موت

اف ! یہ غم کیسے ہوگا کم ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

اف یہ غم کیسےکم ہوگا باجی!
ابھی کل ہی تو اس سے بات ہوئی ، اچھی خاصی تھی ۔ بس تھوڑا بی پی ہائی تھا ۔ ڈاکٹر نے بھی کہا : گھبرانے کی بات نہیں ۔ آپریشن سے پہلے مریض تھوڑا پریشان ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے یہ سب نارمل ہے ۔ باجی ! آپریشن کے بعد اس کا خون نہ رکا اور پھر اسے ہوش ہی نہیں آیا . رپورٹس آئی ہیں تو پتہ چلا کرونا وائرس تھا ۔

وہ ابھی بھی رو رو کر اپنی بہن کے غم کا سوگ منارہی تھی ۔ اس کی بہن کے انتقال کو دوسرا ہفتہ گزر چکا تھا ۔ دو بچوں کے بعد تیسرا بھی آپریشن ہی سے ہونا تھا ۔ بس بچے کی پیدائش کے بعد وہ خود ابدی زندگی سدھار گئی ۔ اس کی بڑی بہنوں کا سارا غم یہ تھا کہ مرنے سے پہلے وہ اس کو گلے لگا کر پیار و تسلی بھی نہ دے سکیں ۔ کیونکہ عرصے سے بہنوں میں سلام دعا کے علاوہ ہرطرح کی بات چیت بند تھی ۔

وہ کہہ رہی تھی: باجی ! پتہ نہیں میرا رب بھی مجھے معاف کرے گا یا نہیں ۔ وہ مجھے فون بھی کرتی تو میں اس کا فون نہیں اٹھاتی تھی ۔ میں نے اسے تسلی دی تم اللہ سے اپنے اور اس کے لئے مغفرت کی دعا کرو ۔ اس کی طرف سے کچھ صدقہ کردو ۔ اللہ بہت رحیم و کریم ہے۔

کیا بھروسہ زندگی کا ہم کریں
آج ہم میں جان ہو کل ہونہ ہو

واقعی کسی کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ اب اس کرونا کی وبا کے دوران تو موت کو ہم سب بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو ناگہانی و وبائی امراض ، بیماریوں ، آفات و مصائب سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ، کثرت سے موت کو یاد کیا کرو ، اس لئے کہ موت کا یاد کر نا ،گناہوں کو دور کرتا ہے ۔ انسان جس زندگی سے محبت کرتا ہے وہی اتنی بے اعتبار ہے کہ کچھ خبر نہیں کب ہم سے بے وفائی کرے اور کب جیتے جاگتے انسان کو خود موت کی آغوش میں دھکیل دے اور انسان جس موت سے بہت دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ جیسے زندگی سے یہ محبت زندگی کو انسان سے وفا پر راضی کر لے گی اور جب تک وہ چاہے گا زندگی اس کا ساتھ دے گی جبکہ موت وہ اٹل حقیقت ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتی ۔

بے شک مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ اللہ کیلئے ہوتا ہے اس لئے وہ ہوش مند رہتا ہے۔ اپنے سارے راز ، دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی بہت قریبی بھائی ، بہن ، دوست ، احباب جاننے والے سے کافی عرصے تک نہیں ملتے ۔ کچھ رنجشیں ، کچھ مصروفیات اور کچھ ترجیحات ہمارے ملنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔

ہم ان سے نبرد آزما رہتے ہیں کہ پھر اچانک اس عزیز کی موت کی خبر ہمیں ہماری مصروف زندگیوں سےیک لخت نکال کر باہر لے آتی ہے ۔ اور پھر ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اب ہم اس سے قیامت تک نہیں مل سکتے ۔ ایسی صورتحال میں بعض لوگ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے ۔

وہ انہیں خوشی دے سکتے تھے ۔ وہ انہیں مناسکتے تھے ۔ اکثر لوگ کسی عزیز کے مرنے کے بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھیراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کچھ لوگ ہر اِک پر اعتماد کرتے ہیں مگر لوگ ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جو بہت سوں پہ اپنا اعتماد قائم رکھتے ہیں۔ دوسروں پر سے بھروسہ اُٹھ جانے پر بھی اُن کی ذات پر اعتماد کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ وُہ دوسروں پر اپنی ذات کا اعتماد ہر حال قائم رکھتے ہیں۔ وُہ رشتوں کو اعتماد کی ڈوری سے پروتے ہیں ۔ اعتماد کا رشتہ ہم مزاجوں میں قائم ہوا کرتا ہے ۔ غیر مزاج غیر ہی ہوا کرتے ہیں۔ گھروں میں جب مزاج یکساں نہ رہے تو فاصلے اندر ہی اندر پیدا ہو جایا کرتے ہیں ۔ ہمیں ہر آن لوگوں پر اپنا اور لوگوں پر اعتماد کو بحال رکھنا چاہیئے۔اس سے انسان ایک مطمئن زندگی گزارتا ہے۔

بعض اوقات کچھ لوگ خواہ مخواہ لڑائی و فساد کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمیشہ آپ کو دوسروں کی نظروں میں نیچا دکھانے کی کوشش کرتےہیں ۔ ایسی صورت حال میں انسان کو معلوم ہونا چاہیےکہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف ، نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔

اگر کسی قریبی عزیز کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھوٹ گئی جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ یہ احساس بالکل طبعی ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔

ڈاکٹر کی مدد:

اگر کسی عزیز و اقارب کے مرنے کے بعد انسان پر نفسیاتی کیفیات طاری ہونے لگیں تو کسی معالج یا کنسلٹنٹ سے رجوع کرنے میں بالکل نہیں ہچکچانا چاہیے۔

● کبھی کبھی ان حالات میں راتوں کی نیند کافی عرصے کے لئے خراب ہو جاتی ہے جس کے برے اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ لہٗذا ڈاکٹر سے چند دنوں کے لئے نیند کی دوائی لی جا سکتی ہے۔

● اکثر ڈپریشن زیادہ بڑھ جائے جس میں آپ کی بھوک، نیند اور طاقت و توانائی متاثر رہنے لگے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

● کچھ لوگ کونسلنگ اور سائیکو تھراپی سے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

● کسی کی موت کے غم سے گزرنا زندگی کا حصہ ہے۔ یہ ایک عجیب، دردناک اور تکلیف دہ مرحلہ ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو اس دوران اور بعد میں بھی کسی طبی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

نہیں زیبا کسی کی بد دعا لو
سنو روٹھے ہوؤں کو اب منا لو

مدد کو آ ہی جائے گا کوئی پھر
ضرورت ہے ابھی خود کو سنبھالو

تری دہلیز پر کب سے پڑا ہے
نہ دھتکارو اسے اپنا بنا لو

مسرت کی گھڑی میں تم زباں سے
کوئی منحوس جملہ مت اچھالو

بہت مضبوط اپنا حوصلہ ہے
جو چاہو تم ہمیں بھی آزما لو

اگر تم چاہتے ہو سرخروئی
” مدد مجبور کی کرکے دعا لو ”

بھلے محمود سے ہے بیر مانا
کسی کے ساتھ لیکن تم نبھا لو


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں