بھرتی ، روزگار

” اوبر ،کریم، فوڈ پانڈا ” پالیسی کے معاشرتی اثرات کیا ہوں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ذرا سی بات / محمد عاصم حفیظ

اگر آپ کسی بڑے شہر میں ٹیکسی سروس یا فوڈ ڈلیوری کی سہولت استعمال کرتے ہیں تو ایک تجربہ ضرور کیجئے گا ۔ ان نوجوانوں سے تعلیم کا پوچھیں ۔ آپ کو ایم فل ، ماسٹرز اور کئی دیگر ڈگریوں والے ضرور ملیں ۔ اس بار کالج میں داخلوں کے دوران آنے والے بچوں سے کچھ کچھ معلومات لیں تو بی ایس میں داخلہ لینے والے زیادہ تر لڑکے کوئی نہ کوئی پارٹ ٹائم نوکری ضرور کر رہے ہیں ۔ زیادہ تر فوڈ پانڈہ ڈلیوری ، اوبر یا کریم کی بائیک سروس ۔

میں ذاتی طور پر اس کا شدید حمایتی ہوں کہ آج کے دور میں ہر طالب علم کو دوران تعلیم ہی کچھ نہ کچھ آمدن کا انتظام کرنا چاہیے ۔ وہ کوئی نہ کوئی مہارت سیکھے اور ڈگری مکمل ہوتے ہی پروفیشنل لائف شروع کرے ۔ دوران تعلیم اوبر ، کریم ، فوڈ پانڈا کی پارٹ ٹائم جاب تو ٹھیک ، لیکن ڈگری کے حصول کے بعد ان بچوں کا حق ہے کہ انھیں اپنی فیلڈ میں کیرئیر شروع کرنے کا موقع ملے ۔ لیکن بدقسمتی سے پالیسی سازوں کو اس کا ذرا سا بھی احساس نہیں ۔

کوئی حکومتی پالیسی کس طرح پورے معاشرے اور طبقات کو متاثر کرتی ہے اس کی ایک جھلک سرکاری کالجز میں بھرتی کا عمل ہے ۔ حکومتی پالیسی کے باعث کس طرح یہاں ” توازن ” بگڑ چکا ہے ۔ اور اگلے چند سالوں میں شائد صورتحال اسے بھی آگے چلی جائے ۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن ایک بار پھر سرکاری کالجز میں لیکچررز کی نوکریاں بھرتی کرنے جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے ایک محکمانہ پرپوزل شئیر ہوئی ہے ۔ اس بار1359 خواتین اور صرف372 مرد لیکچررز کو بھرتی کیا جائے گا ۔ یعنی 73 فیصد خواتین اور 27 فیصد مرد آسامیاں ۔ اس سے پہلے آنے والی بھرتیوں میں 2691 خواتین اور 732 مرد لیکچررز کو بھرتی کیا گیا ۔ یعنی 79 فیصد خواتین اور 21 فیصد مرد آسامیاں۔ ہر پانچ لیکچررز کی بھرتی میں چار خواتین اور صرف ایک مرد کو بھرتی کیا جا رہا ہے ۔

سب سے پہلے تو یہ انتہائی خوش آئند ہے کہ حکومت سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نئی بھرتیاں کر رہی ہے ، مہنگائی کے اس دور میں سرکاری کالجز ، متوسط طبقے کے لئے تعلیم کا ایک سہارا ہیں ۔ خواتین کی بھرتیوں میں اضافہ بھی خوش آئند ہے ، اس سے ہزاروں گھرانوں کو روزگار میسر آئے گا ۔ خواتین کے لئے سرکاری اعلی تعلیم اور ملازمت کے مواقع میسر آنا مثبت پیش رفت ہے ، ان میں مزید اضافہ ہونا چاہیے ، کسی کو بھی ہرگز اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ۔

حقیقت یہی ہے کہ سرکاری شعبہ تعلیم سے متوسط اور لوئر مڈل طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے ، کیونکہ دیگر محکموں کے مقابلے میں تنخواہوں کا فرق بہت زیادہ ہے ۔ اس لئے اس طبقے کی خواتین کو روزگار ملنا ایک مثبت پیش رفت ہے ، ہمیں تعلیم کے میدان میں اس سے کہیں زیادہ ٹیچرز اور سہولیات کی ضرورت ہے جو کہ سرکاری سطح پر ابھی تک فراہم کی گئی ہیں ۔ اب بھی سرکاری کالجز کی تعداد اور ان میں مرد و خواتین سٹاف کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔

دراصل یہ کوئی مرد و خواتین میں ” مقابلہ بازی” ، یا حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ایک نسل کا مستقبل وابستہ ہے ، اس سے قومی ترقی جڑی ہے اور لاکھوں گھرانوں کی تعلیم و روزگار اس سے منسلک ہے ۔ یہ گھر کسی کا بھی ہو سکتا ہے، آپ کا بھی ۔

ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کو اس ساری صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایک سخت اور جابرانہ پالیسی کے تحت بوائز کے لئے تعلیم اور متوسط و لوئیر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع انتہائی محدود کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ یقین مانیں یہ کوئی مرد و خواتین کے مقابلے اور حقوق کی جنگ کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ ایک متوازن سوسائٹی کے قیام کا مسئلہ ہے ۔ اگر ہم تعلیمی و روزگار کی سہولیات کو آبادی کے تناسب سے فراہم نہیں کریں گے ، پالیسی کے زور پر مواقع تین گنا محدود کر دئیے جائیں گے تو اس سے معاشرے کا توازن بگڑے گا جس سے خاندانی ، سماجی نظام میں دیگر کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے ۔ اگر ایک متوازن قومی پیداوار اور ترقی کا حصول ہمارا مقصد ہے تو پھر اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔

گزشتہ چند سالوں سے یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بڑے بوائز کالجز میں بی ایس کلاسز شروع کرکے مخلوط بنایا گیا ۔ کچھ احباب پرجوش انداز میں اسے ” لڑکیوں کے لئے تعلیم کے مواقع” کے نام پر بڑا کاررنامہ دے کر خوب حمایت کرتے ہیں ۔ لیکن اگر غور کر یں تو اس سے تو خواتین کے لئے سہولیات اور اور مواقع میں اضافے کی بجائے انہیں محروم رکھا گیا ۔

آپ اس پالیسی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بوائز کالجز میں تو بی ایس کلاسز شروع ہوئیں ، ایوننگ پروگرامز بھی شروع کئے گئے لیکن انہی کے قریب موجود گرلز کالجز کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا ۔ یعنی گرلز کالجز اپ گریڈیشن ، نئی کلاسز کے اجراء ، نئے پروگرامز شروع کرنے سے محروم رکھے گئے اور ان طالبات کو بوائز کالجز میں داخلے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گرلز کالجز کو بھی اپ گریڈ کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اسی طرح نئے بوائز کالجز کے قیام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

لیکچررز کی بھرتی میں خواتین کی تعداد میں اضافہ دراصل اسی پالیسی کا حصہ ہے ۔ محکمہ ہائیر ایجوکیشن کی ویب سائٹ کے مطابق لاہور ڈویژن میں گرلز کے کالجزاور مخلوط کالجز جہاں وہ داخلہ لینے کی اہل ہیں ان کی تعداد 72 ہے جبکہ لڑکوں کے لئے 38 کالجز موجود ہیں ۔یعنی اداروں کی تعداد میں ہی واضح فرق موجود ہے ۔

اسی لحاظ سے لاہور ڈویژن کے کالجز میں زیر تعلیم گرلز کی تعداد 26000 زیادہ ہے ۔ یعنی 87 ہزار کے مقابلے میں 61 ہزار ۔ لاہور کے صرف ایک بوائز پوسٹ گریجوٹ کالج میں بی ایس کلاسز کی سیٹوں پر 1100 طالبات موجود ہیں جبکہ ٹیچنگ کی 35 آسامیاں خواتین کے پاس ہیں ۔ ایسا صرف لاہور میں ہی نہیں بلکہ راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں بھی خواتین کے لئے دستیاب کالجز کی تعداد 35 زیادہ ہے ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بھر میں بوائز کالجز مخلوط ہو جانے کے باعث وہاں کی سینکڑوں سیٹوں پر خواتین پروفیسرز تعینات ہیں اس سے چھوٹے شہروں میں تعینات مرد پروفیسرز جو کہ ٹرانسفر کے خواہش مند ہیں ان کے لئے سیٹیں موجود نہیں ۔ اس ” پالیسی” کے تحت ہی اب بھرتیوں میں بوائز کالجز کی سیٹیں تو بھری ہوئی ہیں اس لئے نئی بھرتی کی ضرورت نہیں ۔ یعنی عجیب و غریب پلاننگ یہ ہے کہ ٹرانسفرز تو مخلوط کالجز میں ہو سکتی ہے لیکن بھرتی کے موقعے پر الگ الگ سیٹیں اناؤنس کی جاتی ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مخلو ط کالجز میں خواتین کو” With Seat یا Create New Seat ” کے تحت تعینات کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے ۔ مانا کہ وہاں لڑکیوں کے داخلے کے باعث ان کی تعیناتی کا جواز موجود ہے لیکن اس سے کئی پروفیشنل پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں ۔ خواتین کو ضرور ملازمتیں دیں ، ان کی تعداد بڑھائیں لیکن مردوں کے لئے دستیاب مواقع تو نہ کم کریں ۔ جب آبادی میں توازن برابر ہے تو کم سے کم برابر کے مواقع تو دئیے جائیں ۔ اگر سیٹیں ہی80 فیصد اور 20 کے تناسب سے مشتہر کی جائیں گی تو ملازمتوں میں بھی تو عدم توازن ہی پیدا ہوگا ۔

محکمانہ طور پر بیک وقت کئی طریقہ کار چلائے جا رہے ہیں ، کسی ایک موقعے پر مردو خواتین کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے ، کہیں اکھٹا ، مثلا بھرتی میں الگ الگ سیٹیں ، تعیناتی و ٹرانسفر میں برابر کا موقع ، ترقی میں پھر الگ الگ ، سرکاری و دیگر کئی مواقع پر کہیں الگ اور کہیں مخلوط ، اسے کہتے ہیں ” کھچڑی پالیسی ” ۔ بوائز کالجز میں تعینات خواتین پروفیسرز کئی مواقع پر یکسر محروم رہتی ہیں ، کیونکہ کسی سرکاری سطح پر نمائندگی ، سہولیات وغیرہ کے لئے کالجز سے الگ الگ ڈیٹا مانگا جاتا ہے ، بوائز کالجز سے مرد پروفیسرز کی نمائندگی اور گرلز کالجز سے خواتین کی نمائندگی ، اس طرح یہ معزز خواتین پروفیسرز کئی مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں ۔

اب دوسری جانب نئے کالجز کے قیام اور داخلوں کے حوالے سے طلبا و طالبا ت کو میسر مواقع دیکھیں تو مزید کئی الجھنیں ، اور پہلیلیاں موجود ہیں ۔ نارووال ، چکوال اور شائد کئی اور شہر ایسے بھی موجود ہیں جہاں بوائز کے لئے کوئی ایک بھی کالج موجود نہیں ۔ شیخوپورہ ، قصور سمیت کئی بوائز کالجز کو یونیورسٹی بنانے کا پراسیس بھی جاری ہے جس کے بعد ان شہروں میں بھی بوائز کے لئے کالج کی سہولت ختم ہو جائے گی ۔

مخلوط کالجز میں ہزار احتیاط اور ڈسپلن کے باوجود بہت سے سماجی ، معاشرتی ، نفسیاتی بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ، ہم صرف اور صرف پروفیشنل اور کمرشل بنیادوں پر اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ قومی پیداوار ، مستقبل کی پیشنگوئی اور ایک نسل کے مستقبل کے حوالے سے ۔

قومی پیداوار اور ترقی کے حوالے سے دیکھیں تو یہ کیسی پالیسی ہے کہ ایک گھر کی لڑکی کوتو پڑھا دیا جائے، ملازمت کے مواقع بھی ہوں جبکہ لڑکے کے لئے چانس ہی کئی گنا محدود کر دئیے جائیں ۔ ہم ایک عجیب و غریب پالیسی کے تحت جان بوجھ کر متوسط اور لوئر مڈل کلاس کے لڑکوں کو پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں جہاں تعلیم کا حصول ہر ایک کے بس میں ہی نہیں ہوتا ۔

جب اداروں کی تعداد میں ہی تین گنا کا فرق ہو گا تو داخلے کے چانس خود ہی یکسر ختم ہوتے جائیں گے ۔ میرٹ کا معاملہ تو بہت بعد میں آئے گا ۔ اسی طرح ملازمت کے مواقع بھی عدم توازن کا شکار ہوں گے ۔ جس کی ایک جھلک تازہ ترین بھرتی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جو کہ معاشرتی سطح پر مسائل پیدا کر رہی ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں