 45)
امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
“عیسائیوں کی عید پر انہیں مبارکباد پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صلیب کے آگے سجدہ کرنے پر مبارکباد پیش کرنا!”
( ابن القيم رحمه اللہ، أحكام اہل الذمة : 211/3)
لہٰذا مسیحی لوگوں کو ان کے کسی تہوار کی مبارک باد دینا یا اس معاملے میں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا اسلامی احکامات کے مطابق جائز نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔ اور شریعت اسلامیہ نے اس سے سختی سے منع کیا ہے۔
مغربی تہذیب وتمدن کی یلغار سے نہ صرف خود بچنا ہے بلکہ اپنے بچوں اور نئی نسل کو بھی اس سے بچانا ہے۔ اور اس چیلنج کے لیے بھرپور کوشش اور محنت کرنی ہے اور اپنے معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنا ہے ان شاءاللہ۔
؎ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان
ایک تبصرہ برائے “کرسمس اسلامی تعلیمات کے آئینے میں”
بہت عمدہ اور معلوماتی آرٹیکل ہے ماشاءاللہ۔
سوشل میڈیا پر اسے شئیر کرنے اور پھیلانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