مولانا عبدالرحمن کیلانی

ایک عظیم مفسر قرآن کی کچھ یادیں، کچھ باتیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

(میرے پیارے نانا جان ۔۔۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی)

ڈاکٹر خولہ علوی

“انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔” ابو جان نے فون پر دوسری طرف سے ملنے والی خبر پر اونچی آواز میں کہا۔

گھر کے سب افراد پریشان ہو کر ابو جان کے اردگرد اکٹھے ہو گئے۔ ابو جان نے فون بند کر کے ریسیور نیچے رکھ دیا۔
“کس کی وفات کی خبر وصول ہوئی ہے؟” امی جان نے پوچھا۔
“آپ کے ابا جان ابھی عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے اچانک فوت ہو گئے ہیں۔”ابو جان ہماری والدہ کو مخاطب کرکے رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے۔

یہ 18 دسمبر1995ء کی تاریک اور ٹھنڈی رات تھی جس میں سردی اپنے عروج پر تھی ۔ امتحانات کا زمانہ تھا اور چھوٹے بڑے سب بچے اپنے پیپرز کی تیاری میں مصروف تھے ۔ میرا بھی فزکس کا پیپر تھا اور میں تندہی سے اس کی تیاری میں مشغول تھی۔

عشاء کی نماز باجماعت ادائیگی کے بعد میرے والد بھائیوں کے ساتھ گھر واپس آچکے تھے۔ اتنے میں پی ٹی سی ایل فون کی بیل بجنے لگی۔ ان دنوں معاشرے میں ابھی موبائل کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔ ابو جان نے آگے بڑھ کر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے موصول ہونے والی خبر نے ابو جان کو انتہائی پریشان کر دیا تھا۔ ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

نانا جان کی وفات کی خبر سب کے لیے انتہائی اچانک، اور غم و پریشانی کا باعث تھی کیونکہ امی جان کی معلومات کے مطابق کچھ دیر قبل تک وہ بالکل صحت مند اور تندرست و توانا تھے۔ ابھی آج دوپہر ہی تو امی جان نے ان سے فون پر ان کا حال احوال دریافت کیا تھا۔
“انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” امی جان سمیت سب نے اونچی آواز میں پڑھا۔

بچے بھی حیران و پریشاں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے لیکن ابو جان کی بات سن کر حیرت و پریشانی کے ساتھ اطمینان نے بھی دلوں میں جگہ بنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نانا جان کو نماز کی حالت میں اپنے پاس بلایا ہے۔

“اللہ تعالیٰ نے آپ کے نانا جان ( مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب) کو حالت عبادت میں نماز کی ادائیگی کے دوران اپنے پاس بلایا ہے ۔ سبحان اللہ۔” ابو جان نے بچوں کو مخاطب کرکے کہا۔
“سبحان اللہ ! ایسی اچھی موت تو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔” بڑے بھائی جان بولے۔
“ایسا “حسن خاتمہ” نصیب والوں کا مقدر بنتا ہے۔” امی جان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

ہمارے نانا جان بہت نیک اور صالح انسان تھے۔ وہ سدا رزق حلال کے خوگر رہے تھے ۔ اور اکثر و بیشتر ضرورت مند رشتہ داروں ، طلبہ اور غریبوں وغیرہ کی مدد کرتے رہتے تھے ۔ صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے تھے۔

مدارس و مساجد کے ساتھ خصوصی تعلق رکھنے والے اور ان کے معاون و مددگار ہوتے تھے۔
انہوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی جس کے وہ منتظم تھے اور بوقت ضرورت امام کے فرائض بھی سر انجام دیتے تھے۔
طالبات کا ایک مدرسہ بنوایا تھا جس کے وہ منتظم تھے۔

ان کی حسنات و صدقات بہت زیادہ تھے ۔ نیک اور صالح اولاد بھی انہوں نے صدقہ جاریہ میں چھوڑی تھی جو ان کے راستے پر گامزن تھی۔

ہم سب اہل خانہ نے اس موقع پر امی جان کامثالی صبر دیکھا کہ انہوں نے تب رونے دھونے کے بجائے فوراً وضو کرکے جائے نماز بچھالی۔
“اللہ اکبر” امی جان نے نماز پڑھنے کے لیے نیت باندھ کر ابتدا کردی۔ ہم سب بہنوں نے بھی جلدی سے وضو کرکے نماز شروع کرلی۔

امی جان نماز کی ادائیگی کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ دعائیں مانگنے لگیں۔ اس کے بعد سب نے جلدی جلدی نانا جان کے گھر جانے کی تیاری کی اور کچھ دیر بعد وہاں پہنچ گئے۔ وہاں لاہور میں مقیم تقریباً سب بیٹے، بیٹیاں، بہوئیں، داماد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں وغیرہ پہنچ چکے تھے۔ دور رہنے والے رشتہ داروں کو اطلاع دی جا چکی تھی۔ فوتیدگی والے گھر میں تقریباً سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

اگرچہ یہ انتہائی غیر متوقع اور اچانک موت تھی مگر اونچی آواز سے رونا پیٹنا، نوحہ و بین کرنا، غلط قسم کے غیر مناسب الفاظ منہ سے نکال کر اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنا وغیرہ اس قسم کے مناظر قطعاً دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ سب “صبر جمیل” کی مثال دکھائی دے رہے تھے۔ اور اس اچانک موت کے صدمے کو قبول کرکے اس پر راضی برضا تھے۔ الحمد للّٰہ۔

“جنازہ کل ظہر کی نماز کے بعد ادا کیا جائے گا۔” بڑے ماموں جان نے بلند آواز میں کہا ۔ جنازہ کا وقت ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے طے کیا جا چکا تھا۔

“ناناجان تو بالکل صحت مند تھے۔ مجھے جب معلوم ہوا تو ان کی اچانک موت کا یقین نہیں آرہا تھا۔” ہماری ایک کزن کہہ رہی تھیں۔
“مولانا صاحب تو بالکل چست اور چاق و چوبند تھے۔ آج وہ نماز عصر کی ادائیگی کے بعد میرے سسر کا حال پوچھنے کے لیے ہمارے گھر آئے تھے۔انہیں اچانک کیا ہوا ہے؟” اندر آنے والی ایک خاتون نے استفسار کیا۔

“ابا جان عشاء کی نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے، جہاں تکبیر ہو چکی تھی مگر پھر بھی انہیں پہلی صف میں پہلی جگہ یعنی ( انتہائی دائیں طرف ) کھڑے ہونے کا موقع مل گیا۔ امام صاحب نے رکوع کیا ، رکوع سے سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے۔ تمام نمازیوں نے ان کی تقلید کی اور اپنے سر سجدوں میں رکھ دیے۔” ماموں جان نے بتایا۔
“اللہ اکبر” امام صاحب نے سجدہ سے سر اٹھایا۔

پھر وہ قعدہ میں بیٹھ گئے، پھر دوسرا سجدہ کیا اور دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے لیکن ابا جان کا سجدہ طویل تر ہو گیا اور انہوں نے اپنا سر پہلے سجدے سے ہی نہ اٹھایا۔ جب ان کی مستقل یہی کیفیت رہی تو ساتھ والے نمازی کو تشویش ہوئی۔
“میں نے نماز توڑ کر انہیں ہلایا جلایا لیکن وہ فوت ہو چکے تھے۔” نمازی نے بعد میں بتایا۔

“وہ پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں پہلی صف میں پہلی جگہ موجود ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ انہوں نے موت کے خاموش قدموں اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا تھا۔” ماموں جان نے رندھی ہوئی آواز میں مزید بتایا۔ سب نمازی ان کے حسن خاتمہ پر رشک کر رہے تھے
“سبحان اللہ! کتنی فضیلت والی موت ہے!”

ایک نمازی کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔
یہ “حسن خاتمہ” ہے کہ اللہ رب العزت نے مولانا کو نماز کی پہلی رکعت میں پہلے سجدے میں اپنے بلانے کے لیے منتخب فرما لیا۔” دوسرے نمازی نے رشک کرتے ہوئے کہا تھا۔
“ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ۔” سب نمازی نماز کے بعد رشک کر رہے تھے۔
“اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی موت عطا فرمائے۔” امام صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔
“آمین ثم آمین۔” بہت سی آوازیں بلند ہوئی تھیں۔

ماموں جان بتا رہے تھے اور ان کی باتیں سن کر گھر میں بھی سننے والے ایسی موت پر رشک کر رہے تھے ۔ اور اپنے لیے بھی “حسنِ خاتمہ” کی تمنّا کر رہے تھے۔

آج جب کوئی فوتگی ہوتی ہے، یا میں کوئی پریشان کن خبر سنتی ہوں یا کسی کے بارے میں اس کے کسی پریشانی یا آزمائش میں مبتلا ہونے کا معلوم ہوتا ہے تو مجھے اپنی امی جان کا والد محترم کے انتقال پر کیا گیا “صبر جمیل” یاد آ جاتا ہے۔ ان کا فوراً نماز ادا کرنا اور “رجوع الی اللہ” کا رویہ میری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے بخوبی یاد ہے کہ 18 دسمبر 1995ء کو جب میرے قابل صد احترام اور پیارے نانا جان فوت ہوئے تھے تو تب دسمبر کی خنکی میں سب کا امتحانات کا سیزن چل رہا تھا۔
اس دن صبح میرا کیمسٹری کا پیپر ہوچکا تھا۔ اور ایک چھٹی کے بعد فزکس کا پیپر ہونا تھا۔
شدید سردی کی اس رات جب ہمیں یہ خبر موصول ہوئی تھی تو میں تندہی سے اگلے پیپر کی تیاری میں مصروف تھی۔

نانا جان مولانا عبد الرحمن کیلانی 11 نومبر 1928ء کو پیدا ہوئے اور 18 دسمبر 1995ء کو بروز پیر عشاء کی نماز باجماعت کی ادائیگی کرتے ہوئے رحلت کر گئے تھے۔ اللہ اکبر۔
الحمد للّٰہ حمدا کثیرا۔

ع یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان قرآن مجید کے بہت قابل اور ماہر خطاط تھے ۔ انہوں نے تقریباً پچاس قرآن اپنے ہاتھ سے تحریر کیے تھے جن میں سے زیادہ تر قرآن کریم ، قرآن کی طباعت کے لیے مشہور زمانہ ادارہ تاج کمپنی نے لکھوائے تھے۔

نانا جان کا ایک خصوصی اعزاز یہ ہے کہ انہوں نے ایک قرآن کریم کی کتابت حرمین شریفین میں بیٹھ کر کی۔ تمام مکی سورتیں خانہ کعبہ میں بیٹھ کر کتابت کیں اور تمام مدنی سورتیں مسجد نبوی میں بیٹھ کر کتابت کیں۔ اس قرآن کریم کو سعودی عرب نے چھپوایا اور وہ آج تک برصغیر پاک و ہند کے حاجیوں کو حج سے واپسی کے موقع پر بطور تحفہ و تبرک پیش کیا جاتا ہے۔

ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہوتا ہے۔ تو نانا جان کے کامیابیوں کے پیچھے پہلے ان کی والدہ اور پھر ان کی زوجہ کا ہاتھ تھا جو خود بھی عظیم اور گونا گوں صلاحیتوں کی حامل خاتون تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان بہت دین دار و متقی بندہ مومن ہونے کے ساتھ مصنف کتب کثیرہ بھی تھے۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ پائے کی بیش قیمت علمی و عملی تصانیف بڑی محنت سے تحریر کی ہیں۔ جو انہوں نے اپنی عمر کی آخری دہائیوں میں لکھی تھیں۔

نانا جان وقت کے اتنے پابند تھے کہ اگر کسی بندے کو دیکھ کر گھڑیاں ٹھیک کرنی ہوں تو نانا جان کو دیکھ کر لوگ کر سکتے تھے۔ عموماً وقت کی اتنی پابندی کرنے والے اور وقت سے صحیح طرح استفادہ کرنے والے ہی دنیا میں اپنے لیے صدقہ جاریہ چھوڑتے ہیں۔

نانا جان نے اپنے پیچھے ہر طرح کے صدقہ جاریہ چھوڑے ہیں۔ جن میں مندرجہ ذیل معاملات بھی شامل ہیں۔

1) ان کے صدقات جاریہ میں ان کی غیر معمولی تقریباً پندرہ تصنیفات بشمول تفسیر “تیسیرالقرآن (4 جلدیں)” شامل ہیں۔
2) طالبات کے دینی مدارس
3) اولاد کی دینی تعلیم و تربیت۔
4) مساجد ومدارس کے ساتھ خصوصی مالی، اخلاقی اور مشاورتی تعاون وغیرہ

ان کی کتب کے نام درج ذیل ہیں۔
1) احکام ستر وحجاب
2) اسلام میں دولت کے مصارف
3) اسلام کا نظام فلکیات (الشمس والقمر بحسبان)۔
4) اسلام كا ضابطہ تجارت
5) ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل
6) آئینۂ پرویزیت
7) خلافت و جمہوریت
8) روح، عذاب قبر اور سماع موتی
9) شریعت و طریقت
10) عقل پرستی اور انكار معجزات
11) منکرین حدیث کے چار اعتراضات اور ان کا علمی و تحقیقی جائزہ
12) مترادفات القرآن
13) کیا چہرے کا پردہ صرف امہات المؤمنين كے ليے تھا؟
14) قرآنى الفاظ: وحى، الہام، القاء، وسواس اور ھمزات
15) صوفیا کی برصغیر پاک و ہند میں آمد (تاریخ کے آئينے سے )

“الموافقات”۔ کا اردو ترجمہ (امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب)

“سبل السلام” کا اردو ترجمہ (امام صنعانی رحمہ اللہ کی کتاب)

وہ “تیسیرالقرآن (4 جلدیں)” نامی تفسیر القرآن کے مؤلف تھے جو تفسیر ماثورہ ہے۔ اور قرآن مجید، صحیح بخاری کی صحیح اور حسن درجے کی روایات، اقوال صحابہ و تابعین کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔

یہ عمدہ، آسان فہم اور عمومی انداز میں لکھی گئی تفسیر بالماثور ہے۔ اس میں مدلل انداز میں احکام ومسائل کی حالات حاضرہ سے مطابقت بھی بیان کی گئی ہے۔ یہ تفسیر اپنی سادگی، روانی اور مستند ہونے کی بناء پر ہر جگہ پڑھائی جا رہی ہے اور عوام الناس اس سے بہت زیادہ استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ تفسیر بہت سے دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان کثیر العیال تھے۔ جن میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔
بیٹوں کے نام یہ ہیں۔
(1) ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کیلانی
(2) حافظ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کیلانی
(3) پروفیسر نجیب الرحمٰن کیلانی
(4) انجنئیر حافظ عتیق الرحمٰن کیلانی

اور بیٹیوں کے نام یہ ہیں۔
(1) پروفیسر ثریا بتول علوی
زوجہ مولانا عبدالوکیل علوی صاحبہ
(2) رضیہ مدنی
زوجہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحبہ
(3) عطیہ انعام الٰہی
زوجہ ڈاکٹر انعام الہی رانا صاحبہ
(4) فوزیہ سلفی
زوجہ انجینئیر عبدالقدوس سلفی صاحبہ

اس کے علاوہ نانا جان کی وفات کے وقت ان کی دوسری اہلیہ عقیلہ بیگم بھی حیات تھیں۔ جن سے نانا جان نے نانی جان مرحومہ محترمہ حمیدہ بیگم (متوفیہ 7 فروری 1988ء) کی وفات کے بعد نکاح ثانی کیا تھا۔ وہ نانا جان کے سگے چچا مولانا حافظ عبدالحئی کی صاحب زادی ہیں۔ حافظ عبدالحئی مرحوم معروف کتاب “مراة القرآن” کے مؤلف تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان اور نانی جان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملات میں نہایت حساس ، سنجیدہ ، مخلص اور محنتی تھے۔
نانی جان ان کو پڑھاتی اور سکول کے سبق اور ہوم ورک وغیرہ کی بھی پوری نگرانی رکھتی تھیں۔
نانا جان اپنے بچوں کے ہفتہ بھر کے سبق کا ٹیسٹ لیتے اور اچھے نمبر حاصل کرنے والے کو انعام عطا کرتے۔ جو کبھی نقد پیسوں کی صورت میں ہوتا اور کبھی نانا جان خود بازار سے کھانے پینے کی کوئی مزےدار من پسند چیز مٹھائی ، کیک ، سموسے وغیرہ لاتے اور انعام کے مستحق بچے کو دوگنا حصّہ دیتے یا پھر اپنی پسند کی چیز لینے کا اختیار دیتے۔

بعد میں ان کی اولاد و احفاد میں ہمارے کزنوں میں سے کسی کے قرآن مجید کے حفظ کی تکمیل ہوتی تو وسن پورہ میں نانا جان کے گھر میں سارے خاندان کے افراد کی بڑی دعوت ہوتی ۔ جس میں پر تکلف اہتمام ہوتا۔ سب بڑے نئے حافظ قرآن بچے کو پیار کرتے اور اسے تحائف اور دعائیں دیتے۔

دعوت کے بعد دادا جان نئے حافظ قرآن کا ہلکا پھلکا حفظ کا ٹیسٹ لیتے اور پھر اسے 500 روپیہ انعام دیتے جو اس دور میں بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ (اندازاً عصر حاضر کے دس ہزار روپے کے برابر ہوتی ہوگی)

حفظ کا ٹیسٹ لینے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ
چیک کیا جائے کہ بچے کو قرآن مجید کتنا یاد ہے؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے نانا جان مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میں جب تعطیلات میں قرآن مجید سنانے کے لیے مدرسہ (تدریس القرآن والحدیث للبنات، وسن پورہ) جاتی تھی تو میرا قیام و طعام گھر میں ہی ہوتا تھا۔
مدرسہ اور نانا جان کا گھر بالکل آمنے سامنے واقع تھے۔ وہ مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ میرے آنے سےخوش ہوتے تھے، حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے کہ
“یہ چھٹیوں میں آتی ہے اور ہفتے میں مکمل قرآن مجید زبانی سنا کر واپس چلی جاتی ہے۔ ماشاءاللہ۔”

کبھی کہتے تھے کہ “یہ سارے بہن بھائی بڑے ذہین ہیں۔ ماشاء اللہ!”

جب ہم ان کے گھر جاتے تھے تو بڑے خوش ہوتے تھے اور خندہ پیشانی سے ملنے تھے ۔ محبت اور شفقت سے ماتھا چومتے تھے۔
آپا جی عقیلہ بہت اچھی مہمان نوازی کرتی تھیں ۔ وہ ہماری پہلی نانی جان (حمیدہ بیگم ) کی وفات کے بعد ہماری دوسری نانی جان تھیں لیکن چھوٹے بڑے سب ان کو “آپا جی” کہتے تھے۔

نانا جان بچوں بڑوں سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ وقت ضرور گزارتے تھے ۔ پہلے وہ اپنا لکھنے پڑھنے کا کام بروقت پورا کرتے تھے۔ پھر کھانے کے وقت ہم سب کے ساتھ اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔ اور کھانے کے بعد بھی یہ خوش گپیاں چلتی رہتی تھیں۔

ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ خاندان کی جن اکثر بیٹیوں کی شادیاں خاندان سے باہر ہوئی ہیں، تو ان کے رشتے اور شادی وہاں ہونے کی ایک بڑی وجہ کیلانی خاندان سے تعلق ہونا بھی ہے۔

نانا جان حساب کتاب کے اتنے صاف شفاف اور کھرے تھے کہ مدرسہ کے معاملہ میں حساب کرتے ہوئے اگر ایک روپیہ، دو روپیہ کا حساب رہ جاتا تو وہ بھی صاف (clear) کرتے، پھر باقی حساب کتاب کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ ہم سب لوگ “فیملی پکنک” پر گئے ہوئے تھے۔ فیملی پکنک میں خاندان کے تقریباً تمام افراد شامل تھے۔
نانا جی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ تو میں نے تب ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور ہر جگہ ان کے ساتھ ساتھ موجود تھی۔ میری عمر اس وقت تقریباً دس گیارہ سال کے لگ بھگ تھی۔
خالہ عطیہ کا بڑا بیٹا عثمان بڑا شرارتی بچہ تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں تین چار سال چھوٹا تھا۔

وہ مسلسل کوئی نہ کوئی شرارت کر رہا تھا۔ خالہ عطیہ اس کی وجہ سے پریشان ہو رہی تھیں۔ کبھی ایک بچے کی، کبھی دوسرے بچے کی شکایت بڑوں تک پہنچ رہی تھی۔ خالہ جان بھی زچ ہو رہی تھیں۔

جب کبھی عثمان کسی بچے کو شرارت سے مارتا یا تنگ کرتا یا لڑتا، تو میں نانا جان کا ہاتھ چھڑوا کر بھاگ کر عثمان کے پاس پہنچ کر کبھی اس کو منع کرتی، کبھی اس کو ایک دو تھپڑ رسید کرتی ، کبھی اس کی دوسرے بچے سے صلح کرواتی ۔ پھر دوبارہ بھاگ کر نانا جان کے پاس واپس آکر ان کا ہاتھ تھام لیتی۔

نانا جان نے مسلسل اس بات کا نوٹس لیا۔ صورت حال دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور ارد گرد کی خواتین سے کہنے لگے کہ “دیکھو ! خولہ عثمان کو صحیح کنٹرول کرتی ہے۔” یہ میری اس بروقت کاروائی کی حوصلہ افزائی تھی۔

اسی حوالے سے نانا جان کہتے تھے کہ “عثمان کا توڑ خولہ کرتی ہے۔ اس کو صحیح پھینٹی لگاتی رہی ہے۔” اور نانا جان یہ بات بعد میں بھی ہنستے ہوئے دہراتے رہتے تھے لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس موقع کے علاوہ کبھی عثمان بھائی کی پٹائی کی ہو۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی اور عزت کرتی تھی۔ اور عثمان بھائی بھی میری بے حد عزت کرتے ہیں۔

نانا جان تربیت کا کوئی پہلو نظر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمارے دیگر بزرگوں کا بھی تربیت کا یہی طریقہ تھا۔
اس کے علاوہ نانا جان ہر ایک کی طبیعت و مزاج ، صلاحیتوں ، ٹیلینٹس اور پوٹینشیلز کے اعتبار سے اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

فیملی پکنک ہمارے خاندان کی ایک قدیم، مختلف، منفرد اور دیرینہ روایت رہی ہے جس میں مختلف اجتماعی مواقع پر مختلف عوامی جگہوں پر خاندان کے بزرگوں کی موجودگی اور راہنمائی میں سب لوگ اکٹھے ہو کر پکنک مناتے ہیں۔ جس میں کئی صحت مندانہ سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

خاندان کے مختلف گھرانوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے، وہ آپس میں خوش باش وقت گزارتے ہیں ، دکھ سکھ شئیر کرتے ہیں ، بچے ہنستے کھیلتے اور مختلف جھولے جھولتے ہیں۔

