1971 ، سقوط مشرقی پاکستان ، سقوط ڈھاکہ

ہم آج بھی گنہ گار ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سوز قلم / زر افشاں فرحین

ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی
اور ہم رہین غم دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی
اس طرح ظالموں میں شامل رہے
حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے
ہم وہ بیدار ہین
اے زمین وطن ہم گنہ گار ہیں.
امجد اسلام امجد

وہ جن کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مجسم درد بن گئے جو دل کا کرب آنسوؤں میں ڈھال کر وعدہ کرتے تھے ہمیں قسم ہے اجداد کی…. بہنوں کی حرمت.. اپنی اولاد کی آنکھوں میں ٹہری ہوئی یاد کی …. ہم تیرے دامن کی رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھودیں گے آخری مرتبہ اے متاع نظر ہم اپنی خطاؤں پہ روئیں گے اب اندھیرے تلخی ایام نہ دہرائیں گے …

مگر اے زمین وطن ہم بھول گئے
ہم کل بھی گنہ گار تھے ہم آج بھی شرمسار ہیں

کیا یہ سچ نہیں کہ 16دسمبر کی سرد رات وطن کا دولخت ہوجانے کی یاد دلاتا ہو یا سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کی لہو لہو آہ وبکا سناتا ہو…… اپنی شہ رگ سے آتی ماؤں بہنوں کی سسکیاں ہوں یا جوان وطن کے بجھتے چراغ ہوں ہم ولولہ انگیزی سے بس ایک ہی راگ الاپتے رہے… اپنی محفلیں گرماتے رہے.. اپنی جان بچاتے رہے نظریں چراتے رہے دوسروں پہ ہی تہمت لگاتے رہے

…… اپنے ماضی کی غلطیوں سے صرف نظر کر کے قومیں زندہ نہیں رہتیں .مختار مسعود کہتے ہیں جو قومیں اپنی تاریخ بھلا دیتی ہیں ان کا جغرافیہ ان کو بھلا دیتا ہے….. اج بھی دشمن موقع کی تلاش میں ہے اور تڑپنے والے دل تڑپ رہے ہیں ، سر کٹ رہے رہے ہیں ، حق کا ساتھ دینے والے اپنی حق گوئی کا خمیازہ اج تک بنگلہ دیش میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پیش کررہے ہیں
اور ہم ہاں ہم اے سر زمیں وطن ہم کیوں کہ گنہ گار ہیں …….. اس لئے اپنے بزرگوں کے آگے لاجواب ہیں….

قدرت کی تنبیہات ہوں یا اپنی اغلاط….. ٹھوکر کھاکر کر سنبھل جانے والے قدم ہی منزل پاتے ہیں آج جبکہ دنیا کی اقوام کرونا کے حالات میں الٹی گنتی کا سفر شروع کر چکی ہے ہم اپنے اپنے دائرے میں گم بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں.

خوش گمانیوں کے سمندر میں غوطہ زن سیاسی دنگل گرم ہے . ہمارے دشمن نے کل بھی ہماری نااتفاقی سے فائدہ اٹھایا . آج بھی موقع کی تاک میں ہے جو کل بھی حق گوئی کے سبب جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے آج بھی ان کی نسلیں قربانیاں دے رہی ہیں
ہر سال کی طرح 16دسمبر کی سرد رات ان کے زخم ہرے کردیتی ہے


میں نے فون ان کی خیریت پوچھنے کے لئے کیا تھا آنسوؤں کی نمی لئے آواز تھی یا کربناک آہیں…. وہ جو 80سال کی عمر مجھے اپنی طویل بیماریوں کی فہرست گنواسکتی تھیں بس اتنا کہا

بہت درد ہوتا ہے بیٹا …. یہ جو نفرت کی زہر آلود ہوا چلتی ہے نا یہ سارے محبتوں کے پودے جلا دیتی ہیں فاصلے ہی نہیں بڑھتے تعصب کی فصیلیں خاردار سرحدیں بن جاتی ہیں … محبتیں بکھرتی ہیں تو نسلیں خراج ادا کرتی ہیں…. آپا جی اپنے شوہر اور بیٹے کی ناحق سزائے موت پہ کبھی شکوہ نہیں کرتیں وہ جانتی ہیں کہ سعید روحیں سرخرو ٹہریں … مگر ہم

اے سرزمین وطن
ہم کل بھی گنہ گار تھے
اج بھی گنہ گار ہیں
مگر کب تک یہ تاریکی کا بادل طاری رہے گا
اب وقت نوحہ خواں ہے
تلاشنا ہے اسی وطن کو
اساس تھی لاالہ جس کی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں