آج کا نوجوان مسلمان پریشان کیوں ہے؟

آج کا نوجوان مسلمان پریشان کیوں ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ صدیقہ

نوجوان نسل اپنے ملک کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے ۔ ملک کی ترقی کا انحصار اس نوجوان نسل پر ہے، یہ نوجوان ہی اپنے ملک و قوم اور دین و ملت کے لیے ناقابلِ فراموش کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں ، اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ نوجوان کی بربادی ، قوم کی بربادی ہے ، اگر نوجوان نسل گمراہی کا شکار ہوجائے تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے ، جوانی کی عبادت کو پیغمبروں کا شیوہ بتایا گیا ہے لیکن آج کے دور کے مسلم نوجوان کے پاس سب کچھ ہے، نہیں ہے تو صحیح اسلام نہیں ہے، صحیح ایمان نہیں ہے۔

آج کے نوجوان مسلمانوں کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ خود سے ناآشنائی اور دین سے بے رغبتی ہے۔ اور ایک کامیاب، باکردار، پرسکون زندگی گزارنے کے لئے ان دونوں چیزوں کے بارے میں جاننا نہایت ضروری امر ہے۔

میرا اس آرٹیکل کو لکھنےکا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو ڈپریشن اور مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں سے بچا سکیں جن کا وہ جانے انجانے میں شکار ہو رہے ہیں ۔ اور ان مسائل کو نہ تو وہ خود سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ان کے اردگرد کا معاشرہ ۔جس کی وجہ سے یہ نوجوان نسل گمراہی اور بربادی کا شکار ہو رہی ہے۔

آج کے اس جدید دور میں اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ  ملک و قوم کی ترقی کا دار و مدار یہ نوجوان نسل ہے تو معذرت کے ساتھ ایسا سوچنا بلکل بے سود ہے۔ نوجوانوں کے کندھوں پر ملک و قوم اور خاندان کی  ترقی کا بوجھ ڈال کر ہمارے بزرگ حضرات اور خاص طور پر ماں باپ اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں پھیر سکتے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور عروج کا دارومدار  معاشرے کے ہر فرد پر ہے۔اور اگر نوجوان نسل سے اتنی امیدیں وابستہ کر ہی رکھی ہیں تو اس نسل کو صحیح راہ دکھانا ،ان کی تربیت کرنا، صحیح غلط کا فرق سمجھانا صرف اور صرف والدین کا فرض ہے۔

نوجوان نسل کے پریشان رہنے کی دوسری بڑی وجہ والدین کی تربیت، ان کا اپنے بچوں کو وقت نہ دینا ہے بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔لیکن آج کے اس دور میں یہ درس گاہ ملاوٹ کا سبب بن چکی ہے ۔ والدین کا کردار اس دور حاضر میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ یا اس طرح کہا جا سکتا ہے، کہ  بچے پیدا کر کے ان کو وقت پر روٹی ،کپڑا ،سکول بھیجنا صرف یہی ماں باپ کی ذمہ داری رہ گئی ہے ۔

اسلام میں جو حقوق اولاد کے لۓ بتائے گۓ  ہیں ان میں یہ ہے کہ  اولاد کے لئے نیک ماں کا انتخاب کیا جاۓ، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد اسکے کان میں اذان دی جاۓ، انکے لئے رزق حلال کا انتظام کیا جاۓ، انکی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کی جاۓ ،اور ان کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ رکھا جاۓ ،ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر سرزنش کی جاۓ  اور پھر ان کو معاف کر دیا جاۓ، ان کو اچھائی اور برائی میں فرق بتایا جاۓ۔ لیکن اب صرف والدین کے فرائض روٹی ،کپڑا، مکان اور دنیاوی تعلیم تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

اولاد کی تربیت اور انہیں تہذیب کے بارے میں بتانا اور سمجھانا  اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔والدین اولاد کو دنیاوی تعلیم دینے میں اس قدر مصروف ہو گۓ ہیں کہ بچوں کی  تربیت پر دھیان ہی نہیں دے پا رہے۔اور جس کی وجہ سے انسان اعلی تعلیم  یافتہ ہونے کے باوجود بھی  تربیت کے فقدان کے باعث ساری عمر جاہل ہی رہتا ہے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

ماں باپ دونوں کے پاس ہی اولاد کو صحیح غلط بتانے ان کے مسائل سننے اور حل کرنے کا وقت ہی نہیں۔ جس کی وجہ سے بچے اپنے والدین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔والدین کی عدم توجہ کے باعث بچے ان کو اپنی باتیں اور مسائل نہیں بتاتے اور اپنے ان مسائل کو  خود سے حل کرنے کی کوشش میں اکثر غلط راستوں پر گامزن ہو جاتے ہیں۔اور جب بچوں اور نوجوان نسل کو گھر میں وہ توجہ اور پیار نہ ملے جو ملنا چاہیے تو وہ والدین سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھروہ محبت کے لئے متبادل راستے ڈھونڈتے ہیں۔

انسانوں میں اپنا سہارا تلاش کرتے ہیں۔ جو ان کی باتوں کو سنےاور سمجھے۔ جبکہ ہر انسانی سہارا جھوٹا ہے۔ اور مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں یہ دنیا کے سہارے۔ اس لیے زندگی میں سہارے ڈھونڈنے کی بجائے خود پر بھرو سہ کرنا سیکھیں۔ کیونکہ سہارہ تو ایک دن ٹوٹ جائے گا لیکن آپ کا خود پر اعتماد آپ کو کبھی بھی گرنے نہیں دے گا۔ اور بعض دفعہ دل کا بوجھ ہلکا کرتے کرتے ہم اپنی ذات کو ہی دوسروں کے سامنے ہلکا کر دیتے ہیں۔ پریشانیاں بتانے سے کم تو ہو سکتی ہیں لیکن اس کو بتائیں جو اس قابل ہو، جو آپ کو اچھا مشورہ دے، آپکو صحیح اور غلط کا فرق بتا سکے۔ "یاد رکھیں ہمارا سب سے بہترین مدد گار ہمارا اللہ ہے۔” اختر امام رضوی نے کیا خوب کہا ہے کہ

ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ
اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ
اپنوں کی چاہتوں نے بھی  کیا کیا دیئے فریب
روتے رہے لپٹ کر ہر اجنبی کے ساتھ

تیسری بڑی وجہ صرف دنیاوی خواہشات اور دنیاوی ترقی کو اصل حقیقت جانتے ہوۓ ان کو پورا کرنے کی کوشش میں آج زیادہ تر لوگ دین اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں ہمیں آج کے دور کا ہر ایونٹ تو یاد ہے پر اسلامی پوائنٹ آف ویو سے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام تاریخی واقعات تک یاد نہیں۔

اور ویسے ہم اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے لڑنے جھگرنے اس کی خاطر مر جانے کو تیار ہے ہوتے ہیں اور اسلام کے نام پر بحث و مباحثہ کرنے کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے مطابق زندگی گزارنے کو تیار نہیں۔ یہ کہاں کے مسلمان ہیں ہم؟ کیوں ہم ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خود کی ذات پر؟ کیوں ہم خود کا محاسبہ نہیں کرتے؟ دنیا میں سب سے مشکل کام خود کی اصلاح کرنا اور آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا ہے۔ اور جب تک ہم خود کی اصلاح نہیں کرے گے تب تک ہم اپنے ماحول کو اپنے معاشرے کو درست نہیں کر سکتے۔آئے سب سے پہلے خود کی اصلاح کریں۔

نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دورہوتا ہے اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے گزارنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اور اگر والدین بچوں کی پرورش کے حوالے سے اسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہے تو اس کا خمیازہ صرف بچوں اور نوجوان نسل کو بھگتنا پڑےگا۔ اور اس کے اثرات ہمیں ابھی تو نظر نہیں آ رہے لیکن ہم آنے والی نسلوں کے مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہے۔

میری سب والدین سے یہی گزارش ہے کہ خدارا اپنے بچوں اور اس نوجوان نسل کو ان کا حق دے ان کو وقت دیں ان کی باتوں کو توجہ سے سنا کریں ان کے ساتھ خوشی کے خوبصورت لمحات گزاریں تاکہ کل کو وہ بھی آپ کو وہ وقت وہ خوشی دیں سکے جو انہوں نے آپ سے سیکھی ہے۔

اس با ت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کریں کہ ان کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ضرورت وہ پیار اور توجہ ہے۔ جس کا ان کی زندگی میں بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہذا اس کو زیادہ اہمیت دیں ۔ تاکہ وہ کہی باہر جا کر انسانی سہارے تلاش نہ کریں کیونکہ اللہ تعالی کا سہارا ہی وہ واحد سہارا ہے جو انسان کے لیے ضروری ہے اور وہی اس کی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

اس لئے خود بھی اللہ کے قریب ہوں اور اپنے بچوں کو بھی اللہ کا تعارف کروائیں اور پھر ان کو اللہ کے قریب کریں تاکہ ہم سب اس دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔ اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ زندگی وہ واحد پودا ہے جس کا بیج زمین کے اوپر لگتا ہے اور پھل زمین کے نیچے ملتا ہے۔

آج کے اس آرٹیکل کا حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیں ہر قسم کے حالات میں دوسروں کو سہارا بنانے کی بجائے خود پر اعتماد اور یقینِ رکھنا چاہیے اور اللہ کو اپنا واحد سہارا بنانا چاہے اور اس سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہے۔ اور والدین کو چاہے کے وہ بچوں میں اعتماد پیدا کریں اور ان کو اپنا بہترین دوست بنائیں اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو دینی تعلیم کی قیمتی دولت سے بھی آراستہ کریں۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب حضور اکرم ﷺ کی سنت طریقوں اور اپنی خوشنودی کے مطابق با عمل زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔آمین

اس آرٹیکل کو لکھنےکا اصل مقصد یہی ہے کہ اگر آپ یا آپ کے ارد گرد یا پھر حلقہ احباب میں کوئی ایسا فرد ہے، جسے زندگی میں کوئی دل کشی نظر نہیں آتی۔ یا پھر مسلسل مشکلات کا شکار ہے، تو ہم سے رابطہ قائم کریں تاکہ ہم آپ کی ذہنی الجھنوں کو ختم کرنے کا سبب بن سکے۔

https://www.instagram.com/muslimyouth04/

https://m.facebook.com/muslimyouth04/


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں