عبیداللہ عابد……….
میں جس نوشین نقوی کو جانتا ہوں، وہ انتہائی محنتی اور مخلص صحافی ہیں، سن 2012 سے2013 تک ہم ایک ہی ادارے اور ایک ہی سیکشن میں کام کرتے رہے، پھرایک باہمت خاتون ہونے کے ناتے انھوں نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا اور پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں چھلانگ لگادی۔ "اے آروائی” ان کا نیاادارہ تھا، اس کے بعد ان سے جب بھی آمنا سامنا ہوا ، وہ اے آر وائی ہی میں پائی گئیں۔ پھر پانچ برس بعد، چندماہ پہلے ایک روز خبر ملی کہ اے آر وائی والوں نے انھیں ایک جرم بے گناہی میں برطرف کردیا ہے۔ جرم یہ تھا کہ نوشین نے میڈیا اداروں میں ہونے والی چھانٹی کے خلاف فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تھی. نوشین نے اپنی برطرفی پر ایسا ردعمل دیا کہ ان کے ادارے کے مالکان ہکابکا رہ گئے۔ یہ غیرمعمولی جرات مند خاتون دفتر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئیں۔
پھرایک روزعارف حمید بھٹی اے آر وائی مالکان کے نمائندہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔یہ وہی عارف حمید بھٹی ہیں جو اپنے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کرپشن اور حکمرانوں کی نااہلی، استحصال کے خلاف بھاشن دیا کرتے تھے. روز کہاکرتے تھے کہ فلاں حکمران اپنی پالیسیوں سے غریب عوام کو کچل رہے ہیں. عارف بھٹی نے وہاں "گواہی” دی:”نوشین نقوی کبھی دفتر نہیں آتی تھی،چار سال تک انہوں نے کوئی کام نہیں کیا ۔اے آر وائی نے انھیں چار سال تک برداشت کیا۔۔۔ان کے پاس کوئی اسائنمنٹ نہیں تھی۔۔۔فارغ بٹھا کے ادارہ انھیں کب تک تنخواہیں دیتا،اس لئے انھیں فارغ کر دیا گیا۔۔۔۔”
اب کی بارنوشین نقوی ہکا بکا ہوگئیں،انھیں امید ہی نہ تھی کہ عارف بھٹی مالکان کی غلط اور جھوٹ پر مبنی طرف داری کریں گے۔ میں ہمیشہ سے سمجھتا آیاہوں کہ صحافی جب ایک خاص سطح سے بلند ہوجاتا ہے، تو وہ صحافی نہیں رہتا،”خلائی مخلوق” بن جاتا ہے اور عام صحافیوں سے زیادہ تنخواہ اور مراعات لینے کے چکر میں مالکان ہی کے مفادات پورے کرتا ہے، ان کے استحصالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں انھی کا مزدور بن جاتاہے. وہ دور بیت چکا ہے کہ جب صحافی مالکان کے قریب ہوکر بھی صحافیوں کے مفادات کا تحفظ کیا کرتاتھا۔ اس لئے ہمیں مالکان کے ساتھ مل کر صحافیوں کا معاشی قتل عام کرنے والے شیاطین کو اپنی صفوں میں شامل نہیں سمجھنا چاہئے۔ جس روز ہماری یہ غلط فہمی دور ہوگئی، حقوق کی جنگ میں ایک بڑا سنگ میل طے ہوجائے گا۔
میں گزشتہ کئی برسوں سے پوری طرح یکسو ہوں کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کا جھنڈا لہرانے والی تنظیمیں اور پاکستان بھر کے پریس کلبوں کے منتخب نمائندگان پاکستانی سیاست دانوں سے کہیں زیادہ گندی سیاست کررہے ہیں۔ وہ صحافیوں کے چھوٹے چھوٹے ایشوز پر کئی کئی سال تک اپنی سیاست چمکاتے ہیں، ووٹروں کو بلیک میل کرتے ہیں، منتخب ہوکر حکمرانوں سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں اور سال کے اختتام پر ایک بار پھر بلیک میل کرنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
لاہور پریس کلب کے ووٹرز جانتے ہیں کہ "ایف بلاک” کے ایشو پرگیارہ برس تک سیاست کی گئی،یہ مسئلہ آج حل ہوجائے گا، کل ہوجائے گا، اسی انتظارمیں جوان صحافی بوڑھے اور بوڑھے مرکھپ گئے لیکن یہاں اس مسئلے پر انتہائی گندی سیاست ہوتی رہی۔ میں سمجھتاہوں کہ اب وقت آگیا ہے، ووٹ صرف کارکردگی کی بنیاد پر دیاجائے۔ میں کسی ایک شہر کے پریس کلب یا صحافتی تنظیموں کی بات نہیں کررہا بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں موجود کلبوں اور ایسوسی ایشنز کی بات کررہاہوں. ہم اپنے مفادات کے حصول کے لئے ایسوسی ایشن بناتے ہیں لیکن پھر چند لوگوں کے ہاتھ میں باگ ڈور تھمادیتے ہیں جو اپنی فائلوں پر دستخط کراتے ہیں اور کمیونٹی کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں.
گزشتہ روز نوشین نوی نے بالکل درست کہا کہ پاکستان بھر کے پریس کلبز میں انتخابات کے دوران ورکرز دشمنوں اور مالکان کے ٹائوٹوں کو آواز سے نہیں تو کم ازکم ووٹ سے ضرور جواب دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "ہم پر مسلط ہونے کے خواہشمند آستین کے سانپوں کو اپنے ووٹ سے کچلنا ہمارا فرض ہے، ہمارے ہزاروں ساتھی بے روزگار ہوئے انہیں ذلیل و خوار کیا گیا۔اس میں جو بھی ذمہ دارمحسوس ہو، اسے اور اس کے نمائندوں کو ہر گز ووٹ نہ دیں۔ان سے ضرور پوچھیں کہ انہوں نے اس کمیونٹی کےلئےکیا کچھ کیا جس کے مفادات کے تحفظ کا نعرہ لگا کر وہ ووٹ حاصل کرتے ہیں۔باشعور صحافی ،مالکوں کے وفاداروں کا ہتھیار بننے سے انکار کر دیں ۔۔۔ خوشامدی بکائو ٹولے کو بھگانے کا وقت ہوا چاہتاہے۔۔۔یہ سب کچھ ہمیں اپنے لئے کرنا ہے،انہی میں مخلص لوگ بھی ہوں گے انہیں منتخب کرنا ہوگا۔۔آئیے! رزق چھیننے کے خواہشمندوں سے ان کے تخت چھین لیں”۔