ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی
“مس ناصرہ! اسلام میں مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟” میم رضوانہ نے بالکل آہستگی سے سٹاف میٹنگ کے تقریباً اختتام پر اپنی کولیگ میم ناصرہ سے اچانک یہ سوال کیا۔
ناصرہ مقامی گرلز ڈگری کالج میں کمپیوٹر سائنسز کی مستقل (Permanent Lecturer) لیکچرار تھیں اور دین کی طرف خاصا رجحان رکھتی تھیں۔ جبکہ مس رضوانہ حال میں ایک سالہ کنٹریکٹ(contract) پر رکھی گئی (Appointed) انگریزی ادب کی لیکچرار تھیں۔ وہ آزاد خیال بلکہ اسلام مخالف نظریات کی حامل اور ماڈرن تہذیب کا نمونہ دکھائی دیتی تھیں۔
دونوں ظاہری شخصیت، مزاج اور عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف دکھائی دیتی تھیں۔ دونوں میں مشرق و مغرب کا بعد دکھائی دیتا تھا۔ دونوں شادی شدہ اور بال بچوں والی تھیں۔
رضوانہ جدید تہذیب کے انتہائی فٹنگ والے لباس میں ملبوس، کھلے بالوں کے ساتھ بڑے نازو ادا سے بات کرتی تھیں۔ بالوں کو بار بار جھٹکنا یا ان میں ہاتھ پھیرتے رہنا ان کا سٹائل تھا۔ اپنے حلیے سے وہ فیشن گرل دکھائی دیتی تھیں۔
دیگر کولیگز کے ساتھ وہ صحیح طریقے سے رہتی تھیں۔ لیکن ان کا ناصرہ کے ساتھ اور ناصرہ کا ان کے ساتھ رویہ کچھ محتاط سا رہتا تھا۔ آتے جاتے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ شاید اس کی وجہ ناصرہ کا دینی مزاج اور رکھ رکھاؤ والا ظاہری حلیہ اور محتاط انداز گفتگو تھا جو ان پر انتہائی سوٹ کرتا تھا۔
کبھی کبھی سٹاف روم میں دیگر کولیگز کے ساتھ بیٹھے ہوئے ناصرہ کی رضوانہ سے بھی تفصیلی نشست ہو جاتی تھی لیکن کبھی انفرادی طور پر ان کی آپس میں اتنی لمبی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔
ایک دفعہ پرنسپل اور سٹاف ممبران کی میٹنگ میں اتفاقا رضوانہ اور ناصرہ دونوں کی نشستیں اکٹھی تھیں۔ ناصرہ کی پوری توجہ میٹنگ کی کارروائی کی طرف تھی۔ میٹنگ روم کا ماحول سنجیدہ اور با وقار تھا۔ طے شدہ ایجنڈے (Agenda) کے مطابق پرنسپل اور ٹیچرز بات چیت کرتے ہوئے کالج میں طالبات کو پیش آمدہ اور ان کی طرف سے کھڑے کیے گئے مختلف مسائل کے حل کی طرف متوجہ تھیں۔
میٹنگ کے اختتام سے کچھ دیر پہلے رضوانہ ناصرہ سے آہستہ آواز میں بات کرنے لگیں۔ پہلے رضوانہ نے ناصرہ سے مردوں کی دوسری شادی کے بارے میں ایک سوال پوچھا جس کا اس نے بھی آہستگی سے مختصر سا جواب دے دیا۔
پھر رضوانہ ناصرہ سے اس موضوع پر مزید باتیں کرنے لگیں۔ ناصرہ کو ڈر لگ رہا تھا کہ پرنسپل صاحبہ کی ان پر نظر نہ پڑ جائے اور وہ ان سے دوران میٹنگ ذاتی بات چیت کرنے پہ ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن اتفاقاً اس دوران پرنسپل نے انکی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ چند منٹ بعد میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور سب سٹاف ممبران باہر آگئے۔ ناصرہ بھی سٹاف روم میں آکر گھر جانے کے لیے جلدی جلدی اپنی چیزیں سمیٹنے لگیں۔ رضوانہ سست قدموں سے چلتی سٹاف روم میں آکر اسکے قریب بیٹھ گئیں۔
“مس ناصرہ! میں آپ سے کچھ باتیں ڈسکس کرنا چاہتی ہوں۔ بلکہ پوچھنا چاہتی ہوں۔” رضوانہ نے ناصرہ سے بات چیت کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے کہا۔
“جی۔” ناصرہ نے جواب دیا۔ اگرچہ چھٹی کے بعد اسے گھر جانے کی جلدی تھی لیکن وہ رک گئی۔ رضوانہ نے بھی اپنے گھر جانا تھا۔ لیکن وہ دونوں سٹاف روم میں ٹھہر گئیں تاکہ اس گفتگو کو مکمل کر لیں۔
“اسلام میں آخر مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یہ تو عورت پر بڑا ظلم ہے۔” رضوانہ ناصرہ سے پوچھنے بلکہ اپنی رائے بتانے لگیں ۔ ناصرہ نے جلدی سے موبائل پر اپنے میاں کو میسج کیا کہ وہ آدھے گھنٹے کے بعد فارغ ہوگی۔ اور پھر دل میں دلائل کے ساتھ تسلی بخش گفتگو اور رضوانہ کے شرح صدر کے لیے دعائیں کرتی ہوئے رضوانہ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
“شرم و حیا عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ فطری طور پر ایک مرد کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے۔ یہ اس کے حسب مزاج بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی۔ کئی حالتوں میں مثلاً حیض و نفاس اور بیماری و شدید تھکن میں شوہر کی دوسری بیوی کیا اس کے لیے نعمت ثابت نہیں ہوتی؟ کیا خواتین ان مسائل میں پریشان نہیں ہوتیں؟
شریعت اسلامیہ نے مردوں کو تعدد ازواج کی اجازت اپنی عزت و عصمت کی حفاظت اور معاشرے کی اصلاح کے لیے دی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ مردوں نے بیویوں کے درمیان ناانصافی کرکے اس کا چہرہ مسخ کر دیا ہے بلکہ اسے معاشرے کے لیے قابل نفرت بنا دیا ہے۔
لیکن نہ تو ہر مرد چار شادیاں کرتا ہے اور نہ ہی وہ مالی طور پر ایسا افورڈ کر سکتا ہے۔ ہمارے معاشرتی مسائل کی وجہ سے تو مرد کی دوسری شادی بھی نسبتاً مشکل سے ہوتی ہے اور تیسری اور چوتھی شادی کی تو نوبت بہت کم آتی ہے۔” ناصرہ نے تفصیل سے جواب دیا۔
“لیکن آخر مرد کو دوسری شادی کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ مرد دوسری شادی کے پہلی بیوی اور بچوں کو تو جیسے بھول جاتے ہیں اور ان کے حقوق پورے نہیں کرتے۔” رضوانہ نے غصے سے نہایت بلند آواز میں پھر پوچھا۔
“اگر کوئی مرد دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق احسن طریقے سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتا ہو تو اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی یہاں عدل و انصاف بنیادی شرط ہے لیکن اگر دوسری شادی کے لیے مرد جسمانی یا مالی طاقت نہ رکھتا ہو یا دوسری شادی کے بعد وہ اپنی بیویوں میں عدل و انصاف اور برابری کا رویہ نہ رکھ سکے تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔” ناصرہ نے جواب دیا۔
“عورت تو سوکن کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اللہ نے مرد کو دوسری شادی کی اجازت دے کر عورت پر بڑا ہی ظلم کیا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟” رضوانہ کا اگلا سوال پہلے سے تیار تھا
یہ سن کر ناصرہ نے جیسے دل تھام لیا۔ پھر حوصلہ کرکے کہنے لگی۔”اگرچہ عورت کا سوکن کو برداشت کرنا بڑا مشکل ہے تاہم یہ ناممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا منصف ہے اور اس نے مرد کے ساتھ عورت کے مزاج اور ضرورت کو بھی مدنظر رکھ کر مردوں کو تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے۔ اور اس میں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کو بنیادی بات بلکہ دوسری شادی کی شرط قرار دیا ہے۔ اور اس میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ اگر مرد عدل و انصاف نہیں کر سکتا تو وہ دوسری شادی نہ کرے۔” ناصرہ نے انہیں جواب دیا۔
پھر وہ مزید کہنے لگی کہ”اللہ تعالی ظالم نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر انصاف کرنے والا ہے۔ اس نے عورت کو حسب ضرورت تمام حقوق احسن انداز میں مہیا فرمائے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ بعض اوقات شوہر کی دوسری شادی بیوی کے لیے اللہ تعالٰی کا احسان ثابت ہوتی ہے۔”
ناصرہ کی باتیں سن کر رضوانہ نے برا سا منہ بنا لیا، عجیب سے انداز میں مسکرائیں اور بڑے تلخ اور نفرت انگیز لہجے میں کہنے لگیں۔”عورت کے لیے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی دوسری بیوی کو برداشت کرے؟ میرے شوہر اگر دوسری شادی کرلیں تو میں ان کو قتل کردوں ۔ مس ناصرہ ! میں تو اپنی سٹوڈنٹس کو بھی پڑھاتے ہوئے بتاتی ہوں کہ اسلام میں عورت کے لیے بڑی پابندیاں ہیں۔” رضوانہ جذباتی انداز میں بات کرتے ہوئے کہنے لگیں۔
“یہ تو نامناسب ہے کہ آپ کلاسز میں طالبات سے ایسی گفتگو کریں۔”ناصرہ نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا۔ اسے اور دیگر اساتذہ کو یہ بات معلوم تھی کہ رضوانہ اپنی کلاسز میں اسلام مخالف نظریات اور پاکستان مخالف نظریات پر بڑے آرام سے بات کر دیتی ہیں اور انہیں ان باتوں پر پرنسپل صاحبہ کی طرف سے سخت تنبیہہ (Warning) بھی کی جا چکی تھی لیکن وہ باز نہیں آئی تھیں۔
” دوسری شادی کرنے والی عورتیں پتہ نہیں کیسی عجیب ہوتی ہیں جو پہلی بیوی کی موجودگی کے باوجود شوہر کی دوسری بیوی بننے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور پہلی بیوی اور بچوں کے حق پر ڈاکہ ڈال لیتی ہیں؟” رضوانہ نے بدستور ناگواری سے ایک نیا اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
” ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی یا خاتون کے لیے بھی کسی مرد کی دوسری بیوی بننا آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں کن کن مجبوریوں اور ناساز گار حالات کی وجہ سے وہ دوسری شادی کا فیصلہ کرتی ہیں ۔ پھر دوسری شادی کے سلسلے میں عموماً خواتین کے نامناسب رویوں کی بہت بڑی وجہ معاشرتی رویے ہوتے ہیں۔ مذہب سے دوری یا مذہب بیزاری بھی ایک وجہ ہوتی ہے ۔ پھر ہندو کلچر کے آثار بھی ہمارے معاشرے میں کافی حد تک پائے جاتے ہیں جو تعدد ازواج کے خلاف ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر مرد کو پہلی یا دوسری بیوی یا اس کے میکے والوں کے پریشر پر زبردستی دوسری یا پہلی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور ان باتوں کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے حالانکہ دین کی رو سے یہ سرے سے بیوی کا حق نہیں ہوتا بلکہ الٹا یہ تو کبیرہ گناہ ہے۔”ناصرہ بڑے ضبط سے بولی۔ اسے اب یہ اعتراض در اعتراض کا سلسلہ بہت ناگوار لگ رہا تھا۔
“میرے میکے والے تو کبھی اس صورت میں مجھے ایسے شوہر کے ساتھ نہ رہنے دیں جو مجھ سے وفا نہ کرے اور کسی دوسری عورت سے شادی کرلے۔” رضوانہ اب کسی ایسی صورت حال میں اپنے میکے والوں کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں بات کرنے لگیں۔
“بیوی کے میکے والوں کو بھی جذباتی ہو کر کوئی غلط قدم اٹھانے کے بجائے صبر و تحمل اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔”ناصرہ نے مختصر جواب دیا۔
“مس ناصرہ! مجھے ذرا یہ تو بتائیں کہ پھر جنت میں صرف مردوں کو حوریں کیوں ملیں گی؟ عورتوں کے لیے حسب پسند غلمان یا زیادہ جنتی مرد کیوں نہیں ہوں گے؟” اب وہ زہریلے طریقے سے، بڑے بھونڈے اور مذاق اڑانے والے انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
“عورت کا شرم و حیا کا جو مزاج اور فطرت دنیا میں ہے، وہی آخرت میں ہوگی۔ باحیا خواتین دنیا میں بھی ایک شوہر کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہیں اور آخرت میں بھی ان کی یہی خواہش ہوگی۔” ناصرہ نے جواب دیا۔
“چلیں تعدد ازدواج دنیا میں مردوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آخرت میں ایسے کیوں ہوگا؟ دوسری دنیا میں بھی عورت کے ساتھ بے انصافی کیوں ہوگی؟” وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
“بتائیں نا مس ناصرہ؟ مجھے اس سوال کا جواب دیں۔”وہ جواب مانگ رہی تھیں۔
ناصرہ رضوانہ کے الفاظ اور اس سے زیادہ ان کے زہریلے و کٹیلے لہجے پر دنگ رہ گئی جو ان کے لہجے سے قطرہ بہ قطرہ اور لفظ بہ لفظ ٹپک رہا تھا۔ تاہم ناصرہ نے شائستگی سے جواب دیا کہ”عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ “حور” سے مراد صرف خوبصورت خواتین یا دوشیزائیں ہیں۔ لیکن لفظ “حور” دراصل مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت اپنی فطرت کے برعکس زیادہ شوہروں کی خواہش رکھتی ہو تو عین ممکن ہے کہ اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دی جائے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:”و لکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون۔” (حم سجدہ: 31)ترجمہ: “اور تمہارے لئے اس (جنت) میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے نفس چاہیں گے اور تمہیں اس میں وہ سب کچھ ملے گا جو تم مانگو گے۔”
“ویسے بھی آخرت ناممکن کی نہیں بلکہ ممکنات کی دنیا ہوگی۔ تاہم جس طرح عام طور پر شرم و حیاء کی حامل خواتین کی دنیا میں ایک شوہر کی خواہش ہوتی ہے۔ تو آخرت میں بھی ان کی یہی خواہش ہوگی۔” ناصرہ نے کہا
پھر اس نے اٹھتے ہوئے ان سے مزید کہا کہ “ہم مسلمان خواتین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر یقین رکھتی ہیں۔ ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ ہم تعدد ازدواج کے بارے میں اس طرح گفتگو کریں جیسے غیر مسلم خواتین کرتی ہیں۔ ہم یہودی، عیسائی یا کافر خواتین تو نہیں ہیں کہ ہم اس بارے میں ان کے انداز یا نظریات کو اپنائیں۔ بلکہ سابقہ آسمانی کتابوں تورات اور انجیل میں بھی تعدد ازواج کو جائز اور فطری قرار دیا گیا ہے۔
اگر یہ بات ہماری عقل میں نہیں آتی ، اور ہم اس کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے تو یہ ہماری ناقص العقلی ہے۔ اللہ تعالٰی کا حکم بہرحال کامل اور بہترین ہے۔
میں نے کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں کہ دو سوکنیں ایک دوسرے کے ساتھ احسن طریقے سے رہتی ہیں۔ ایک دوسرے کے بچوں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ اور معاشرے کے لیے عملی نمونہ ثابت ہوتی ہیں۔”ناصرہ نے بات سمیٹی۔
ناصرہ کو اب دیر ہو رہی تھی اور وہ گھر جانا چاہتی تھی۔ باہر اس کے میاں اس کے انتظار میں تھے اور اس کے موبائل پر کالز پر کالز کررہے تھے۔
وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ رضوانہ بھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ اگرچہ وہ خود ڈرائیونگ کرتی تھیں لیکن اب ان کے موبائل پر بھی بار بار کالز آرہی تھیں۔ وہ ابھی مزید بات کرنا چاہتی تھیں لیکن ناصرہ نے اختتامی کلمات کہہ کر جانے کے لئے قدم بڑھا دیے۔
اس نے اپنی طرف سے مختصر وقت میں حتی الامکان رضوانہ کا ذہن واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اسے ان کے چہرے کے تاثرات اور ان کی مزید گفتگو کی خواہش سے اندازہ ہو رہا تھا کہ رضوانہ کا ابھی ذہن بالکل مطمئن نہیں ہوا اور وہ اپنے گزشتہ خیالات پر قائم ہیں۔
ناصرہ کو یہ بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ اپنے ذہن کو مطمئن کرنا ان کا مقصود تھا ہی نہیں بلکہ وہ تو صرف ذہنی بھڑاس نکالنا اور دلی بغض ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ ناصرہ کو علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا۔؎
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
گھر واپسی کے سفر میں اور پھر اس مزید کئی دن تک ناصرہ کا ذہن اسی گفتگو میں الجھا رہا۔ وہ رضوانہ کی زہر بھری گفتگو اور زہریلا لب و لہجہ ذہن سے نکال نہیں پا رہی تھی۔ بے حساب پریشانی نے اس کے دل و دماغ کا احاطہ کیے رکھا۔
یہ ایک حقیقی واقعے کی چھوٹی سی جھلک ہے۔ جو کالج کے دین بیزار پڑھے لکھے طبقے کے نظریات کی آئینہ دار ہے۔
بالآخر مس رضوانہ کا کیا معاملہ ہوا؟کالج کی پرنسپل صاحبہ نے مس رضوانہ کی باتوں، رویوں اور معاملات کا بروقت نوٹس لیا، افسران بالا تک رپورٹس پہنچائیں۔ اس نیم سرکاری (سیمی گورنمنٹ) ادارے میں جب ان کے لیے حالات ناسازگار ہوگئے تو انہوں نے اپنا رویہ قدرے بہتر کر لیا۔ پھر جب ایک سالہ کنٹریکٹ (contact) پورا ہوا تو انہوں نے خود ہی ادارہ چھوڑ دیا اور کنٹریکٹ ری نیو (Re new) کروانے کے لیے دوبارہ اپلائی (Apply) تک نہ کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
چند برس بعد ناصرہ کی ایک دوسرے کالج میں اتفاقاً رضوانہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بیمار اور پژمردہ سی نظر آرہی تھیں ۔ وہ ان کا بدلا حلیہ اور سادہ طور اطوار دیکھ کر کافی حیران ہوئی۔
“میم رضوانہ تو کافی بدلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ کیسا انقلاب آگیا ان کی زندگی میں؟” ناصرہ نے اسی کالج کی ایک واقف کار پروفیسر سے رضوانہ کے بارے میں دریافت کیا۔
“رضوانہ کے میاں کئی برس قبل دوسری شادی کر چکے ہیں۔ جس کی بنا پر رضوانہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی لیکن والدین کے گھر اپنی بھابیوں کے ساتھ اس کی ایک نہ بن سکی تھی۔ بھائیوں کے بچے بھی اس کے بچوں کو تنگ کرتے اور طعنے دیتے تھے۔ اس کے بچے بھی کم نہ تھے۔ لہذا گھر میں ہمہ وقت جنگ و جدل کی صورتحال برپا رہتی تھی۔”پروفیسر صاحبہ نے بتایا۔
“پھر کیا ہوا؟” ناصرہ نے تجسس سے پوچھا۔”ناصرہ کے دل و دماغ پر ان حالات کا گہرا اثر ہوا۔ اس نے کبھی خواب و خیال میں بھی ان مسائل کا تصور نہیں کیا تھا جو اب اسے درپیش تھے۔
وہ کچھ عرصہ کرائے پر علیحدہ گھر لے کر بھی اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر رہی لیکن ایک رات اس کے گھر میں گن پوائنٹ پر ہونے والی ڈکیتی کی واردات اور ہوائی فائرنگ نے انہیں نہایت خوفزدہ کر دیا تھا وہ اور اس کے بچے عدم تحفظ کا شکار ہو گئے تھے۔ لہذا رضوانہ کو دوبارہ اپنے والدین کے گھر رہائش پذیر ہونا پڑا۔
رفتہ رفتہ وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی تھی۔ اور گردو پیش کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں سے بھی بالکل غافل ہو گئی۔ اسے کچھ عرصہ مینٹل ہسپتال میں بھی رہنا پڑا۔ دوسری طرف بچے بری صحبت میں پڑنے لگے۔ اس کے سابقہ شوہر نے ان حالات اور ناصرہ کی ذہنی کیفیت کے بارے میں جان کر بچے اپنی کسٹڈی ( custody ) میں واپس لے لیے تھے ۔ رضوانہ نے صحت یابی اور ہسپتال سے گھر واپسی کے بعد اس بات کی بھی بہت ٹینشن لی تاہم یہ معاملہ اس کے حق میں بہتر ثابت ہوا۔
ناصرہ کی بھابیاں ابھی بھی اسے کسی طور برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھیں کیونکہ اس نے پہلے ان سے بہت برا رویہ اختیار کیے رکھا تھا اور ان کے لیے وقتاً فوقتاً مسائل کھڑے کرتی رہتی تھی۔
لہذا کچھ عرصے بعد ناصرہ کے والدین نے مجبوراً ایک عمر رسیدہ، شادی شدہ، جوان بچوں والے مرد سے اس کی دوسری شادی کر دی تھی۔ اور اب وہ اپنی سوکن اور اس کے بڑے جوان بچوں کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہے جہاں اس کی سوکن کی مکمل حکمرانی ہے۔ “
“کیا مس رضوانہ اپنی سوکن کے ساتھ رہتی ہیں؟” ناصرہ نے حیرت سے پوچھا۔ اس کے ذہن کی سکرین پر تعدد ازواج کے حوالے سے رضوانہ کی باتیں فلم کی طرح چل رہی تھیں۔
“جی ہاں۔ رضوانہ مجبوری میں وہاں زندگی کے شب و روز بسر کر رہی ہے۔ وہ کچھ ڈیپریس سی رہتی ہے اور اس کا علاج معالجہ بھی چلتا رہتا ہے جس کے اخراجات وہ اپنی تنخواہ میں سے خود کرتی ہے۔””چچ چچ۔” ناصرہ کو کافی افسوس ہو رہا تھا۔”اس کی ساری اکڑ اور غرور و تکبر حالات نے ختم کر دیے ہیں۔”پروفیسر صاحبہ نے مزید بتایا۔
“استغفر اللہ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔” ناصرہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔
اسے رضوانہ کی دوسری شادی کے حوالے سے اپنے ساتھ کی گئی گفتگو )Dialogue)، اور زہریلا لہجہ، شرعی احکامات کی بے حرمتی، غرور و نخوت، کروفر وغیرہ سب کچھ بخوبی یاد آرہا تھا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
7 پر “کیا ایک شادی ہر مسئلہ کا حل ہے؟” جوابات
منفرد ، مدلل اور مؤثر کہانی ہے۔ بہت اہم، نازک اور حساس موضوع پر بہت اچھے انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
بلاشبہ دنیا مکافات عمل کا نام بھی ہے۔
اس نازک اور حساس موضوع پر منفرد، مدلل اور معتدل انداز میں لکھی گئی بہت اعلیٰ تحریر ہے.
ماشاءاللہ
Jazak Allah bohat acha column ha
میچور خواتین کو شوہر کی دوسری شادی کے لئے دل اور گھر کے دروازے کھولنے ھوں گے اس سے معاشرے کے کئی مسائل حل ھوں گے۔۔۔بحثیت عورت میں نے
شروع شادی میں ہی اپنے شوہر کو کہہ دیا تھا کہ جب جہاں شادی کے لئے ضرورت مند عورت یا مجبور اور مستحق عورت نظر آئے آپ ضرور اسے اپنا کر سہارا دیجئے گا ۔۔۔
جب نیت صرف اور صرف اللہ کی رضا ھو تو یہ خوف نہیں آتا کہ میرے حقوق کا کیا ھوگا؟ یا مجھے کچھ کمی ھو جائے گی۔۔میں اپنے حلقے میں کئی عورتوں کو جانتی ھوں جنہوں نے کھلے دل سے شوہرو ں کو دوسری شادی کی اجازت دی ۔۔ھاں اکثر ایشیائی اور خاص کر پاکستانی مرد دوسری شادی زیادہ زمہ داریوں اور بوجھ کی وجہ سے نہیں کرتے۔۔
معتدل اور مدلل انداز بیاں میں ایک بہت اہم، حساس اور نازک معاملہ بیان کیا گیا ہے۔
اکثر ایشیائی اور خصوصاً پاکستانی مرد اگر دوسری شادی کرلیں تو عدل و انصاف کی بنیادی شرط پوری نہیں کرتے جس کی وجہ سے مسائل بھی بنتے ہیں اور ایسے لوگوں کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ، مؤثر اور معلوماتی آرٹیکل ہے۔
Nice and logical Article
Masha Allah