جمال عبد اللہ عثمان
ہمایوں ایم تارڑ فیس بک پر میرے دوستوں کی اس فہرست میں ہیں، جن کا میں دل سے احترام کرتا ہوں۔ وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں، اس لحاظ سے یہ احترام، سوا ہوجاتا ہے ۔ کبھی ملاقات نہیں ہوئی، لیکن یوں لگتا ہے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ غوروفکر کرنے والی شخصیت ہیں۔ مختلف ایشوز کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ کئی مواقع پر ان سے اختلاف بھی رہا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی نیت پر شک ہوا ہو۔
ہمایوں بھائی نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا۔ اب مگر ان کی اُمیدیں پی ٹی آئی سے نہیں رہیں۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کی سپورٹ اور اب ان سے مایوسی، دونوں مواقع پر ان کا کوئی ذاتی مفاد نہ رہا ہوگا۔ مقصد صرف یہی کہ ملک وقوم ترقی کریں۔ ہم دنیا میں سر اُٹھاکر جینے کے قابل ہوں۔
آج صبح ان کی ایک پوسٹ پڑھی۔ پہلے سمجھا کہ شاید بطورِ مزاح ایسا لکھ رہے ہیں، لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ تارڑ صاحب پورے خلوص کے ساتھ یہی کہہ رہے ہیں، جو میں سمجھا ہوں۔ اپنی تحریر میں تارڑ صاحب نے ایک ایسے بندوبست کا ذکر فرمایا جس میں آرمی کا بھی رول ہو۔ ان کے الفاظ میں ” ضرورت ہے ایک عدد جارحانہ ایپروچ اپنالینے کی۔ اور یہ جارحانہ ایپروچ پاکستان آرمی کی مدد سے ہی ممکن ہے!“ ان کا خیال ہے کہ ”آپ عقب میں ایک جرنیل یا بریگیڈیئر سطح کا آفیسر بطور ”سخت گیر قوتِ نافذہ“ (دادا) بٹھادیں۔ جبکہ سامنے سِولین ٹیم کے پندرہ سے بیس افراد آپریٹ کرتے نظر آئیں۔ ”دادا“ کے پاس ایک سو ”کمانڈوز“ کی طاقتور، برق رفتار پلٹون ہو جو خوب متحرّک رہ کر قانون کی عملداری کو ممکن بنائے۔“
میں نے تارڑ صاحب کی اس پوسٹ پر ایک مختصر کمنٹ کیا، لیکن تشنگی رہی۔ سو تارڑ صاحب کی اجازت سے اپنی وال پر چند مختصر گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ
74سالوں میں ہم اب تک یہ طے کیوں نہ کرسکے کہ ہمارا نظام کیا ہو؟ کبھی صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے۔ کبھی مارشل لا کو تمام مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے۔ کبھی مایوس ہوکر ہم تمام مشکلات سے نکلنے کا آخری حل ”خلافت“ میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ فوج اور سویلین حکمرانوں کا ایک ملغوبہ تیار کرکے ان مشکلات سے نکلا جاسکتا ہے۔ یعنی ”ہائبرڈ نظام“! پیچھے فوج، آگے سویلین حکمران۔ گزشتہ تین سال سے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
ہمارے ہاں مسئلہ کبھی بھی نظام کا نہیں رہا۔ ہمارے ہاں اصل مسئلہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا بہترین آئین موجود ہے۔ دنیا کے کامیاب ممالک میں جو نظام چل رہے ہیں، انہی سے ملتا جلتا۔ بلکہ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ملک میں شاید ہی کوئی ایسی دستاویز ہو جس پر اس قدر دل وجان سے سب کا اتفاق ہو۔ 73ء کا آئین۔ جس سے کسی مکتب فکر کو سنگین اختلاف نہیں۔ لبرل ہو یا مذہبی۔ پیپلز پارٹی ہو یا جماعت اسلامی، ن لیگ ہو یا پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی ہو یا پھر جمعیت علمائے اسلام۔ ایم کیو ایم ہو یا پھر اب تحریک لبیک۔ یہاں تک کہ فوج بھی اسی آئین کے تحت حلف اُٹھاتی ہے اور اس سے روگردانی کو غداری تصور کرتی ہے۔
سو میری نظر میں مسئلہ نظام کا ہے ہی نہیں۔ میں مزید واضح کردوں۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا کہ کون تھا، لیکن اتنا یاد ہے کہ عالم اسلام کی کوئی بڑی شخصیت تھی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ہم مسلمان ہیں، تو ہم خلافت کے علاوہ دیگر نظاموں کو کیسے اپناسکتے ہیں؟ جواب میں اس شخصیت نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ نظام کیا ہو؟
اصل بات یہ ہے کہ کس نظام سے انسانوں کو کتنا ریلیف مل رہا ہے؟ کسی زمانے میں خلافت دنیا کا بہترین نظام رہا، لیکن ایسی خلافتیں بھی آئیں جن میں انسانوں کو ریلیف کے بجائے مشکلات کا سامنا رہا۔ کسی زمانے میں بادشاہتیں انسانوں کی بہتری کے لیے ”دوا“ ہوتی ہوں گی، لیکن پھر بادشاہتیں ظلم کا استعارہ بن گئیں۔ ممکن ہے کہ کسی دور میں ”ڈنڈے“ کی حکومتیں بھی کامیاب چلتی رہی ہوں، لیکن آج کے دور میں ”ڈنڈے“ کی کوئی حکومت ایسی نہیں جسے بطورِ فخر پیش کیا جاسکے۔
یعنی کئی نظام ایسے ہیں جو بذات خود برے نہیں، لیکن کس زمانے میں کونسا نظام انسانوں کے لیے بہتر ہے، اصل سوال یہ ہے۔ آج کے دور میں دنیا کے کامیاب ممالک کی فہرست نکالیے۔ جہاں ادارے مضبوط ہیں۔ جہاں انسانوں کی اکثریت بہتر زندگی گزار رہی ہے۔ جہاں قانون کی بالادستی ہے۔ جہاں انصاف ملتا ہے، ”بِکتا“ نہیں۔ جہاں صحت، تعلیم جیسی بنیادی ضروریات مل رہی ہیں۔ جہاں کرپشن، بے روزگاری جیسی عفریت کا سامنا کم ہے۔ سب سے بڑھ کر جہاں انسانوں کی اکثریت کو جینے کی آزادی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں ”ڈنڈے“ کی حکمرانی ہو، یا فوج بطورِ قوتِ نافذہ موجود ہو۔ یا پھر جہاں ”ہائبرڈ نظام“ ہو۔ میرا خیال ہے کہ 192ممالک میں 1.92مثالیں بھی مشکل سے پیش کی جاسکتی ہوں گی۔
تارڑ صاحب کے بقول سخت گیر قوتِ نافذہ ہونی چاہیے۔ میں اسلامی تاریخ سے بھی ایک حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت سوں کی نظر میں ایک سخت گیر حکمران تھے، مگر آپ سے متعلق بے شمار واقعات ہیں کہ کس طرح حکمت کے ذریعے مختلف مسائل کو حل کیا۔ آپ ہی کے دورِ حکومت میں ایک صوبے سے متعلق بتایا گیا کہ وہاں چوری چکاری کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں۔ آپ نے وہاں کے گورنر سے حالات پوچھے۔ سزائیں سخت تھیں، اس کے باوجود ان واقعات میں کمی نہیں آرہی تھی۔ حضرت عمر نے گورنر کو ہدایت کرکے سزائیں نرم کروادیں۔ نوجوانوں کو مختلف ملازمتیں دلوانے اور جنگی محاذوں پر بھیجنے کا حکم دیا۔ چند ماہ بعد رپورٹ طلب کی تو خاطر خواہ فرق پڑا تھا۔ تب آپ نے فرمایا کہ پرانی سزائیں بحال کی جاسکتی ہیں۔
”قوتِ نافذہ“ کے ذریعے اگر آپ ملک ٹھیک کریں گے تو انجام وہی ہوگا جو 2001ء میں ہمارے پڑوس میں ایک حکومت کا ہوا۔ عوام کی اکثریت نے ان کے جانے پر آنسو نہیں بہائے۔
میں یہ بھی عرض کروں کہ ہر کسی کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ سیاست دان، بیوروکریٹ ، فوجی ، جج۔ فوجی کی تربیت کیا ہوتی ہے؟ اسے آرڈر سے سروکار ہوتا ہے۔ آرڈر دینا یا آرڈر ماننا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس تیسرا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے؛ مگر جیل یا پھر ملازمت سے برخاست ہونا۔
فوجی افسران کی سوچ اس لحاظ سے محدود ہوتی ہے۔ میں یہ بطورِ تحقیر نہیں کہہ رہا۔ ان کی تربیت ہی یہی ہوتی ہے۔ ان کی سوچ ”سیکیورٹی“ سے آگے نہیں جاتی۔ بلوچستان کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ پرویز مشرف نے اسی ”غیرسیاسی“ سوچ کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہاں سے ماریں گے جہاں سے پتا بھی نہیں چلے گا، تو انجام کیا ہوا؟ اب تک ہم اسے بھگت رہے ہیں۔
میں نے دو سال قبل معروف صحافی سہیل وڑائچ کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔ ان سے پوچھا کہ پاکستان کے مسائل کی ذمہ دار فوجی حکومتیں ہیں یا پھر سیاسی حکومتیں؟ انہوں نے اس کا بڑا دلچسپ جواب دیا۔ کہنے لگے کہ فوج معاملات کو ہمیشہ سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ لیکن ملک کا ہر مسئلہ کبھی بھی ”سیکیورٹی“ نہیں ہوا کرتا۔
تو اگر آپ کسی سخت گیر فوجی کو بٹھائیں گے تو وہ ہر مسئلے کا واحد حل ڈنڈا ہی سمجھے گا۔ اور ہمارے تارڑ صاحب سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ بطورِ استاذ بے شمار اسٹڈیز نے ثابت کیا ہے کہ ڈنڈا کبھی بھی تمام مسائل کا حل نہیں ہوا کرتا۔ ڈنڈے کو بلکہ مسائل کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں کسی ایک کے اندر بھی ڈنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
پھر حل کیا ہے؟
میری نظر میں پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ اور وہ اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر پوری قوت اور توانائی کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا۔ یہ ذمہ داریاں آئین پاکستان نے بہت واضح طور پر بتادی ہیں۔ عدالت کا کام ہو انصاف دینا، انتظامیہ کا کام ہو عمل درآمد کرنا، فوج کا کام ہو سرحدوں کی حفاظت کرنا، سیاست دانوں کا کام ہو فیصلے کرنا۔ میں یہ بھی عرض کروں کہ ہمارے ہاں سیاست دانوں سے متعلق ایسی فضا بنائی گئی ہے گویا یہ دنیا کی بدترین مخلوق ہیں۔ ان سا کوئی بے وقوف نہیں۔ ملک ان کے حوالے کیا گیا تو یہ بیچ کھا جائیں گے۔
لیکن ایسا نہیں، ہرگز نہیں۔ سیاست دان کی ایک سب سے بڑی کمزوری ”عوام“ ہوتی ہے۔ ہر پانچ سال بعد انہی کے سامنے اسے جھولی پھیلانا ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی قدم اُٹھاتے ہوئے اسے دس بار سوچنا پڑتا ہے۔ اپنے لیے نہ سہی، ان عوام کے لیے جن سے اسے ووٹ لینا ہوتا ہے۔
آخری گزارش، ہم نے یہاں بہت سے تجربات کرلیے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایک آخری تجربہ آئینِ پاکستان پر عملدرآمد کرکے بھی دیکھا جائے۔ زبانی کلامی نہیں، اس کی روح کے ساتھ۔ سیاست دان غلطیاں کریں گے، چند سال لگیں گے۔ چند دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ یہ تجربہ نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ ہم چند عشروں میں دنیا کے اندر سر اُٹھاکر جینے کے قابل بھی ہوسکیں گے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو دائروں کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا۔