ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
15دسمبر1997 کو مولانا امین احسن اصلاحی نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ورثا کی خواہش پر سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ بیسویں صدی کا ایک چراغ پوری طرح اجالا پھیلانے سے قبل ہی بجھ گیا۔ ایک آفتاب چمکا ، پیشتر اس کے کہ اس کی شعاعیں پورا نور پھیلائیں ، غروب ہوگیا۔ ایک پھول کھلا مگر معاً مرجھا گیا۔ سبزہ لہلہایا مگر فوراً خشک ہو کر زمین کے برابر ہو گیا ۔
عربی کا فاضل یگانہ ، زہدوورع کی تصویر ، فضل وکمال کا مجسمہ ، عربی کا سوق ِعکاظ، ایک شخصیت منفرد لیکن ایک جہانِ دانش ، ایک دنیائے معرفت ،ایک کائنات علم ، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نواسلطانِ ہنر ، علوم ادبیہ کا یگانہ ،علوم عربیہ کا خزانہ ، علوم عقلیہ کا ناقد ، علوم دینیہ کاماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار…….
مولاناامین احسن اصلاحی عالم باعمل اورصاحب کردارانسان تھے ۔ علمی اختلاف کے باوجود مخالف علماء کی قدر دانی ، عام زندگی میں ایک دوسرے سے اخلاق و مروت کا سلوک اور معاشرتی رکھ رکھائو ، قرون اولیٰ کے علماءکی شان رہی ہے ۔ مولانا اصلاحی عصر حاضر میں اس کا عملی نمونہ تھے ۔ مولانا مودودی سے شدید اختلاف کے وقت آخری تحریر میں یہ فرمانا :’میں جانتا ہوں کہ آپ کی رفاقت سے محروم ہوکر میں کیا کچھ کھو رہا ہوں۔‘ ان کی وسیع الظرفی اورمخالف کے علم و فضل کی قدر دانی کی اعلیٰ مثال ہے ۔ خط کااختتام ان الفاظ پرہوتاہے:’ اس ( جماعتی ) حیثیت سے الگ آپ میرے بڑے بھائی ہے اورمیں انشاء اللہ آپ کی برابر عزت کرتا رہوں گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اپنی شفقتوں سے محروم نہیں فرمائیں گے۔‘
پروفسیرخورشیداحمد ، مولانااصلاحی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:’ ستمبر 1979ء کو مولانا مودودی کا انتقال ہوا تو ( مولانا اصلاحی ) منصورہ تشریف لائے۔ میں مولانا مودودی ؒ کے جسدِ خاکی کے ہمراہ آیا تھا،اس لئے اشک بار آنکھوں کے ساتھ مجھ سے کرید کرید کر سوالات کرتے رہے ۔ کئی بار فرمایا ’ آج میرا یار چلا گیا‘۔ صحافیوں نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں کریدا تو کہا ’ان کے بارے میں آپ کیا جانیں، ایک مزاج شناسِ رسول ﷺ جدا ہوگیا۔‘
مولانا اصلاحی کی طبیعت میں بڑی غیرت ، وقار ، تمکنت اور بے نیازی تھی ۔ صدرایوب خان نے پوچھا :’مولانا کوئی خدمت بتائے‘؟ مولانا کا جواب تھا :’آپ سے جو کچھ کہنا ہوتا ہے’ میثاق ‘ کے اداریوں میں کہہ دیتا ہوں ۔ اس پرعمل کیجئے، یہی سب سے بڑی خدمت ہے‘۔ بھٹو نے پیغام بھیجا کہ حکومت آپ کے لئے کچھ کرناچاہتی ہے ، جواب دیا :’میں حکومت کے وظیفہ خوروں کو ہمیشہ ملّت فروش کہتا رہا ہوں ، کیا اب خود بھی یہی کام کروں گا؟‘
مولانا نے نہایت سادہ زندگی گزاری ۔ ضروریات کو محدود رکھا ، جو مل گیا اس پر گزارا کیا ۔ رحمان آباد گائوں میں منتقل ہوئے تو وہاں بجلی کی سہولت بھی نہ تھی لیکن اسی حالت میں ’تدبّر قرآن‘ کی تحریروتسوید کا بیشترکام کیا ۔ مولانا علمی و تحقیقی شخصیت ہونے کے باوجود خشک مزاج نہ تھے ۔ غامدی صاحب کے بقول دورانِ اسیری مولانا مودودی ؒ کی بتیسی غالباً ٹوٹ گئی ۔ امین احسن نہیں جانتے تھے کہ مولانا مودودی کے دانت مصنوعی ہیں ۔ کسی نے بتایاتو دانتوں کی ’ تعزیت ‘ کے لئے مولانا کے پاس گئے۔ بظاہر بہت افسردگی کی حالت میں تھوڑی دیر کے لئے کوٹھڑی کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر کہا : ’مولانا ! افسوس ہے مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کے کھانے کے دانت اورہیں اور دکھانے کے اور۔‘
مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی آپس میں بے تکلفّی تھی ۔ مولانا ندویؒ نے مولانا تھانوی ؒ سے بیعت کی توانہوں نے مولانا اصلاحی سے یہ اصرار کیا کہ آپ بھی سنجیدگی سے بیعت کے بارے میں سوچیں تو مولانا اصلاحی نے کہا :’ آپ ہاتھ اُٹھائیں اورمیں بھی دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتا ہوں کہ اے میرے رب جب میری یہ حالت ہو جائے کہ میں اپنی عقل کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں دے دوں تو اس سے پہلے مجھے اُٹھا لیجیو۔‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے جو کچھ لکھا ، نفسِ مضمون سے قطع نظر ، اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی شاہکار ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اردو نثر کے ارتقا میں ان کا غیر معمولی حصہ ہے’۔ حقیقتِ شرک‘ سے لے کر’مبادی تدبرقرآن‘ تک مولانا کی تمام تحریروں کو پڑھنے والے کےلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ تحریرکا علمی پہلو زیادہ وقیع ہے یا ادبی پہلو زیادہ پرکشش ۔ کسی بھی اچھے ادیب کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے مافی الضمیر کو پڑھنے والے کے سامنے اس طرح بیان کرسکے کہ قاری اسے سمجھ بھی رہا ہو اور اس کی دلچسپی بھی قائم رہے۔اس لحاظ سے مولانا اصلاحی ایک کامیاب ادیب قرار پاتے ہیں۔
مرعوب کن علمی وجاہت کے ساتھ ساتھ مولانا کی عبارت میں دل کشی ، خیال میں رعنائی ، فکرمیں جدّت اور اسلوب میں تحقیقی و تنقیدی سطح پربھی انشاء پردازی کارنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔ وہ نہ عبارت کو بوجھل ہونے دیتے ہیں ، نہ خیال کو پیچیدہ بننے دیتے ہیں ۔ مولانا نے جس وقت لکھنے کا آغاز کیا ، اس وقت اگرچہ سرسید و حالی کی تحریک کے زیر اثر سادہ نویسی کو بھی فروغ حاصل ہو رہا تھا لیکن طبقہ علماءمیں بالعموم پُرپیچ عبارات لکھنے اور بعید از فہم الفاظ و تراکیب کے استعمال ہی کارواج تھا ۔
مولانا اصلاحی کی تحریر عالمانہ شان کے باوجود بہت ہی سادہ ، عام فہم اور سلیس ہے لیکن سادہ ہونے کے باوجود سرسید اور حالی کی تحریر کی طرح بے رنگ اور پھیکی بھی نہیں ۔ بلکہ اپنے اندر شگفتگی و دل کشی ، رعنائی اور دلآویزی کاپہلو بھی رکھتی ہے۔ ان کی تحریر ہو یا تقریر، صحتِ فکر کے ساتھ حسنِ بیاں بھی اس کا ایک مسحور کن خاصہ ہے ۔
پروفیسرخورشید احمد رقمطراز ہیں:”ان کی تحریرمیں شبلیؒ کی ادبیت ، مولانامودودیؒ کی فکری گہرائی و سلاست اور ابولکلام آزاد کی خطابت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ جہاں وہ ٹھوس دلائل اور محکم تحقیق کے بادشاہ تھے ،وہیں وہ ایک اعلیٰ انشاء پردازاور شگفتہ بیان ادیب و مقرر تھے ۔ ان کے اسلوب میں ایک منفرد شوخی اور بانکپن ہے۔ جس میں قرآن اور بائبل ، دونوں کے ادب کا پرتَو نظرآتا ہے“۔
کسی واقعے کی منظرکشی کا مسئلہ ہو یا کسی شخص کے کردار کی تصویر کشی مقصود ہو ، مولانا اصلاحی اس عمدگی اور چابک دستی سے الفاظ کاانتخاب کرتے ہیں کہ متعلقہ فرد یا واقعے کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھِر جاتی ہے ۔ ایک اُجاڑ بستی کی تصویرملاحظہ ہو:
”چنانچہ اس طرح کسی ڈھئی ہوئی بستی پر اس کاگزر ہو جاتا ہے ۔ اس کی منہدم دیواریں ، اس کے ٹوٹے ہوئے دَر ، اس کی سربسجود مہرابیں ، اس کی پراگندہ اینٹیں اور اس کی وحشت و ویرانی کی خاموشی ، اس کے سامنے عبرتوں اور بصیرتوں کا ایک دفتر کھول دیتی ہے“۔(مبادی تدبّرقرآن : صفحہ39 )
مولاناکی تحریر و تقریر میں شوخی اور حسب ضرورت طنز کی کاٹ پائی جاتی ہے ۔ مولانا منظور نعمانی ؒ کے اعتراض کے جواب میں انہوں نے ’ جماعت اسلامی پر الزامات اور ان کا جواب ‘ اور ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی کے ’حاکمیت الٰہی یاحاکمیت جمہور‘والے مضمون پر تنقید و احتساب صرف علمی مباحث کامرقع ہی نہیں، ادب ، انشاء و طنز کا بھی اعلیٰ نمونہ ہے۔ علاوہ ازیں ان کے اسلوب میں بلا کی بے ساختگی اور لہجے کی تر و تازگی ہے۔
مولانا اصلاحی ایک سچے اور کھرے انسان ، قوم کے دردمند مصلح اور مخلص داعی تھے ، امت اسلامیہ جس طرح دین سے دوری کی وجہ سے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہی تھیں ، اس صورت حال پر وہ بے چین و مضطرب ہی نہیں ، عملی طور پر متحرک بھی تھے۔ درد کی یہ کسک ان کی تحریروں میں جا بجا محسوس ہوتی ہے ۔ ایک سچے داعی و مصلح کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں:
”وہ چیخ چیخ کر پکارے اور لپٹ لپٹ کر سمجھائے اور نوع انسانی کی بیماریاں اس کو اس درجہ بے قرار کر دیں کہ وہ خلوت کے سجدوں میں اس کی نجات کے لئے پھوٹ پھوٹ کر روئیں ۔ راتیں نیندکی لذّتوں سے محروم ہو جائیں اور اس کے دن فراغت کی گھڑیوں سے بے نصیب ہو جائیں ۔ وہ مخلوق خدا کی گردن میں اتنے بے شمار ارباب و الٰہہ کی غلامی کا بوجھل طوق دیکھ کر اور درد سے بھر جائے اور ہر سننے والے کان اور ہر دیکھنے والی آنکھ تک اللہ کی وہ دعوت قولاً اور عملاً پہنچا دیں جو ان تمام مسائل کا واحد علاج ہے“۔ (حقیقتِ شرک و توحید ۔ صفحہ 147 )
مولانااصلاحیؒ کی علمی پرداخت دبستانِ شبلی کے ماحول میں ہوئی ۔ وہ فرقہ وارانہ اور فروعی مسائل میں توسّع کے قائل ہیں ۔ اگرچہ مولانا اصلاحی نے اہل حدیث عالم مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری سے علم حدیث میں کسبِ فیض کیا لیکن ان کی علمی و فکری اٹھان میں بنیادی کردار مولانا فرہی ؒ اور مولانا عبد الرحمٰن بلگرامی ؒکا تھا ، جو دبستانِ شبلی کے وابستگان میں سے تھے ۔ مولانا کی تصانیف اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے نئی نسل کے دل و دماغ کو متاثر کرنے والی ہیں ۔ جدید طرز تحریر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے وہ عصرحاضر کے اقلیت پسند اور جدّت طلب حلقوں میں بھی اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
مولانا اصلاحی نے پورے علمی ذخیرہ کو فکری طور پر ہضم کیا ۔ قرآن مجید کا گہرا علم ، مقاصد شریعت سے گہری واقفیت ، اصول فقہ اور اصول تشریح کاملکہ راسخہ ان کی ہر تصنیف میں ان کا رفیق ہے ۔ وہ جس موضوع پرقلم اٹھاتے ہیں ، اس میں اپنے علم سے جان ڈال دیتے ہیں۔ ان کی کوئی تصنیف ایسی نہ ہوگی جس میں نئے علمی حقائق ، علمی نکات ، ناقدانہ مباحث اور جدیداصولی بحثیں نہ ملیں اور قرآن مجید کے فہم کی ایک نئی راہ اور شریعت کے مقاصد کے سمجھنے کا نیا دروازہ کشادہ نہ ہو۔
ان کی متعدد تصنیفات ، ان کی مجتہدانہ فکر و نظر اور قوت تنقیدکی شاہدہیں اور ہر دور کے دماغوں کو جدید و صالح علمی و فکری غذا مہیا کرتی رہیں گی۔ روز نامہ ’پاکستان‘ کے مدیراعلیٰ مجیب الرحمٰن شامی لکھتے ہیں:’مولانا اصلاحی نے بڑی سرگرم زندگی گزاری ۔ وہ قلم کے بھی دھنی تھے اور زبان کے بھی۔ اردو تو ان کی مادری زبان تھی ہی ، عربی کے رموز و اسرارپر بھی وہ ایسی عالمانہ نظر رکھتے تھے کہ ان کا شاید ہی کوئی ہمسر موجود ہو۔
قرآن کی زبان اورزمانہ جاہلیت کے عربی ادب پر ان کو بے مثال عبور تھا ۔ ان کی تفسیر’ تدبّرقرآن‘ کو تفسیری ذخیرے میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے……آج ان کامتبادل ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ اس طرح کی شخصیات کا کوئی متبادل پایا بھی نہیں جاتا۔ جس طرح اقبال ہر روز پیدا نہیں ہوتے ، اسی طرح مودودی اور اصلاحی بھی پیدا نہیں ہوسکتے۔ ان کے قدموں کوچھونے کے لئے بھی قطب مینار پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔‘
مولانااصلاحی کی تصنیفات میں ان کی تفسیر’ تدبر قرآن ‘ بہت ہی مقبول ہے ۔ نو جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر استادعلامہ حمیدالدین فراہی کے تفسیری منہج پر لکھی گئی ہے۔ ان کے تفسیری اسلوب کی بنیاد قرآن کے اندرونی نظم اور الفاظ کے عرب کے اندر معروف مفہوم پر ہے ۔ مولانا نے قرآن کی تفسیر قرآن سے ، اور اس کے معانی کو کتاب کے اندرونی ربط اور الفاظ کے معانی کی صحیح تفہیم کے ذریعے متعین کیا ہے ۔
سورتوں اور آیتوں کا نظم اور قرآن کی زبان داخلی وسائل ہے ۔ جبکہ روایات و اقوال کو ان کے ہاں خارجی وسائل کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن فہمی کے بیرونی ذرائع سے بھی اگرچہ انہوں نے پورا استفادہ کیا ہے۔ تاہم ان کی منفرد خصوصیت قرآن کے اندرونی ذرائع کی روشنی میں تفسیر کرنا ہے۔
مولانا اصلاحی کے نزدیک ہر سورة اپنے داخلی نظم کی وجہ سے ایک مستقل وحدت ہے۔ اس کا ایک مرکزی موضوع ہے جسے سورہ کا’عمود‘کہتے ہیں۔ سورہ کے تمام اجزائے کلام اور نکات کا عمود سے گہرا تعلق ہے۔ اس طرح پورے قرآن میں بھی نظم موجود ہے۔ اس اعتبار سے مولانا نے پورے قرآن کو سات گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مکّی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتوں پرختم ہوتا ہے۔
قرآن مجیدمیں استعمال ہونے والی اصطلاحات صلوٰة ، زکوٰة ، صوم ، حج ، عمرہ ، قربانی وغیرہ کے مفہوم کا تعین سنت متواترہ کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ اختلافی مقامات پر قرآنی نظائر کو ترجیح دی گئی ہے۔ حسبِ ضرورت روایات و آثار سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔ فقہیات میں ان اقوال کو راجح قرار دیا گیا ہے جو قرآن و سنت سے اقرب ہیں ۔ کچھ اقوال سلف کو دلائل کی بنیاد پر رَد کرتے ہوئے خود بھی اجتہادی رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔
علامہ فراہی کے تفسیری اسلوب سے والہانہ تعلق کے باوجود کئی مقامات پر ان کی آراء سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اپنے منفردتفسیری اسلوب ، علمی مواد اور استدلال اور زبان و بیان میں فصاحت و بلاغت کی وجہ سے ’ تدبّرقرآن‘ ایک اعلیٰ پایہ کی تفسیر قرار پاتی ہے۔ ترجمہ کی زبان روکھی پھیکی اور بے مزہ نہیں بلکہ دلکش ، شگفتہ اور دلپذیر ہے۔
تدبرقرآن کو دوسری تفاسیر کے مقابلے میں اس وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ وہ بہترین عصری اسلوب میں پیش کی گئی ہے۔ اس طرح مولانا کے ترجمہ قرآن میں بڑی حدتک روانی عبارت ، بلاغت زبان اور تاثر کلام جیسی خصوصیات جمع کی گئی ہیں۔ تدبر قرآن کی اشاعت پر مولانا منظور نعمانیؒ نے لکھا:
”اس کتاب کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو عظیم نعمت بخشی ہے ، اس کی عظمت کی تعبیر سے زبان و قلم قاصر ہے“۔ مولانا نعمانی لاہور گئے تو مولانا اصلاحیؒ نے انہیں بتایا:”میری اہلیہ کہتی ہیں کہ تمہاری کتابیں تو میری سمجھ میں نہیں آتیں ، لیکن مولانانعمانی کی کتابیں میں خوب سمجھ لیتی ہوں“۔ مولانانعمانی نے فوراً کہا:’ ’مولانا ! ہم اُن کے لئے لکھتے ہیں،اور آپ ہمارے لئے لکھتے ہیں“۔ ایک خط میں مولانا منظور نعمانی نے لکھا :”اس تفسیر سے میری جتنی قرآنی مشکلات حل ہوئیں ،اتنی کسی کتاب سے بھی نہیں ہوئی ہیں“۔
ان تمام خوبیوں اورممیزات کے باوجود ، جوتاریخِ تفسیر میں تدبّر قرآن کو ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتے ہیں ، دوسری تفاسیر کی طرح’ تدبّر قرآن ‘ بھی کلام الٰہی کو سمجھنے کی ایک انسانی کوشش ہے۔ اور اس میں بھی غلطی کا احتمال و امکان اسی طرح ہے جس طرح بہتر سے بہتر اور کامیاب سے کامیاب انسانی کوششوں میں ہوتا ہے۔ بڑی سے بڑی انسانی کاوش بھی کمیوں اور غلطیوں سے یکسرپاک نہیں ہوسکتی۔
مولاناامین احسن اصلاحی محض ایک مذہبی محقق اور اسلامی مفکّرہی نہیں بلکہ ایک منفرد صاحب طرز ادیب بھی تھے۔خیالات و افکار کی ندرت ، تحقیق ، مواد کی ترتیب و پیش کش میں جدّت اور اپنے ادبی اسلوب کی انفرادیت کی وجہ سے انہیں اردو ادب میں روایت شکن و روایت ساز ادیب کہا جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ان کی تحریروں کو ایک عظیم ادبی سرمایہ کی حیثیت حاصل ہوگی۔