انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد

ایک مسافر وادی دل میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ جبیں

سال ہو گا 1998 سخت گرمی کے خوب لمبے دن تھے ۔ خواتین کیمپس اور ہاسٹل کو حاجی کیمپ I/ 14 منتقل ہوئے سال بھر ہو چکا تھا ۔ اور ہم نئی جگہ سے کافی حد تک مانوس بھی ہو چکے تھے کہ ہاسٹل میں مقیم ہماری ایک ہم جماعت اور بہت اچھی صومالی سہیلی کی شادی ہو گئی اور وہ ہاسٹل چھوڑ جی ٹین کے نئے نئے تعمیر شدہ چھوٹے سے فلیٹ میں جا بسی ۔

ہر روز وہ یونیورسٹی آتی اور ہم سے پرزور مطالبہ کرتی کہ ہم اس کے گھر تشریف لا کر اسے خدمت کا موقع دیں ۔ آخر جب اس کا یہ مطالبہ رنج بھرے شکوے کی شکل اختیار کرنے لگا تو ہم چاروں ہم کمرہ سہیلیاں ایک دن سر پر کفن باندھ ، مومی تھیلوں میں کدو ڈال یونیورسٹی کی بس میں جا چڑھیں تا کہ جی ٹین کے ایک فلیٹ کو اپنے بابرکت قدموں سے رونق بخش سکیں ۔ لگے ہاتھوں کدو کا قصہ بھی سن لیجیے۔

ہاسٹل میں استاذ امین مکی کے ہفتہ وار دروس میں اللہ کے بندوں کے کام آنے کی ترغیب اور اپنے آپ کو مفید کاموں میں مصروف رکھنے کی تلقین نے ہماری ہم کمرہ و ہم جماعت زینت کے دل پر شدید اثر کیا ۔ سمسٹر کے اختتام پر جب وہ چھٹیاں گزارنے اپنے گھر میر پور خاص سندھ گئی تو واپسی پر کدو ٫ کریلوں ٫ سبز مرچ ٫ سونف اور خدا جانے کس کس سبزی اور پودے کے بیج اپنے بستے میں بھر لائی ۔ ہمارا کمرہ زیریں منزل پر تھا جس کے عقب میں ایک کھلی سی بالکونی تھی ۔ اور اس کے پیچھے قدرے نشیب میں بڑے بڑے لان نما گھاس کے قطعے اور کچی زمین تھی ۔ جس کے درمیان میں حاجی کیمپ کے عمارت کے دوسرے حصے ، جو حج کے دنوں میں حاجیوں کے قیام کے لیے استعمال ہوتے تھے ، کی طرف جانے والا چوڑا راستہ تھا جو ایک مقفل آہنی دروازے تک جا کر بند ہو جاتا تھا ۔

اس پختہ چوڑے راستے کے گرد کچھ درخت بھی تھے۔ محترمہ نے جفاکشی کی مشق کے لیے روزانہ تھوڑی تھوڑی کر کے زمین گوڈنا شروع کی ۔ اور درختوں کے قریب بالکونی کی بالکل سیدھ میں یہ بیج بو دئیے ۔ اب درست طور پر یاد نہیں کہ کدو اور کریلے کے علاوہ اور کون کون سی سبزی بوئی گئی تھی۔ شاید اس لیے کہ صرف کدو اور سونف ہی کو لمبی زندگی ملی باقی یا تو پیدائش کے فورا بعد یا پہلے ہی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

کچھ فاصلے پر خوب کھلی جگہ پر سبز مرچ کے بیج بھی وقفے وقفے سے بوئے گئے ۔ اور جب ننھی ننھی کونپلیں نکلیں اور گرما کے تیز جھکڑ چلنا شروع ہوئے تو محترمہ دوڑتی ہوئی حفاظت کے لیے پہنچ جاتیں ۔ کبھی ہاتھوں کی اوٹ بنا کر اور کبھی پلاسٹک کی بوتلوں کے سانچے کاٹ کر ننھی کونپلوں کو ڈھانپا جاتا مبادا یہ ظالم طوفانی ہوائیں انھیں جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکیں ۔ ساتھ ساتھ ہمارے جذبہ ہمدردی کی جانچ کے لیے مدد کو پہنچنے کی چیخ پکار بھی جاری رہتی۔ گو ہم بھی اخلاقی مدد کو دوڑے چلے جاتے لیکن ان پودوں کی اصل ماں وہی تھیں ۔ یا ہماری سامنے والی ہمسائی ہماری سینئر سلمی علی جاد سوڈانی ۔ جنھیں ہم سب سلمی باجی کہا کرتی تھیں ۔

دونوں کی مسلسل نگرانی اور کڑی تگ و دو اور ہماری شدید اخلاقی مدد ، دعاؤں اور نیک تمناؤں کے باوجود سب کو اجل نے آ لیا ماسوا کدو کی بیلوں کے ۔ اب اگر یہ مرتبے میں ہمیں اپنی اولاد کی طرح عزیز تھیں تو کیا عجب۔ بلا ناغہ عصر کی نماز کے بعد ہم بالکونی پھلانگ کر پیچھے اترتے اور ایک ایک پتے ، شاخ اور کونپل کا جائزہ لیتے ۔ دن میں کئی بار یہ بیل اور اس کی پرورش زیر بحث آتی ۔ یہاں تک کہ جب ایک بار میں چھٹیوں میں گھر آئی تو ڈاکٹر تیمیہ کی جانب سے خط میں اطلاع دی گئی کہ بیل پر دو کدو بہار دکھا رہے ہیں۔

اب ادھر کدو کی پہلی فصل تیار ہونا شروع ہوئی ادھر ہاسٹل بھر کی نظریں اس پر لگ گئیں ۔ بالائی منزل والے اپنی اپنی بالکونیوں میں لٹکے کدووں کی بڑھوتی کا جائزہ لے رہے ہیں اور بڑے چاؤ سے اپنے لیے بکنگ کروا رہے ہیں ۔ صفائی اور میس کے عملے کی خالائیں تو ایک طرف گیٹ پر مختلف اوقات میں مقرر بابا جی بھی ان کدووں کے متعلق تفتیش میں مبتلا ہیں کہ آخر اتنے کدووں کا آپ لوگ کریں گے کیا ۔

ادھر فصل اترتی جاتی ۔ ادھر بٹنے کے لیے تیار۔ دوپہر میں دہی میں ڈال کر رائتے تیار ہونے لگے ۔ تحفے دئیے جانے لگے ۔ ہر دوسرے دن امتیاز خالہ اور نسیم خالہ اطلاع دیتیں ” میں کدو لے کر جارہی ہیں۔” اور تو اور چینی سہیلیاں بھی کدو کے کھانے تیار کرنے میں دلچسپی لینے لگیں ۔ ہم نے اپنا حصہ اپنی ڈے سکالر دوستوں کو بھی ہدیہ کرنا شروع کر دیا ۔ الغرض ٹرک میں لاد کر منڈی لے جانے کی کسر ہی رہ گئی تھی ۔

اور اب یہی کدو ہم اپنی سہیلی کی شادی کے بعد پہلی دفعہ اس کے گھر جانے پر بطور تحفہ لے کر جا رہے تھے تو کیا عجب ۔۔۔ یہ ان کدووں کا حق تھا۔ اپنے خون جگر سے پالے ان جگر گوشہ نما کدووں کے اوپر ہم نے بال پین سے اپنے اپنے نام بھی لکھے تا کہ اسے مغالطہ نہ ہو کہ کون سا کدو کس کی طرف سے ہے اور کون سا کس کی جانب سے ۔

خیر ساری دوپہر ہم نے اس کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور جب گرمی کی شدت قدرے کم ہوئی اور سورج ڈھلتے ڈھلتے مغرب کی جانب نیچے کی طرف جھکنے لگا تو ہم اس کے گھر سے نکل کر ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے کشمیر ہائی وے پہ آن کھڑے ہوئے۔ اس زمانے میں کشمیر ہائی وے ٹریفک کے حوالے سے کافی ویران ہوا کرتی تھی ۔ اسلام آباد سے پشاور روڈ پنڈی تک جانے والی ذاتی گاڑیاں گاہے بگاہے اس سے گزرتیں یا کوئی ٹیکسی اور موٹر سائیکل یا کسی یونیورسٹی کی گاڑی ۔

ہماری میزبان نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے ہمیں وہ مقام اچھی طرح سمجھا دیا تھا جس پر جا کر کھڑے ہونے سے ہمارے ٹیکسی کے پیسے بچ جاتے اور مرکزی لائیبریری اولڈ کیمپس سے طالبات کو واپس لے کر آنے والی یونیورسٹی بس ہمیں مل جاتی ۔ چونکہ یہاں سے گزرنے والی بس کے ٹھیک ٹھیک وقت سے ہم ناواقف تھے اس لیے اندازے سے وقت سے پہلے ہی سڑک کنارے آ کھڑے ہوئے ۔ جہاں نہ کوئی بیٹھنے کا ٹھکانہ تھا اور نہ کوئی درخت یا اوٹ۔ اس لیے سڑک دائیں بائیں دور تک صاف دکھائی دیتی تھی۔

وقفے وقفے سے چھوٹی چھوٹی گاڑیاں اور ٹیکسیاں آتیں اور زن سے پاس سے گزر کر آگے چلی جاتیں۔ ہمیں وہاں کھڑے شاید آدھ گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہو گیا تھا اور اب ہم بس کی آمد سے قدرے مایوس بھی ہو چکے تھے ۔ اور پاس سے گزرتی ہلکی ہوتی ٹیکسیوں کو رکوانے کے متعلق سوچ بچار کر ہی رہے تھے کہ ایک سرخ رنگ کی نئی نویلی ڈبل ڈور ٹویوٹا زن سے ہمارے پاس سے گزری مگر چند قدم آگے جا کر یک دم آہستہ ہو کر رک گئی ۔ ہم فورا چوکنا ہو گئے ۔

اب گاڑی آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف آئی اور ہمارے سامنے آکر رک گئی ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان خاتون نے شیشہ نیچے سرکایا اور مسکرا کر ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی۔ ہم بڑی قطعیت سے انکار کر کے دوسری جانب رخ کر کے کھڑے ہو گئے ۔ اب یہ یاد نہیں کہ خاتون نے اصرار کر کے کیا کہا تھا کہ آخرکار ہم گاڑی میں بیٹھ ہی گئے ۔

شاید یہ کہ مجھے معلوم ہے آپ نے حاجی کیمپ جانا ہے یہاں سے ٹیکسی ملنی مشکل ہو جائے گی ۔ میں بھی ادھر ہی صدر کی جانب جا رہی ہوں آپ کو ارام سے پہنچا دوں گی یا شاید کچھ اور کہا ہو۔ بہر صورت یہ یاد پڑتا ہے کہ ہم نے آپس میں مشورہ کر کے اور دعا پڑھ کے بڑی کشمکش کے بعد بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ہم نے خاتون کا جائزہ لیا وہ بڑی طرح دار مگر باوقار اور ماڈرن نظر آنے والی خوش اخلاق اور خوش شکل خاتون تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی انھوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی ہماری گاڑی میں آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ گاڑی چلنے لگی اور ساتھ ہی ان کی گفتگو بھی۔ جوں جوں وہ گفتگو کرتی گئیں ہماری اجنبیت انسیت میں بدلتی گئی ۔ کہنے لگیں :

مکمل اعتماد سے بیٹھیے ۔ مجھے آپ کے پاس سے گزرتے ہوئے فورا معلوم ہو گیا تھا کہ یہ اپنا قبیلہ ہے۔ آپ کے پاؤں تک آتے جلباب اور سر پر سکارف دور سے ہی بتا دیتے ہیں کہ آپ “اسلامین” ہیں ( حالانکہ خود انھوں نے دوپٹہ بھی گلے میں پہن رکھا تھا اور ان کے نفاست سے تراشیدہ بال ان کے شانوں پر آ رہے تھے ) ہمارے حیرت بھرے استفسار پر بتایا کہ ” میں اسلامی یونیورسٹی خواتیں کیمپس کا پہلا بیچ ہوں ۔

حکومت کے کسی سیکرٹریٹ میں خواتین کے شعبے سے منسلک کسی اہم عہدے پر فائز تھیں ۔ یونیورسٹی کے ذکر سے ان کی آنکھیں پہلے چمکنے اور پھر چھلکنے لگیں۔ ابھی تک ان کا لہجہ یاد ہے جس جذبے کے ساتھ انھوں نے ہمیں پہلی پچیس لڑکیوں کی داستان سنائی جن سے خواتین کیمپس کا آغاز ہوا تھا۔

