رائے عامہ

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی

سوال : کلنٹن نے استعفیٰ کیوں دیا؟جواب:مونیکا اسکینڈل کے بعدرائے عامہ اسکے خلاف ہوگئی تھی،

سوال :ہلیری صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں واضح اکثریت سےکیوں ہار گئی؟جواب:ایجینڈے کے علاوہ رائے عامہ ٹرمپ کے حق میں تھی،

سوال:صدر صدام حسین کو اقتدار سے کس نے ہٹایا؟جواب:رائے عامہ نے،

سوال:خمینی انقلاب میں کس کی وجہ سےآیاتھا؟جواب:رائے عامہ کی،

سوال:سیاہ فاموں کےحق میں آواز بلند کرنے والے نیلسن مینڈیلا کو کس نے ہیرو بنایا؟جواب:رائے عا مہ نے،

حسن البناء کس طرح اپنے افکار مصری معاشرے میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے؟جواب:رائے عامہ میں اپنے کردارکے ذریعے،

شیخ احمد یاسین نے فلسطینیوں کو کس طرح ایک سپر پاور کے سامنے ڈٹ کر کھڑاہونا سیکھایا؟امام مودودی کی انقلابی سوچ نے اسلامی تحریکوں میں کیسے جان ڈالی؟رائے عامہ کی بدولت،

سندھ محمد بن قاسم کی کوششوں سے باب السلام کیسے بنا؟رائے عامہ کے ذریعے،

مسلمان حکمرانوں نےہندوستان پر 1000 سال کیسے حکومت کی ؟جواب:رائے عامہ کی بدولت ،

غرض1857ء کی جنگ آزادی کےمحرکات و اسباب ہوں یا قائد اعظم کی کوششوں سے الگ مملکت کا قیام،خطے میں 1965ء جنگ کی فتح ہو یا1971ء کی ناکامی ہر جگہ رائے عامہ کے بنیادی و لازمی و ناگزیرمحرک کو نظر انداز کیا جانا ناصرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ اس کی موجودگی کے بغیر کوئی بھی تحریک ناکام و نامکمل ہے ۔

یہ رائے عامہ آخرہے کیا؟کس کی بدولت وجود میں میں آتی ہے؟اس کی خصوصیات کیا ہیں ؟کیا ایک فرد ایک قوت کے اس رائے عامہ کی بدولت ابھرکر سامنے آسکتاہے؟کیا یہ رائے عامہ ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے کا فن رکھتی ہے؟ آئیے غور کرتے ہیں ۔۔!!

مشہور سماجی مفکر مورس گنسبرگ(Morris Ginsberg)کہتاہے”رائے عامہ ایک سماجی پیداوارہےجومعاشرے کے بہت سے اذہان کے باہمی عمل اور ردعمل کے نتیجے میں پیداہوتی ہے”۔فرہنگ عمرانیات(Dictionary Of Sociology) کےمطابق”آبادی کی اکثریت کاکسی خاص مسئلے کے متعلق ایسے رجحان جو حقیقی گواہی کی قابل مقدار حصہ پر مشتمل ہو اور جس میں کسی قدرغور و فکر،تجربہ و استدلال شامل ہورائے عامہ کہلاتی ہے”۔ایل ـڈبلیوـڈیوب(L.W.Dube)کہتاہے”ایک ہی معاشرتی گروہ سے متعلق افراد کا کسی مسئلہ کے بارے میں رجحان یاکردار رائے عامہ ہے”

ان تعریفوں سے رائے عامہ کی جو واضح تعریف ہمارے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ رائے عامہ کی کسی ایک فرد کی اس کی ذاتی معاملے پر رائے نہیں بلکہ رائے عامہ عوام کی کسی ایک مسئلے پر رائے ہے۔عوام کی یہ رائے بھی معاشرے کے مختلف گروہوں ، افراد کے اپس میں ایک دوسرے کے خیالات کے بعد جو رائے قائم ہو اسے رائے عامہ (Opinion Public)کہتے ہیں۔
اس رائے عامہ کی بہت سی خصوصیات ہوتی ہیں۔

1۔رائے عامہ افراد کی سوچی سمجھی رائے ہوتی ہے
2۔رائے عامہ دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔
3۔رائے عامہ اجتماعی کردار کی ایک بہترین مثال ہے۔
4۔رائے عامہ میں ہر فرد کی رائے شامل نہیں ہوتی
5۔رائے عامہ کا تعلق جمہوری معاشرےسے ہوتاہے۔بادشاہپت اور آمریت میں اسکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی

رائے عامہ کے لئے ضروری ہے کے معاشرے کےمختلف افراد اس کے متعلق اپنےخیالات کا اظہار کریں ۔ رائے عامہ کے لئے تعداد کاہونا بھی ضروری نہیں ۔ یہ تھوڑے افراد کی رائے بھی ہوسکتی ہےاور ایک بہت بڑی تعداد کی رائے بھی ہوسکتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں رائے عامہ کے محرکات مختلف ہوتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خاص ایجنڈے کے تحت رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں آج تک رائے عامہ سے زیادہ قلیل لیکن مقتدر حلقوں کی رائے کی اہمیت زیادہ ہے ۔ اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرماہوتے ہیں ۔

کہیں امداد کی شرائط کہیں اقتدار کے ٹولے کی بےجا آزادی کہیں رائے عامہ کی آواز کو مختلف حربوں سے ناکام بنانا تو کہیں مقتدر حلقوں کی نافرمانی شمار کرتے ہوئے عوامی رائے کو جرم سے تشبیہ دیتے ہوئے رائے عامہ کودبایا جاتا ہے ۔ الحمدللہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے لیکن یہاں فیصلے آمریت اور بادشاہی نظام سے مماثل ہوتے ہیں ۔ یہاں جمہوری رائے سے زیادہ فرد واحد کی رائے کو فوقیت حاصل ہے ۔

مثال کے طور پرگیلپ سروے 2011 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ٪80آبادی پاکستان میں مکمل اسلامی نظام کے حق میں ہے۔ لیکن اس آواز یعنی رائے عامہ کی آواز کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دبایا جاتا ہے اور دبایا جاتا رہے گا ۔ پاکستان کی ٪70 آواز کو دباتے ہوئے بیرونی قرضے میں جکڑے ہمارے حکمران نے اپنے اثاثوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایمان کا سودا کرلیا ۔ اورعاشق رسولﷺکو تختہ دار پر چڑھادیا ، خود ساختہ آقائوں کی غلامی کرتے ہوئے رائے عامہ کی بھی پروا نہ کی اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو اپنے آقائوں کےحوالے کردیا ،

رائے عامہ کی مکمل مخالفت کے باوجود لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو فاسفورس بموں سے ختم کردیا ، مغربی پاکستان کی مخالفت کے باوجود مشرقی پاکستان حکمرانوں کے فیصلوں اور سازشوں کی نذر ہوگیا۔ وانا وزیرستان امریکی چھائونیاں بن گئیں ، تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مکین بے آسراء اور لاوارث ہوکر ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ اصولی طور پر جمہوری رائے کا احترام کرتے ہوئے رائے عامہ کےفیصلوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ایک ذمہ دار معاشرے کی نشانی ہوتی ہے ۔ معاشرے اسی طرح ترقی کاسفر کرتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات سے بھی یہی زریں اصول نکلتے ہیں۔حضرت عمر بطور حاکم وقت عوام میں اس بات کے جواب دہ تھے کہ انکے پاس قمیض کا کپڑا زیادہ کیسے ہوگیا کیونکہ وہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے تھے ۔بقول شاعر

بجاکہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

آنحضورﷺ نے امیر عورت کے چوری کرنے پر بھی اسی سزا کا اطلاق کیا جو اسلام کے نزدیک چور کی سزا تھی ۔ اس وقت سفارش کرنے والے صحابی پر غضب ناک ہوئے اور فرمایا : تم سے پہلے کی امتیں بھی اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی امیر آدمی چوری کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا لیکن غریب کو سزا دی جاتی خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمدچوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ۔

رائے عامہ کو اپنے کردار اپنے بہترین ابلاغی حکمت عملیوں سے ہموار کیا یہاں تک کہ مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا کوفتح کرنے میں کامیان ہوگئے ۔ وہ دن کے راہی رات کے سپاہی ہوا کرتے تھے ۔ راتوں میں اپنی بستیوں میں پہرہ دیتے تاکہ عوام کو کوئی تکلیف نا ہو۔

حضرت عمر کا یہ جملہ کہ” اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرجائے تو عمر رب کے آگے جوابدہ ہے ” رائے عامہ تشکیل دینے کی بہترین حکمت عملی تھا اور صرف گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے کہ آج تک مغربی ممالک میں عمر لاء پر تحقیق در تحقیق ہورہی ہے اور یہ قانون ترقی یافتہ معاشروں میں نافذ العمل بھی ہورہے ہیں لیکن یہاں پاکستان میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے میڈیا ، پریشر گروپوں ، قانون ساز اداروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذریعے رائے عامہ تشکیل دی جاتی ہے۔

ایک خاص اپجینڈے کے تحت سماج کواپنی رائے پر ہموار کرکے رائے عامہ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں رائے عامہ دبتے دبتے ایک لاوے کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ پھر دھونس ، زبردستی ان سرفروشوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی وہ حق کی پاداش میں تختہ دار سے بھی نہیں ڈرتے اور قانون کی نظر میں مجرم ٹھہرتے ہیں ۔

مصر میں اخوان المسلمون کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کا قصور صرف اتنا ہے کہ مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات ایک اسلامی ملک میں بذریعہ تبلیغ پھیلاتے رہے اور حاکم وقت کے ہاتھوں تختہ دار کو چومتے رہے ، اذیت ناک مظالم بھی ان کو ان کے مقصد سے ناہٹاسکے ۔ وہ بنگلہ دیش ہو یا مصر وہ فلسطین ہو چیچنیا ء رائے عامہ کے یہ رہنماء بظاہر کسی جگہ پذیرائی نہ پاسکے لیکن رب کی نظر میں اپنا مقام بناگئے۔

یہ عظیم سرفروش رائے عامہ ہم ہر فرد اپوار کرگئے اور ایک کی شہادت پر کئی نام لیواء پیدا کرگئے بقول شاعر

گر اک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج خون سے صد آفتاب ابھریں گے

بحثیت امت مسلمہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں ۔ ہر فرد کی ایک اہمیت ہے ، ہر فرد ملت کے مقدر کاستارہ ہے ، ہر فرد اپنی جگہ اہم ہے۔ انقلاب بھی رائے عامہ ہموار کرنے سے ہی آتے ہیں ہر فرد جب اپنی ذمہ داری ادا کرے گا تو معاشرہ خود بخود صحیح اصولوں پر استوار ہوگا۔ پھر کوئی شاہ رخ جتوئی کسی غریب شاہ زیب کوقتل کرکے بیرون ملک نہیں بھاگے ،کوئی بسمہ وی آئی پی پروٹوکول کے ہاتھوں جان کی بازی نہیں ہارے گی ، کوئی ملک کے ذخائر سوئس بینکوں میں رکھوا کر کروڑ پتی نہیں بنے گا ، کوئی پانامہ لیکس میں کرپشن کا مجرم عدلیہ پر انگلی نہیں اٹھائے گا ، کوئی آمر ملکی ذخائر غیروں کے پاس رہن رکھوا کر غیر ملکی جائیدادیں نہیں بنائے گا ، کوئی ملک کی زمینیں بیرون ملک نہیں رکھوائے گا ۔

رائے عامہ اتنی مضبوط بنانے کے لئے ہر فرد کو اپنے حصے کاکام کرنا ہے ۔ہم فرقوں ، ذاتوں ، گروپوں اور مسلکوں میں اسٹیٹس میں بٹے بیٹھے ہیں ،ہم اپنے سے کم درجہ رکھنے والوں کو سلام میں پہل نہیں کرتے ، ہم دنیا کی دوڑ میں اتنے آگے جاچکے ہیں کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر تسکین حاصل کرتے ہیں ۔ پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ حکومت خراب ہے ، کیا ہم نے اپنے گھر کی حکومت کو اسلامی طرز پر استوار کیا ہے ؟

ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو روز قیامت نبیﷺ کیے دیدار کی حسرت لئے ہیں یقینن ہم سب ہی یہ خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آنحضورﷺکے انتقال کے وقت ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن اس وقت گھر میں گیارہ تلواریں موجود تھیں ۔تو کیایہ سب باتیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں؟کیا آج بھی ہم امریکہ کینیڈا کی شہرت حاصل کرنے کے لئے بے چین نہیں ؟

کسی نےکیا خوب کہا ہے کہ "ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ ہماری سوچ ہے ۔ ہم امریکی شہرت تو چاہتے ہیں لیکن دفن مکے مدینے میں ہونا چاہتے ہیں”

کیا آپ جانتے ہیں امریکہ کی شہرت حاصل کرنے کے لئے آپ کو جن وعدوں پر دستخط کرنا پڑتا ہے اس میں آپ کے ایمان ، ملک اور قوم سب کو رہن رکھوانا پڑتا ہے ۔ دارالکفر اور دارالسلام کا فرق کیا صرف کتابوں کی حد تک محدود ہے ۔ میں یہ نہیں کہتی وہاں سب خوشی سے رہتے ہوں گے ۔ اسلام کا کام کرنے والے ہم سے زیادہ وہاں نومسلم موجود ہیں ۔ اب پاکستان میں رہتا ہوا مالی لحا ظ سے مستحکم شخص اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اس لئے امریکہ چلا جائے کہ یہاں زندگی کو خطرہ ہے تو موت تو وہاں بھی آنی ہے ۔

موت تو اٹل ہے کسی وقت کسی جگہ بھی آسکتی ہے ۔ سسٹم کو برا کہنے سے بہتر ہے اپنےحصے کی شمع جلا دیجئے۔ اس چڑیا کی طرح چونچ میں پانی کا قطرہ جمع کر کے حاکم وقت کی لگائی ہوئی آگ میں ڈالئے کہ آپ کا فرض ادا ہوجائے ۔ حالات کا شکوہ کرنے والے بزدل لوگ ہوتے ہیں بقول شاعر

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنےحصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تو حصے کی شمع جلانے کے لئے مجھے آپ کو زیادہ دور انے کی ضرورت نہیں یہ کام گھرکی اکائی سے شروع ہوکر سماجی و معاشرتی اداروں تک پہنچے گا۔امام مودودی کی 75 نفوس پر مشتل جماعت اسلامی آج پوری دنیا میں اپنا مشن لئے پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگارہی ہے۔فوت فیصلہ مضبوط کیجئے ،لوگوں سے محبت کیجئے ، لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے ، محبتیں بانٹئیے ، نفرتوں کو ختم کیجئے ، اپنی اور اپنے جیسے ہم خیال افراد کے ساتھ محبت و ربط کا بندہن باندھ کر رکھئے ۔ رائے عامہ ہم ہی جیسے مٹھی بھر افراد مل کر قائم کرتے ہیں۔ اور پھر وقت کی بڑی طاقت رائے عامہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتی ہے

میں اکیلاہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ملتے گئےکارواں بنتا گیا

فرد سے افراد افراد سے معاشرے اور معاشروں سے ہم خیال تحریکیں وجود میں آتی ہیں ۔ فرد کا ربط آپس میں مضبوط ہوگا تو اس آواز کو بڑھنے سے پھر کوئی نہیں روک سکتا۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں