شبانہ ایاز ، اردو کالم نگار

پاکستانی نوجوانوں میں اسٹریٹ کرائمز کا بڑھتا ہوا رجحان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

آج کل روزانہ ہی پاکستان  کے گلی کوچوں میں لوگوں کو راہ چلتے نقدی، موبائل فونز، موٹرسائیکل اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ چھینی یا چوری شدہ یہ اشیاء کوڑیوں کے مول بیچ دی جاتی ہیں ۔ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں قیمتی سامان سے محروم ہونے والے شہریوں کو اپنے نقصان کا دکھ تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے، لیکن زندگی سے محروم ہونے والے افراد کے اہل خانہ تمام عمر اپنے پیاروں کے غم میں مبتلا رہتے ہیں۔ جبکہ ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں معذوری کا شکار ہونے والے زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ہونے والی ڈکیتیوں،راہ زنی اور اسٹریٹ کرائمز میں اکثریت *نوجوانوں* کی ہے۔ ہمارے نوجوان بے روزگاری برداشت کرتے کرتے چوری، ڈاکہ، قتل، اسمگلنگ، منشیات اور  دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ھوتے جارہے ہیں۔

معاشی ناانصافی کے شکار نوجوان اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے جرائم کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔  کسی بھی قوم کے نوجوانوں  میں منفی سرگرمیاں عام ہونے لگیں تو قوم زوال پزیر ھو جاتی ھے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں،جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہوں۔ دنیا  کی ہر زندہ رہنے والی قوم نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کو دی ہے۔ دنیا کے نقشے پر پائیدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ہے۔  علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ھے کہ۔ 

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی 

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد 

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوان ستر فیصد ہیں جو کہ پاکستان کا مستقبل ہیں ۔ ہمارے نوجوان مشکل حالات میں بڑھتی مہنگائی کا سامنا کرتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طرح اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو بے روزگاری کے سبب ان کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت اور بے روزگاری سے دلبرداشتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہو رہی ہے، جس کی منہ بولتی تصویریں آئے دن اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں۔ 

ایک تحقیق کے مطابق جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی یعنی غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور مہنگائی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے جب نوجوان مسائل میں گھرتے ہیں تو وہ سڑکوں پر لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں۔ جب مہنگائی کی وجہ سے آمدنی و اخراجات میں توازن نہ رہے تو انسان اس توازن کو برقرار رکھنے کے لئے جائز و ناجائز ذرائع آمدن کے فرق کو مٹا دیتا ہے اور جب حق پر ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملے تو انسان خود انصاف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یوں جرائم کا مرتکب ہوتا ہے ۔

ارسطو  نے کہا تھا کہ *”غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہے.”*  انصاف نہ ملے تو ظلم /جرم بڑھتا ہے. ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ *”ممکن ہے کہ فقیری کفر میں مبتلا کردے۔”*  صرف دو روٹیوں اور سالن کی ایک پلیٹ کی جزوقتی فراہمی، یا سال میں ایک یا دو مرتبہ چند ہزار روپے فی خاندان بانٹ دینے سے بھلا *غربت کا عفریت* کہاں ٹلتا ہے۔۔۔؟؟؟؟ 

غربت کا خاتمہ ایک مضبوط اقتصادی پالیسی کا متقاضی ہے۔ روزگار کی فراہمی، مالی وسائل کی فراہمی کے لئے ہنرمند اور فنی تعلیم کا فروغ اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے افراط زر کی شرح میں کمی جیسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 4.5 فیصد ہے اور غربت 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہوگئی ہے. 50 لاکھ افراد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے آ چکے ہیں۔

  *خط غربت* سے نیچے رہنے والے نوجوان جہاں معاشرے میں تعلیم کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی معاشرتی برائیوں میں ملوث ھوجاتے ہیں،وہیں انہیں غربت مٹانے کی خواہش جرائم کی ایسی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے انسان عادی مجرم کا روپ دھار لیتا ہے۔اسی وجہ سے غربت کو *ام* *الخبائث* کہا جاتا ہے۔یہی ہر جرم کی ماں ہے۔۔۔۔

غربت اور ہوس دو ایسے عناصر ہیں جو جرائم کے لئے بنیادی محرکات کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔ جس ملک میں غربت پلتی ہے وہاں بے بسی، بے کسی اور بے حسی پروان چڑھتی ہے۔ انسان اتنا بے حس ہو جاتا ہے کہ وہ نیکی اور بدی کی پہچان کھو دیتا ہے۔۔ جیسے جیسے غربت میں اضافہ ہورہا ہے جرم کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔چوری،ڈکیتی، قتل،اغوا برائے تاوان، خودکشی اور غربت سے تنگ اکر بچوں کو قتل کرنا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔

جرم اور گناہ کا دوسرا محرک *ہوس* ہے ۔ یہ ہوس پیسے کی فراوانی کی ہو یا جنس مخالف سے نہ جائز تعلق کی۔ یہ ہوس ایسے ایسے جرم اور گناہ کا ارتکاب کروا بیٹھتی ہے کہ انسانیت بھی شرمسار ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں جرائم کے اسباب میں کچھ عدم برداشت کا بھی عمل دخل ہے۔ جب کسی کے مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی کام ہو جائے یا کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو قوت برداشت کی کمی کی وجہ سےوہ اس سے انتقام لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔  اسلام کا دیا سبق جو کہ تحمل، برداشت اور بردباری کا ہے اسے بھول جاتا ہے۔۔حالانکہ لوگوں کی غلطیوں اور خطاؤں کو معاف کر دینا اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے ۔ 

معاشرے میں جرائم کی زیادتی اور ان کے سد باب کے لئے سنجیدگی سے توجہ نہ دی جائے اور جرائم کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں تو معاشرے میں جرائم کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔۔ جن میں سرفہرست معاشرتی بگاڑ ، اخلاقی اقدار کی پامالی، بدامنی، معاشرتی تصادم کی زیادتی، اجتماعی ترقی میں رکاوٹ، زندگی میں گھٹن کا احساس، فتنہ اور قتل و غارت گری بڑھ جاتی ہے۔جرائم کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ہماری حکومتوں کی غلط روش  اور بے جا سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس کے اعلیٰ افسران، وڈیروں، چودھریوں اور سیاست کے خانوں کے سامنے ہاتھ باندھے اپنی پیٹی (بیلٹ) بچاتے نظر آتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکار کے نہیں بلکہ ان لوگوں کے ذاتی ملازم ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔جزا وسزا کے عمل کے سست ہونے کی وجہ  سے بھی ہمارے نوجوانوں کی اکثریت مختلف قسم کے گھناؤنے  جرائم سے وابستہ ہو رہی ہے۔ جو کہ بعد میں بڑے مجرم بن کر دہشت گردوں یا انکےسہولت کار میں تبدیل ہورہے ہیں۔خوف خدا برائیوں سے باز رکھتا ھے۔

اگر خوف خدا نہ ہو تو لوگ قانون کے خوف سے جرائم سے بچتے ہیں۔۔ قانون جتنا سخت اور بے لچک ہو گا لوگ جرم سے اتنا بچیں گے۔ ہمارے ملک میں سیاسی مداخلت، رشوت،سفارش و دیگر وجوہات کی بنا پر قانون کی گرفت ڈھیلی اور غیر مؤثر ہے۔ اسی وجہ سے عوام کی طبیعت میں بدمعاشی، قانون شکنی اور خود انتظامی کا تصور پایا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ حکومت و عدالت کے پاس انصاف نہیں، جس کی وجہ سے بھی جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔

ان جرائم کی روک تھام کے لیے سب سے زیادہ کردار حکومت کا بنتا ہے۔ کیونکہ قانون بنانا اور اس پر عمل درآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مجرم اگر بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے تو کسی بااثر شخصیت، عدالتوں میں ملنے والی ناانصافی، حکومتی نااہلی یا پھر قانون میں پائے جانے والے ان نکتوں کی وجہ سے جو انصاف کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ 

یہ حکومت کا ہی کام ہے کہ خیرات، لنگر اور قرضہ دینے کے بجائے روزگار کے مواقع پیدا کرکے بیروزگاری کا خاتمہ کرے۔ یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ کہ اشیائے خوردونوش کو عوام کی پہنچ میں رکھے تاکہ آمدن و اخراجات میں توازن قائم رہے۔ حکومت چند لوگوں  کے مفاد کے بجائے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے تو جرائم کی شرح کو بہت حد تک کم کر کے محفوظ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔پولیس کو بھی چاہیے کہ بڑھتی ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ہاٹ اسپاٹ کا تعین کریں۔ انفارمیشن بیسڈ سرچ آپریشن، سرپرائز ناکہ بندیاں  اور پولیس گشت میں اضافہ کے ساتھ تفتیشی نظام میں  بہتری لے کر آئیں۔ 

سنگین جرائم کی تفتیش میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنائیں اور باقاعدہ جیو ٹیگنگ بھی کی جائے۔آئمہ کرام مساجد میں بیٹھ کر بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں خوف خدا اور خوف آخرت پیدا کریں۔ جرائم کے نقصانات مذہبی اصولوں کی روشنی میں بیان کریں۔ میڈیا پر بھی ایسے پروگرامات دکھائے جائیں جن سے جرم سے نفرت پیدا کی جائے اور آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا کیا جائے۔  نوجوانوں میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان کسی بھی قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں