دھند

دھند و کہر میں لپٹی چند الم ناک یادیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

“آج 16 دسمبر کو اچانک ہر طرف شدید سردی، دھند اور کہر کی لہر تیزی سے چھا گئی ہے۔ دن میں دھوپ کا نام و نشان بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔”
فقیہہ نے اپنی کزنوں سے سلام دعا کے بعد کہا۔

وہ لوگ اور پھپھو کی فیملی شام کو دادا جان کے گھر آئے ہوئے تھے جہاں دادا جان اور دادی جان کے ساتھ چھوٹے چچا اور ان کی فیملی رہائش پذیر تھی۔ فقیہہ وغیرہ اور پھپھو کی فیملی اتفاقاً اکٹھے ہو گئے تھے لیکن اس حسن اتفاق پر خوش تھے۔

“دسمبر کے مہینے کو لوگ عموماً غمی، اداسی اور سوگواری کا مہینہ کہتے ہیں۔ شاعری میں بھی اور نثر میں بھی لوگ ماہ دسمبر کا تذکرہ کرکے اپنے دل کا غم و الم اور بوجھ ہلکا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔” چچا زاد زاد بہن عیشہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

“واقعی ہر طرف چھائی ہوئی دسمبر کی دھند اور پالہ دلوں میں بھی عموماً غمگین قسم کے جذبات و احساسات زیادہ پیدا کرتے ہیں۔”پھپھو زاد بہن اصباح نے عیشہ کی تائید کی۔ اصباح کالج میں فقیہہ کی کلاس فیلو بھی تھی۔

“سردیوں اور جاڑے کے موسم میں دسمبر و جنوری کا مہینہ مجھے بھی ذاتی طور پر بہت اداس کر دیتا ہے۔ کیونکہ ہمارے تقریباً سارے بزرگوں کی وفات انہی مہینوں میں ہوئی تھی۔ اور وہ دھند و کہر کے موسم میں اس دار فانی سے کوچ کرکے ہمیشہ کے لیے ہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے۔”پھپھو جان نے افسردہ لہجے میں کہا۔ وہ اب چائے لوازمات کے ساتھ پیش کر رہی تھیں۔

” بالکل بھابھی! ہمارے بھی کئی بزرگ اسی ماہ میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔” چچی جان نے بھی اپنی بپتا سنائی۔

“کل اور آج کلاس میں مطالعہ پاکستان کی پروفیسر صاحبہ میم راشدہ نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بڑی اچھی گفتگو کی تھی۔ اور طالبات کی اس موضوع پر ڈسکشن بھی بڑی فائدہ مند رہی تھی۔ ” فقیہہ نے بتایا۔

“ہمارے ذہنوں میں موجود کئی سوالات کے جواب واضح ہوئے تھے اور کافی کچھ سیکھنے کو ملا تھا۔”اصباح نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
“آپی ! ہمیں بھی بتائیں نا۔” دونوں چھوٹی کزنز نے شور مچایا جو میٹرک کی طالبات تھیں۔

“اس ماہ میں قومی سطح کے کئی اہم واقعات رونما ہوئے تھے مثلاً 16 دسمبر 1971 ءکو سقوط ڈھاکہ یا سقوط مشرقی پاکستان کا الم ناک سانحہ رونما ہوا تھا۔
16 دسمبر 2014ء کو سانحہ آرمی پبلک سکول کے نونہالوں کے قتل عام کا درد ناک واقعہ پیش آیا تھا۔”فقیہہ نے کہا۔
“جی۔ ہمارے سکول میں آج پروگرام بھی ہوا تھا۔”پھپھو زاد بہن زمر بولی۔
“اس کے علاوہ تیسرا ایک اور بڑا اہم واقعہ بھی 16 دسمبر 2006ء کو پیش آیا تھا جس کے بارے میں ٹیچر نے ہمیں آج بتایا تھا کہ
ضلع باجوڑ میں امریکی ڈرون طیارے نے قرآن کریم کے تقریباً 80 بے گناہ اور معصوم حافظ قرآن طالب علموں کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کر دیا تھا۔”فقیہہ نے نئی بات بتائی۔

سب لوگ لوازمات اور چائے سے لطف اندوز ہونے کے بعد اب کامل یکسوئی کے ساتھ ان کی باتیں سن رہے تھے۔ ان کے چہروں پہ حیرت نمایاں ہوئی اور آنکھوں میں اشکالات چمکنے لگے چنانچہ وہ طرح طرح کے سوالات پوچھنے لگے ۔ فقیہہ اور اصباح ان کے جوابات دیتی رہیں۔

“اللہ تعالیٰ ان بچوں کی عظیم شہادتیں قبول فرمائے۔”پھپھو جان نے یہ مختصر سی تفصیل سن کر نہایت تاسف کے ساتھ رنج بھری آواز میں کہا۔
“آمین ثم آمین”سب نے باآواز بلند کہا۔
“یہ بڑا افسوسناک واقعہ تھا لیکن اس کے بارے میں کبھی پڑھا سنا تک نہیں۔” اصباح نے سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا۔
“بالکل۔” بریرہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

“اس مہینے میں 21 دسمبر 1984ء کو قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی وفات بھی ہوئی تھی۔” فقیہہ نے ایک اور بات بتائی۔
“اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر ٹھنڈی رکھے۔ ” پھپھو جان نے خلوص دل سے دعا کی۔
“آمین ثم آمین” سب نے ایک آواز میں کہا۔

“اس کے علاوہ اس ماہ میں 25 دسمبر قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہے جو 1876ء میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ہمارے عظیم رہبر و رہنما تھے اور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانا چاہتے تھے۔”اصباح بولی۔
“جی بالکل۔ “چچا زاد بہن بریرہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

“ہمارے سکول میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی 16 دسمبر کو لوگ “یوم سیاہ” (Black Day) کہتے ہیں۔” بریرہ نے بتایا۔

“یہ تو غلط بات ہے اور گناہ ہے۔ ہماری ٹیچر نے بھی یہ بات واضح کی تھی کہ تمام دن اللہ تعالٰی نے بنائے ہیں۔ لہذا کسی دن کو “بلیک ڈے” کہنا یا منحوس سمجھنا قرآن وسنت کی رو سے جائز نہیں ہے۔”

*حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
“ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادل بدل کرتا رہتا ہوں۔” (صحیح بخاری: 4826)

“آپی ! آپ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں کچھ تفصیل بتائیں نا۔
آج ہمارے سکول میں بھی پروگرام ہوا تھا ۔ بڑی کلاسز کی طالبات نے تقریریں، ترانے، ٹیبلو وغیرہ پیش کیے تھے لیکن اس میں زیادہ توجہ سانحہ APS کی طرف دی گئی تھی ۔ میں نے بھی سانحہ APS کے بارے میں ایک ترانہ پڑھا تھا۔ البتہ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں ہمیں کوئی خاص باتیں معلوم نہیں ہوئیں۔”زمر نے تفصیل سے بتایا۔

“مجھے یہ سن کر کافی افسوس ہوا ہے لیکن پھر یہ خیال آیا ہے کہ مجھے بھی تو آج ہی سقوط ڈھاکہ کے بارے میں کتنی نئی باتوں کا پتہ چلا ہے۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ ہماری محب وطن اور فرض شناس ٹیچر نے ان دو دنوں میں ہمیں اس کے بارے میں کافی آگاہی دی ہے اور اس کی اہمیت سے صحیح معنوں میں روشناس کروایا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو ہمیں بھی کسی ٹیچر نے اس طرح بتایا یا سمجھایا نہیں تھا۔” فقیہہ تاسف سے بولی۔
“بالکل۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔” زمر نے بھی شدو مد سے تائید کی۔

“ٹھیک ہے۔ میں آپ کو کچھ باتیں بتاتی ہوں جو ہمیں ہماری ٹیچر نے بتائی ہیں اور کچھ کلاس ڈسکشن سے معلوم ہوئی ہیں۔ بعد میں، میں نے خود بھی انٹرنیٹ سے اس موضوع کے متعلق مزید معلومات حاصل کی تھیں۔” فقیہہ نے کہا تو سبھی ہمہ تن گوش ہو کر اس کی باتیں سننے لگے۔

“وہ میم راشدہ کا لیکچر دہرا رہی ہے اور انہی کی طرح سمجھا رہی ہے۔ “اصباح کو ایسا لگ رہا تھا
اور فقیہہ کی والدہ اسے دیکھتے اور سنتے ہوئے حیران ہو رہی تھیں۔
“ماشاءاللہ! اچھے استاد کا طالب علموں پر کتنا اچھا اثر پڑتا ہے! ” پھپھو جان نے ان کی طرف جھک کر ان سے دبی آواز میں کہا۔
“بالکل! استاد کی محنت اور تربیت طالب علموں کو کہاں تک پہنچا دیتی ہے۔” فقیہہ کی والدہ نے خوشی سے لبریز آواز میں جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“غزوہ بدر تا غزوہ خندق ہماری اسلامی تاریخ کے نہایت زریں اور خوبصورت ابواب ہیں۔
اور غزوہ احد و حنین میں مسلمانوں نے وقتی پسپائی سے بڑے اہم عملی اسباق سیکھے تھے۔

سقوط غرناطہ اور سقوط بغداد کے بعد سقوط ڈھاکہ بھی امت مسلمہ کے رستے ہوئے ناسور ہیں۔

“سقوط ڈھاکہ” پاکستان کی تاریخ کا نہایت الم ناک باب ہے۔
لیکن یہ کسے یاد ہے؟ کیسے یاد ہے؟
کتنا یاد ہے؟ اس کے حاصل ہونے والے اسباق کون سے ہیں؟ کس نے ان سے کیا سیکھا ہے؟

ہمارے طالب علموں کو تعلیمی نصاب میں اس کے بارے میں کون سی صحیح یا مستند (Authentic) معلومات فراہم کی گئی ہیں؟

اس کے حقائق کے بارے میں کون سی تحقیقات عوام کے سامنے لائی گئی ہیں؟

بلاشبہ اس سانحے کی یاددہانی اور اپنی غلطیوں کی اصلاح بحیثیت قوم اور عوام نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ جو قومیں اپنا ماضی بھلا دیتی ہیں، ان کا مستقبل انہیں بھلا دیتا ہے۔

اس دل تڑپا دینے والے سانحے میں غیروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے علاوہ اپنوں کی نادانیاں بھی شامل ہیں۔

مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے باقاعدہ مکمل پلان اور سازش کے تحت علیحدہ کیا گیا ۔ اتنے بڑے واقعے کی بنیادی وجوہات میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے آپس کے سیاسی، لسانی (اردو اور بنگلہ زبان) معاشی، معاشرتی اختلافات، ملکی وسائل کی نسبتاً غیر منصفانہ تقسیم، سیاستدانوں اور ارباب حل و اقتدار کی معاملہ نا فہمی اور کوتاہیاں وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ہندو اساتذہ کا مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں متعصبانہ تعلیم دینا اور طالب علموں کے ذہنوں میں نظریہ پاکستان اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرتیں بھر دینا slow poisoning تھی اور نہایت اہم، نازک اور حساس معاملہ تھا جس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا۔ نہ ہی ان کے بجائے مسلمان اساتذہ کا انتظام و انصرام کیا گیا کہ اس عظیم فتنہ کا سدباب ممکن ہو سکے۔

؎ جو دکھ ملا اپنوں سے ملا، غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

پھر بھارت کو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی صورت میں ایک غدار اور کٹھ پُتلی حکمران بھی مل گیا تھا جس نے معاملات کو آخری حد تک بگاڑ دیا تھا۔ جسے بعد میں 1975ء میں خود بنگلہ دیشی فوج نے قتل کر دیا تھا۔

یہ بہت اہم، نازک اور حساس مسائل تھے جو مشرقی پاکستان میں پیدا کیے جا رہے تھے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بڑی سمجھ بوجھ اور حکمت و مصلحت درکار تھی لیکن ہمارے ناعاقبت اندیش سیاست دانوں اور حکمرانوں کے بروقت عملی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بالآخر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو گیا جسے تب سے “بنگلہ دیش” کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔

؎ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

جب کبھی تصور کی آنکھ سے دیکھیں کہ 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مسلمان جنرل اے کے نیازی نےجنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہندو جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور اپنا ریوالور اس کے حوالے کر دیا تھا تو اس ذلت ورسوائی والے منظر کا سوچ کر بھی دل پھٹتا ہے، اور جبیں عرق آلود ہونے لگتی ہے۔۔۔مگر اس سے کیا حاصل؟؟؟

اس موقع پر پاکستانیوں نے عظیم ترین تاریخی ذلت و پستی کا مشاہدہ کیا تھا۔
اور پھر جنرل یحیٰی خان نے غیور اور شیر دل پاکستانی فوجیوں کی ایک کثیر تعداد (جو عموماً 94 ہزار بیان کی جاتی ہے ) سے بھی حکما (یا جبرا) ہتھیار ڈلوادیے تھے اور وہ مجاہدین انڈیا کے جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے۔
مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد کا یوں ہتھیار ڈال دینا اور انڈیا کے قیدی بن جانا پاکستان اور اسلام کے نام پر بہت بڑا دھبہ تھا۔

لیکن۔۔۔ جب میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار ہمارے اندر ہوں تو پھر ملک اسی طرح دو لخت ہو جاتا ہے ۔ یہ بڑی تلخ حقیقتیں ہیں کہ اپنوں کے دیے گئے زخم بھلائے نہیں جاتے۔

؎ ‏شکوہ نہیں کافر سے کہ وہ ٹھہرا جو کافر
تم لوگ تو اپنے تھے ، مسلمان تھے آخر

انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کو اس کے قیام کے صرف چوبیس برس بعد دولخت ہونے پر یہ زہریلا بیان دیا تھا کہ
“آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔”

تب عرب و عجم کے حساس مسلمانوں کے دلوں پر کیا گزری تھی مگر ۔۔۔وطنِ عزیز ناقدر شناس اور ملک توڑنے والوں کے حوالے ہوگیا جو اب تک نسل در نسل عوام پر مسلط ہیں۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“اور “جیےبنگلہ” اور “سنار بنگلہ” اور “ادھر ہم، ادھر تم” کے نعرے لگانے والے مشرقی پاکستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ “ہم بنگلہ دیشیوں نے مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے ان کی غلامی سے نجات حاصل کر لی ہے۔”
لیکن۔۔۔۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بہت تلخ نتائج دونوں ممالک نے بھگتے ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک کے علاوہ پوری امت مسلمہ پر اس کے گہرے اثرات پر مرتب ہوئے ہیں۔خود بنگلہ دیشیوں نے اس کے بڑے تلخ نقصانات اٹھائے ہیں۔ کیونکہ صرف تھوڑے سے لوگ بمشکل چند فی صد علیحدگی کے حامی تھے لیکن وہ بے پس تھے۔

کیونکہ “مکتی باہنی” کی غنڈہ گردی غالب آگئی تھی جو بنگالی غنڈوں اور بدمعاشوں کی پارٹی تھی۔ اس کے علاوہ انڈین آرمی کی بھی مسلسل مداخلت جاری تھی۔ مکتی باہنی اور انڈین فوجیوں نے سویلین لباس میں ملبوس رہ کر لگاتار فسادات اور مغربی پاکستان کے حامیوں کے پورے پورے خاندانوں کا قتل عام کرکے وسیع پیمانے پر نسل کشی کرتے رہے تھے۔

آج بنگلہ دیشی انڈیا کے مخالف ہیں، کیونکہ وہ اپنا دشمن پہچانتے ہیں لیکن۔۔۔ اب وہ ہمارے سجن بھی نہیں ہیں۔ اور نہ ہی بھائی بننے کے لیے تیار ہیں۔

پھر ان پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے علاوہ ایک تیسری نسل ابھی بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی پاکستان کے حامی تھے لیکن مشرقی پاکستان کے رہائشی تھے ۔ تو اس جرم کی پاداش میں آج تک ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ لوگ بنگلہ دیش میں کیمپوں میں محصور ہیں اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بنگلہ دیش ان کو اپنا شہری قرار دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی مغربی پاکستان ان کی اشک شوئی کے لیے تیار ہے۔

؎ دسمبر کی سرد راتوں میں آتا ہے یاد ڈھاکہ
بنگال کے حسن پر ڈالا عدو نے ڈاکہ

میرے دیس کے وجود پر خنجر چلا دیا تھا
میرے گھر میں دشمنوں نے محشر بپا کیا تھا

چٹاگانگ اور نواکھلی میں چیخیں تھیں، سسکیاں تھیں
کرب وبلا کا منظر تھا، وطن کی بیٹیاں تھیں

میری پاک سرزمیں کا ادھورا بدن پڑا تھا
غداروں نے اس کے چہرے پر کچھ اور لکھ دیا تھا

ڈھاکہ کا انتقام فرض ہے تم پہ میرے جوانوں
تکمیل وطن کا قرض ہے اے وطن کے پاسبانو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعد میں جب انکوائری کمیشن نے تحقیقات کیں تو “حمود الرحمٰن کمشن رپورٹ” کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے”ادھر تم، ادھر ہم” والے نظریہ کے حامل لوگوں نے جان بوجھ کر چھپایا۔ اور واضح حقائق قوم تک پہنچانے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ آج تک عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے معاملات کو فائلوں اور کاغذات کی تہوں میں دبا دیا گیا۔

پھر ہمارا ایک بازو کاٹ کر بھی دشمنوں کو چین و سکون حاصل نہیں ہوا ۔ اسلام دشمن عناصر کی سازشیں اور مکاریاں اب بھی جاری و ساری ہیں۔
ایک طرف انتہا پسند ہندو سوچ پاکستان کو ہڑپ کرنے اور دوبارہ “اکھنڈ بھارت” بنانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
دوسری طرف “گریٹر بلوچستان” کے نعرے اور بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازشیں مسلسل کسی نہ کسی صورت میں چل رہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اس کی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں۔
اللہ رب العزت پاکستان کو صالح اور جرات مند قیادت عطا فرمائے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
اور مقبوضہ کشمیر اور مشرقی پاکستان کو دوبارہ پاکستان کا حصہ بنا دے۔ آمین ثم آمین

؎ میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہوگا (اقبال)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “دھند و کہر میں لپٹی چند الم ناک یادیں” جوابات

  1. مبین Avatar
    مبین

    بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے ماشاء اللہ
    اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے. آمین ثم آمین

  2. طاہرہ Avatar
    طاہرہ

    ماشاءاللہ بہت اعلیٰ اور معلوماتی آرٹیکل ہے۔

    پڑھ کر کئی نئی باتوں سے آگاہی حاصل ہوئی اور ملک و ملت سے محبت اور اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے کی بہت زیادہ ترغیب ملی۔

  3. Muhammad Avatar
    Muhammad

    Nice and effective article
    Masha Allah