فاروق اقدس
چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری نے گذشتہ رات اسلام آباد میں کچھ شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی شامل ہیں، گوکہ جے یو آئی کے ذرائع اس حوالے سے تصدیق یا تردید نہیں کر رہے لیکن گزشتہ دنوں زرداری کے ایک ’’پیغامبر‘‘ نے کراچی میں فضل الرحمان سے ایک تقریب میں شرکت کے دوران ملاقات کی تھی اور دونوں شخصیات کی ملاقات کیلئے وقت اور مقام کا تعین بھی کیا گیا تھا،
ایک ایسے موقع پر جب آج (پیر) بینظیر بھٹو کی 14 ویں برسی کی تعزیتی تقاریب منائی جارہی ہیں ، آصف علی زرداری کی اسلام آباد آمد کو خاصا معنی خیز اور اہم قرار دیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنی شریک حیات کی برسی کے موقعہ پر ہونے والے اجتماع میں بھی شرکت نہیں کریں گے اور اسلام آباد میں ہی کچھ دن قیام کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کی برسی کی مناسبت سے ایک تعزیتی پیغام جاری کر دیا ہے،
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے گزشتہ کچھ دنوں سے ملکی سیاست میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر جن میں بعض اہم فیصلوں کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں بالخصوص نواز شریف کی وطن واپسی اور اس حوالے سے مسلم لیگ ( ن ) کی ڈیل کی خبریں شامل ہیں ، آصف علی زرداری خاصے فعال ہیں ، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بلاول کی سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں اور کافی دنوں سے بلاول سیاسی منظر سے اوجھل ہیں ،
آصف زرداری کی اچانک اسلام آباد آمد کو قومی اسمبلی کے جاری اجلاس کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے 12 جنوری سے قبل ترمیمی فنانس بل (منی بجٹ) بھی ہر صورت اسمبلی سے پاس کرانا ہے ، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل ترمیمی فنانس بل کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرط یہ ہوتی تھی کہ حکومت بل صرف ایوان میں پیش کردے جس کی منظوری سے قبل ہی آئی ایم ایف اسے اپنی شرط پوری تصور کرتا تھا لیکن اب نئی شرط کے تحت حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ترمیمی فنانس بل منظور بھی کرائے،
امکانی طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے منگل 28 دسمبر کو ترمیمی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاسکتا ہے، اس موقعہ پر ایوان میں ارکان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے حکومت کو دشواری پیش آسکتی ہے اور آصف علی زرداری اس صورتحال میں ’’موثر کردار‘‘ ادا کرنے کی غیرمعمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں
جبکہ رواں اجلاس میں ہی قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے بارے میں عدم اعتماد کی تحریکیں بھی پیش کرنے کی خبریں ہیں۔( بشکریہ روزنامہ جنگ )