یہ کیمپس جناح سپر کے ایک پٹرول پمپ کے سامنے والی کوٹھی میں شروع ہوا تھا چند لڑکیاں جن سے شریعہ اور اصول الدین فیکلٹی کا آغاز ہوا ۔ شیخ عبداللہ عزام ( اور یہ نام لیتے ہوئے ان کی آواز جذبے کی شدت سے بھرا بھرا جاتی ) نے ایک درزی ادھر لا بٹھایا لڑکیوں سے ان کے ناپ مانگے گئے ۔ مہنگے کپڑے کے عربی جلباب اور سکارف سلوا کر سب طالبات کو تحفتا دئیے گیے ۔ اور یہی خواتین کیمپس کا ڈریس کوڈ قرار پایا۔ ( یاد رہے کہ ان سلا تکون والا سکارف کلچراور پاؤں تک عبائے / جلباب کا اسٹائل اس زمانے میں بالکل عام نہیں تھا ۔ اس لیے اسلامی یونیورسٹی کی طالبات اس لباس سے دور سے پہچانی جاتی تھیں ۔ اسلام آباد میں یونیورسٹی کے علاوہ بعد میں یہ ملبوس الھدی اور معھد اللغة العربية کی طالبات بھی پہنا کرتیں )

پھر کہا : کیا پھر بھی میں تم لوگوں کو نہ پہچانتی ۔ پھر اپنے ایک ایک استاد کو چمکتی آنکھوں سے یاد کرتی جاتیں ۔ سٹئیرنگ پر بے قراری سے ان کے چلتے ہاتھوں سے ہمیں ان کے دل کی دنیا کا اتھل پتھل ہونا سمجھ آ رہا تھا۔ شیخ عبداللہ عزام کا ذکر تو اس کثرت اور اس محبت سے بار بار کیا کہ ہم ان پر رشک کرنے لگے۔

میڈم رخسانہ میر کا پوچھا کہ میری ہم جماعت تھیں سنا ہے یونیورسٹی میں ہوتی ہیں۔ انھیں میرا گرم جوش سلام عرض کرنا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ، ڈاکٹر غزالی ، ڈاکٹر انیس احمد ، ڈاکٹر حسن عبداللظیف الشافعی سب کے متعلق کیسے پڑھاتے تھے کس کس سے ہم نے کیا کیا پڑھا ۔ سب بتاتی رہیں ۔ ہم بھی ان اساتذہ کے متعلقہ اپنی مبلغ معلومات ( کہاں ہیں کیا کرتے ہیں) وغیرہ کا تبادلہ کرتے رہے۔

پھر اچانک چونک کر پوچھا کہ ہاسٹل کی وارڈن ابھی تک میڈم زبیدہ ہیں ۔ ہمارے اثبات میں جواب دینے پر اس قدر خوش ہوئیں۔ مکرر ہمیں تاکید کرتی رہیں کہ ان کی جانب سے باری باری ہم سب نے جا کر میڈم کو زور زور سے جپھی لگانی ہے اور دونوں گال پر چٹاخ چٹاخ پیار کرنا ہے ۔ پھر کہا : یہ سب لوگ کسی اور دنیا کے تھے ۔ جیسے کسی خیالی دنیا کے لوگ خواب سے حقیقت بن کر سامنے آ جائیں۔ گولڑہ موڑ آ گیا تھا۔ یہاں سے اندر کی جانب ایک آدھ میل پر حاجی کیمپ تھا انھیں کسی جگہ پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے وہ ہمیں موڑ پر اتار کر سب کو سلام پہنچانے کی تاکید کرتے ہوئے بہت سا پیار اور دعائیں دے کر رخصت ہو گئیں ۔

ہم میل بھر کا فاصلہ ان کی باتوں کو دہراتے ہوئے طے کر کے کیمپس پہنچے ۔ ایک ایک بندے تک اہتمام سے ان کا نام لے کر دعائیں اور سلام پہنچایا ۔ اور پھر انھیں بھول گئے ۔

آٹھ سال یونیورسٹی میں گزار کر واپس گھر پہنچے تو یک دم وہ یاد آئیں ان کی باتیں ، ان کے جذبات ، ان کی محبت ۔ ان کی چند لمحوں کی مصاحبت مگر ذہن پر بار بار زور دینے پر بھی ان کا نام یاد نہ آیا اور نہ اب یاد ہے۔ مگر ان کے لہجے تپش اور دل سے نکلتے الفاظ ہو بہو سماعت میں تازہ ہیں ۔

کیا یہ ہمارے آپسی رشتے کی مضبوط گرہ تھی جو زمانے بیتنے پر بھی ٹوٹنے میں نہیں آ رہی ؟؟ !!!!!!

……………………..


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں