ڈاکٹر خولہ علوی
“آنٹی! آپ کی بھانجی آپی تہمینہ کی شادی کی کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے؟” سارہ نے اپنی ہمسائی آنٹی صبیحہ سے پوچھا جو کسی کام سے ان کے گھر آئی ہوئی تھیں۔
“تین اپریل۔”آنٹی صبیحہ نے مختصر جواب دیا۔
“اتنی جلدی۔ صرف دو ہفتے بعد؟”بے ساختہ سارہ کے منہ سے نکلا۔
“اتنی جلدی تو نہیں ہے۔ اب بھی وہ لوگ تو کئی ماہ سے بلکہ نکاح کے بعد سے ہی شادی کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔”آنٹی صبیحہ بولیں۔
“انہوں نے نکاح کے موقع پر بھی اتنا اہتمام کیا تھا۔”سارہ نے بات بڑھائی۔
ان کی مالی حیثیت بہت اچھی ہے تو انہوں نے اسی لحاظ سے اہتمام بھی خوب کیا تھا۔”آنٹی نے جواب دیا۔
آنٹی کے جانے کے بعدان کی گفتگو کا یہی موضوع رہا۔
“تہمینہ آپی کے گھر والے کتنے امیر لوگ ہیں!
اتنا زیادہ جہیز دے رہے ہیں اپنی بیٹی کو!
اور اس کے سسرال والوں کے لیے بھی اتنا زیادہ لین دین کر رہے ہیں!” سارہ نے اپنی بڑی بہن ماریہ سے کہا۔
“جی ہاں! ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اور وہ اپنی خوشی سے اپنے گھر کی پہلی شادی پر بھرپور اہتمام کر رہے ہیں۔”ساریہ کی والدہ نے کہا جو ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔
“میں سوچتی ہوں کہ تہمینہ آپی کتنی خوش قسمت ہیں!
وہ اتنی ذہین و فطین، خوبصورت، تعلیم یافتہ، مہذب اور شائستہ اطوار ہیں!
اتنے اچھے طریقے سے، اتنے نرم لہجے میں گفتگو کرتی ہیں!” ساریہ نے تہمینہ آپی کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
“ماں باپ بھی اتنے امیر ہیں، اور پھر آگے سسرال والے بھی امیر کبیر ہیں۔اور ان کا گھر بھی اتنا خوبصورت اور وسیع وعریض ہے۔”ماریہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
“ان کے میاں بھی اتنے پڑھے لکھے ہیں،
اتنی شاندار شخصیت (Personality) کے مالک ہیں۔
ان کی جاب اتنی اچھی ہے۔
اتنی بڑی اور مشہور ملٹی نیشنل کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر ہیں۔
خوش قسمتی تو ان پر ختم ہے۔ ان کے اچھے نصیب کے کیا کہنے!”ساریہ نے جیسے کچھ حسرت سے کہا۔
“ماشاءاللہ کہو بیٹی! کہیں نظر نہ لگ جائے۔
ماشاءاللہ! اللہ تعالیٰ نے تہمینہ اور اس کے گھر والوں کو خوب نوازا ہوا ہے اور اب آگے بھی تہمینہ کی قسمت بہت اچھی دکھائی دے رہی ہے۔”سارہ کی والدہ نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
“ماشاءاللہ۔ ماشاءاللہ”دونوں نے بڑے دل سے کہا۔
“اللہ تعالیٰ ہماری بیٹیوں کی قسمتیں بھی اچھی کرے۔”ماں نے خلوص سے دعا کی۔
“آمین ثم آمین”دونوں کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آنٹی! آپی تہمینہ کے کتنے بچے ہیں؟”شادی کے کئی برس بعد آنٹی صبیحہ سے ملاقات ہوئی تھی۔
ساریہ اپنے گھر میں خوش باش تھی اور تین ننھے منے بچوں کی والدہ ماجدہ بن چکی تھی۔
آنٹی سے سلام دعا کے بعد سب کا حال احوال دریافت کرتے ہوئے اس نے آپی تہمینہ کے بارے میں بھی دریافت کیا جو اسے اکثر یاد آتی تھیں۔
“کوئی نہیں۔ وہ بے چاری ابھی تک اولاد سے محروم ہے۔”آنٹی نے تاسف سے جواب دیا۔
“ان کی شادی کو آٹھ نو سال تو ہو گئے ہیں نا” سارہ نے اپنی پانچ سالہ بچی کے بالوں کی چھوٹی چھوٹی پونیاں بناتے ہوئے سوال کیا۔
“تقریباً دس برس بیت چکے ہیں۔” آنٹی نے جواب دیا۔
“کیا انہوں نے علاج نہیں کروایا؟”ساریہ نے استعجاب سے پوچھا۔
“بہت علاج کروایا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم غالب آجاتا ہے۔”آنٹی نے کہا۔
“وہ تو کافی پریشان ہوں گی؟”ساریہ نے دلی دکھ محسوس کیا۔
“ہاں! لیکن تہمینہ نے شادی کے بعد پہلے سال سے ہی جاب کرلی تھی۔ وہ کافی مصروف رہتی ہے لیکن اس محرومی کا بہر حال کوئی مداوا نہیں۔”آنٹی صبیحہ بتانے لگیں۔
کچھ دیر بعد آنٹی اپنے گھر چلی گئیں۔
“ان کی اتنی آزمائش کیوں؟”ساریہ نے اپنی والدہ سے سوال کیا۔
“پیاری بیٹی! اللہ تعالیٰ ساری نعمتیں ایک فرد کو ہی تو نہیں دے دیتا۔”والدہ نے بڑے رسان سے جواب دیا۔
“وہ کسی کو ایک نعمت عطا کرتا ہے اور کسی کو دوسری۔ تمام سہولتیں کسی ایک فرد کا مقدر نہیں ہوتیں۔ نعمتوں کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی آزمائش بھی تو ہوتی ہے۔”والدہ نے مزید کہا
“بےشک۔ “ساریہ نے کہا۔
“بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔”
“ہمیں اپنے اوپر کی گئی نعمتوں کے لیے اللہ تعالٰی کا شکر گزار رہنا چاہیے خصوصاً اولاد جیسی عظیم اور قیمتی نعمت کا۔”ساریہ کی والدہ نے کہا۔
“الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔” بے ساختہ ساریہ کی زبان سے نکلا۔ اور اس کے دل و دماغ بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوگئے۔
“میں اپنے بچوں کی بہترین پرورش کرنے کی بھرپور کوشش کروں گی۔ ان شاءاللہ۔” اس نے اللہ تعالیٰ سے عہد کر لیا۔
2 پر “آزمائشوں کے رنگ” جوابات
بہت عمدہ اور مؤثر کہانی ہے ماشاءاللہ۔
واقعی اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس سے محرومی بہت بڑی آزمائش ہے۔
اللہ تعالیٰ سب بے اولاد جوڑوں کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین
آزمائش کے رنگوں میں بے اولاد بہت بڑی اور کٹھن آزمائش ہے.
اللہ تعالیٰ تمام بے اولادوں کو نیک اولاد سے نوازے. آمین ثم آمین