اور ان مواقع پر نماز باجماعت کا خصوصی اور بر وقت اہتمام ہوتا ہے جس میں ارد گرد سے بھی تفریح کے لیے آئے ہوئے لوگ وضو کرکے نماز میں شامل ہوجاتے ہیں۔

خواتین اور لڑکیاں نماز کے ساتھ پردہ و حجاب کا بھی ہمیشہ کی طرح خصوصی اہتمام رکھتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان دبلے پتلے ، سڈول ، پونے چھ فٹ قد کے مالک تھے اور ان کا وزن صرف 55 کلو تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اتنا فٹ رکھا ہوا تھا کہ کبھی پیٹ نکلا ہوا محسوس نہ ہوتا تھا۔

مجھے نانا جان کا انداز، شکل و صورت اور قد کاٹھ خوب یاد ہے۔ ان کی چال ڈھال، ان کے اٹھنے بیٹھنے کا انداز، ان کی گفتگو، ان کی بذلہ سنجی اور بر محل جوابات ذہن اور حافظے میں اچھی طرح نقش ہیں۔

فیملی کی ایک چھوٹی سی شیر خوار بچی بہت زیادہ روتی دھوتی تھی۔ جب دیکھیں، وہ رو رہی ہوتی تھی اور اس کی ماں اسے چپ کروانے یا سلانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ جب بچی سوئی ہوئی تھی تو نانا جان کی اس پر نظر پڑی۔ بے ساختہ بولے
“فتنہ جب تک سویا رہے، بہتر ہے۔”

اب کہاں نانا جان اور ان کی دلچسپ محفلیں!!!!
ان کی بذلہ سنجی اور برجستہ گفتگو!!!
اب پیچھے صرف ان کی خوبصورت یادیں اور باتیں ہیں!!!
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر ٹھنڈی رکھے۔ آمین ثم آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان بعض اوقات کسی قریبی کی گردن پہ ہاتھ رکھ کر اور اس کا سر دائیں بائیں ہلا کر پوچھتے تھے کہ “بتاؤ کیا بات ہے؟”
یا خود بتاتے تھے کہ “یہ بات ہے اور اس طرح ہے۔”
گردن پہ ہاتھ رکھ کر سر ہلانے والا انداز ان کی اولاد میں سے ماموں عتیق کا بھی ہے۔

جب ماموں نے اپنے کسی بچے سے کسی بات کی رپورٹ لینی ہو تو اس کی گردن پر ہاتھ رکھ کر سر دائیں بائیں ہلا کر کہتے ہیں کہ “سناؤ بھئی! آج کیا کچھ کیا ہے؟”

ایک دفعہ جب نانا جان ہمارے گھر آئے تو انہوں نے اسی طرح میری گردن دبوچ کر، سر ہلا کر پوچھا “سناؤ کیا حال احوال ہے؟”
تو میں نے بدقت جواب دیا کہ”پہلے تو ٹھیک تھا، اب خراب ہو گیا ہے۔” نانا جان سمیت سب لوگ ہنسنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی باتوں اور یادوں سے آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔ دل ودماغ بہت سی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ اور زبان پر ان کے لیے اور اپنے والدین کے لیے بہت سی دعائیں آجاتی ہیں۔
بے شک۔۔۔ ہمارے لیے والدین کا حق ادا کرنا ممکن نہیں!!!
اور بالخصوص جب وہ نیکو کار ہوں اور اچھی تربیت کے لیے کوشاں بھی رہے ہوں!!!

میں سوچتی ہوں کہ ہم اپنے بزرگوں کی باتوں کو یاد کرکے خوش ہوتے ہیں، اپنی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ان باتوں کے ساتھ یہ سوچ بھی پریشان کرتی ہے کہ ہم ابھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم سے بہت پیچھے بلکہ کوسوں دور ہیں!!!

جب ہم باذن اللہ، اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جائیں گے تو معلوم نہیں ہماری اولادوں کے پاس ہمیں یاد کرنے کے لیے کیا ہو گا؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے انعامات اور اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن ان کا سب سے “خصوصی اعزاز” جو ان کو اللہ رحمان ورحیم کی طرف سے عطا فرمایا گیا، وہ یہ ہے کہ وہ بالکل صحت و تندرستی کی حالت میں چلتے پھرتے، کسی سے خصوصی خدمت لیے بغیر خاموشی اور وقار سے 18 دسمبر 1995ء کو عشاء کی نماز میں صفِ اوّل کے سب سے پہلے نمازی بن کر پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ اَللہُ اَکْبَرْ

اس موت پر جتنا رشک کیا جائے، کم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بھی حسن خاتمہ فرمائے اور ہمیں بھی حالت ایمان و فرمانبرداری میں ایسی خوبصورت اور قابل رشک موت عطا فرمائے۔ آمین

؎ مرنے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے خوش قسمت لگتے ہیں وہ لوگ اور وہ دور کہ جب آج کے دور فتن کے مقابلے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے مراحل نسبتاً آسان تھے۔ موبائل اور سوشل میڈیا کے وہ مسائل ابھی شروع نہ ہوئے تھے۔ چھوٹوں کے پاس بڑوں کے لیے عزت و احترام اور وقت ہوتا تھا۔ اور بڑوں کے پاس چھوٹوں کے لیے وقت اور محبت و شفقت ہوتی تھی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ
ہمارے نیک وصالح، دین دار اور سادہ مزاج بزرگوں کی عمدہ اور عملی تعلیم و تربیت نے ہمارے والدین ، ہمیں اور ہمارے بچوں کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ آج نیکی اور تقویٰ والوں میں اس خاندان کا نام بھی شمار کیا جاتا ہے۔
وگرنہ ہم کیا اور کیا ہماری اوقات!
الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔
واجعلنا للمتقین اماما۔ آمین

وہ کتنے نیک و صالح اور پیارے لوگ تھے جو اللہ کے پاس جا چکے ہیں!!!
جو اس دھرتی کی رونق، آٹے میں نمک اور پہاڑی کا چراغ تھے!!!

؎ شمع گل وہ ہوگئی جس سے تھا حکمت کا فروغ
گھٹ رہی ہے روشنی اور بڑھ گئیں تاریکیاں

اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ ہم سب کو نانی جان، نانا جان اور ہمارے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ اور ہمارے بچوں کو بھی ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

رب ارحمہما کما ربینی صغیرا۔
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد۔ ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس۔ وابدلہ دارا خیرا من دارہ واهلا خيرا من اهله وزوجا من زوجہ۔ وادخله الجنة الفردوس واعذه من عذاب القبر و من عذاب النار۔
آمين ثم آمین يارب العالمين!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “ایک عظیم مفسر قرآن کی کچھ یادیں، کچھ باتیں” جوابات

  1. طہورا Avatar
    طہورا

    ایک عظیم مفسر قرآن کا تذکرہ خیر بہترین ہے ماشاءاللہ۔
    سبحان اللہ! نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں ان کا فوت ہونا اور ان کا حسن خاتمہ قابلِ رشک ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حالت ایمان میں اور بہترین حسن خاتمہ نصیب فرمائے۔
    آمین ثم آمین

  2. Talha Avatar
    Talha

    !Great and Informative Article
    May Allah bless maulana with mercy and peace

  3. Ismail Avatar
    Ismail

    Excellent and efficient article
    Masha Allah

  4. Muhammad Avatar
    Muhammad

    بہترین اور معلوماتی تحریر ہے ماشاءاللہ۔
    پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ بہت سی نیکیوں اور بھلائیوں کی ترغیب ملی۔

  5. Hafsa Avatar
    Hafsa

    Great and excellent article
    Masha Allah