شاذیہ عبد القادر
“بوڑھی نحیف و نزار ماں کچے صحن میں بیٹھی سلائی مشین کا شور کرتا پہیہ گھما گھماکرکپڑے سلائی کررہی ہوتی ہے . اچانک لکڑی کا پرانا سا دروازہ زور سے چوپٹ کھلتا ہے . ایک نوجوان ملگجا سا یونیفارم پہنے ، ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑے ، اچھلتا دوڑتا آتا ہے
!!ماں! میں پاس ہوگیا ماں میں پاس ہوگیا
ماں کو اٹھا کر گھماتا ہے اس کے ہاتھ چومتا ہے
ماں روتی ہوئی اپنے بیٹے کو دیوانہ وار چومتی ہے
آج میری محنتوں کا صلہ مل گیا , غموں مصیبتوں کا دور ختم ہوگیا ، میری محنت رنگ لے آئی . میرے خدا نے میری سن لی ۔۔۔۔ میرا بیٹا پاس ہوگیا ۔ پھٹے پرانے دوپٹے کے پلو سے گرہ کھول کر پیسے نکالتی ہے
جا جا کر مٹھائی لے کر آ ، میں محلے بھر میں بانٹوں گی میرا بیٹا پاس ہوگیا ہے”
ایک اور سین یاد آگیا
بیٹا بھاگتا ہوا آتا ہے ، ایزی چئیر پر سگار پیتے بوڑھے باپ کو ایک کاغذ دکھاتاہے :
ڈیڈی ! میں پاس ہوگیا ” اور باپ فرط جذبات سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے. آنکھوں میں آنسو لئے کہتا ہے :
اس دن کا میں نے کتنا انتظار کیا تھا میرا” بیٹا بڑا ہو کر میرا دست و بازو بنے گا ، اپنے نوکر کو پکارتا ہے”رحمت پارٹی کا انتظام کرو میرا” بیٹا پاس ہوگیا ہے” اور زور سے بیٹے کو گلے لگا لیتا ہے۔۔۔
لیکن یہ کیا !!! آپ کو اس سین میں کچھ کمی سی نہیں محسوس ہوئی ؟!!!!
ماں یا باپ نے تو یہ پوچھا ہی نہیں کہ کتنے نمبر آئے ہیں؟ ۔۔۔۔ کون سا گریڈ / ڈویژن ہے ۔۔؟سب سے زیادہ مارکس کتنے ہیں ۔۔۔۔۔
” آئے ہائے سارے بچوں کی اے پلس آرہے ہیں تم نے بی گریڈ لے کر خاندان میں میری ناک کٹوادی۔۔۔”
باپ نے غصے کی تیز نگاہ ڈال کر کہا : ” تم نے میرا پیسہ ڈبو دیا ، ساری امیدیں خاک میں ملادیں . یہ نمبر کوئی نمبر ہیں ، اے پلس سے کم نمبر گدھوں کے آتے ہیں۔۔۔۔”
قارئین ۔۔۔۔۔یہ حقیقی خوشیاں ہم سے کس نے چھین لی ہیں ! اولاد جو قدرت کا سب سے انمول تحفہ ہے ، ہم نے کب اسے نفع نقصان میں تولنا شروع کیا۔۔۔۔
کب سے ہم نے اللہ کی اس نعمت کو نمبروں کی عینک سے دیکھنا شروع کیا۔۔۔۔۔
تعلیم ایک کاروبار بن گئی ہے ۔۔۔۔ والدین ، ادارے ، اساتذہ سب اس اَن دیکھے چکر میں گھوم رہے ہیں جہاں صرف نمبر ، نمبر ، نمبر کا شور ہے ۔۔۔۔
اسکول کالج کے بعد ٹیوشن سنٹر کا رواج ہونا کب شروع ہوا ، یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ پہلی جماعت میں داخلے کا ٹیسٹ ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔ پلے گروپ ، نرسری ، پریپ ، ون کا کوئی نام و نشان نہ تھا ۔۔۔۔ پہلی جماعت میں داخلے کے لئے ٹیسٹ کی تیاری گھر میں ہی ہو جایا کرتی تھی ۔۔۔۔
ٹیوشن صرف اس مضمون کی ہوتی جس میں بچہ کمزور ہوتا اور اکثر کوئی بڑے بہن بھائی ، کزن ، ہمسائے ، دوست احباب ہی یہ ضرورت پوری کر تے تھے ۔۔۔ اسکول کالج میں سہیلیاں دوست ایک دوسرے کی مدد کرتیں ، اساتذہ فارغ وقت میں رہنمائی کرتے ۔۔۔
پڑھی لکھی مائیں خود اولاد کو بٹھا کر پڑھایا کرتیں ، والد آکر بچے کا ٹیسٹ لیا کرتے ۔۔۔۔ دوستوں کی چھان بین ہوتی ، سب دوستوں کی تفصیل والدین کو معلوم ہوتی تھی ۔
جس کی فرسٹ ڈویژن آتی وہ گردن اکڑا کر بتاتا اور فرسٹ ڈویژن 60% فیصد نمبروں کی ہوتی تھی ۔
بی گریڈ آنا بھی فخر کی بات ہوتی ہے ۔ کسی کی سپلی آجاتی تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا تھا ۔
فرمانبردار ، با ادب اولاد اور طالب علم کی قدر تھی ۔
رات کو دیر تک جاگنے یا آوارہ گردی کا رجحان نہیں تھا ۔ اکثریت اسکول کالج پیدل جاتی تھی یا دو پہیوں والی سائیکل پر دو تین محلے دار لڑکے اکھٹے چلے جاتے ۔ والد یا بھائی کے ساتھ اسی سائیکل پر پیچھے بیٹھ کر لڑکیاں بھی جایا کرتی اور کوئی عارمحسوس نہ کرتیں۔
کسی کی بائیک یا کار ہوتی تو ہمسائیوں کے سارے بچے اس پر لاد کر اسکول ڈراپ ہورہے ہوتے ۔
آہستہ آہستہ ٹیوشن کا رجحان بڑھا ، اکیڈیمیز کھلنے لگیں ، کوچنگ سنٹرز بننے لگے ، پرائیویٹ اسکولز کالج ، یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھی ۔ تعلیم محض تعلیم نہیں کاروبار بن گئی ۔ نمبرز کی دوڑ شروع ہوگئی ۔ مقابلہ کی فضا نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا اسکول ، کالج ، ٹیوشن اکیڈیمی گھن چکر بن کر رہ گئے ۔ ماں باپ پیسہ لگا کر اے پلس کی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں
سوشل میڈیا نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ۔ جس کے اے پلس نمبر آتے ہیں اس کا سارا خاندان ہر جگہ اسٹیٹس لگارہا ہوتا ہے . والدین، چچا ، ماموں ، تایا ، پھپھو ، کزنز ۔۔۔۔۔ ٹیچرز
دیکھتے دیکھتے یہ گویا اسٹیٹس اسمبل بن گیا
اب اے پلس سے کم نمبر والا سر جھکا لیتا ہے بی گریڈ والا تو کسی کو منہ نہیں دکھاتا.
والدین اساتذہ سب لعن طعن کرتے ہیں ، تاسف سے دیکھتے ہیں ، ہمدردی میں ایسے جملے بولتے ہں جو بچے کا مورال مزید ڈاؤن کرتے ہیں.
بچے کی تمام تر فرمانبرداری ، اچھا اخلاق و عادات ، غیرنصابی سرگرمیاں ، دینی تعلیم اور دیگر صلاحیتیں سب نمبرز کی دوڑ میں گم ہوگئیں یہاں تک کہ حالیہ ناظرہ و ترجمہ قرآن کا تعلیمی اداروں میں نفاذ والدین کو بہت کھٹکا کہ پڑھائی کا بوجھ پہلے ہی بہت زیادہ ہے ۔
نوجوانوں میں نشے کے استعمال کا بڑھتا رجحان ، امتحان میں کم نمبر یا گریڈ آنے یا سپلی آنے پر خودکشی ، گھر سے بھاگ جانے کے واقعات الگ اور مایوس ہوکر تعلیم چھوڑ کر آوارہ گردی کرنے کے رجحان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے
ایمان داری سے بتائیے ،33 یا 40 فیصد نمبر لینے والا بچہ جو پاس ہوگیا ہے کیا اس نے بالکل نہیں پڑھا ہوگا ؟؟ 50فیصد سے زائد نمبرز لینے والا بچہ نالائق کہلایا جاسکتا ہے؟ 70فیصد نمبر لینے والے بچے کو ڈیپریشن اور اداسی کیوں ہوتی ہے؟
یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آج سے بیس ، تیس سال قبل سادہ زمانے تھے پڑھتے بچوں کے لئے پڑھائی سے توجہ ہٹانے کو بہت زیادہ چیزیں دستیاب نہیں تھیں. آج بچوں کی توجہ بٹانے کے لئے 50چیزیں بہت آسانی سے ان کی دسترس میں ہیں
متوسط طبقہ خصوصاً معاشی حالات سے لڑرہا ہوتا ہے ، کبھی بجلی کی ، کبھی گیس کی ، کبھی پانی کی بندش ۔۔۔۔۔ کبھی یہ خرچہ ، کبھی وہ خرچہ ۔۔۔۔
دو عشرہ قبل کم سہولیات ، کم ہنگام زندگی ، کم تفریحات کے باوجود بچے ساٹھ ستر فیصد نمبر لےکر سر اٹھا کر جیتے تھے تو آج کے بچے ساٹھ ستر فیصد نمبر پر ڈپریشن کا شکار کیوں ہو رہے ہیں ، نفسیاتی مریض بن رہے ہیں ، صحت مند مثبت سرگرمیوں سے دور بھاگتے ہیں ، والدین کے پاس ان کے لئے وقت کیوں نہیں ہے؟ کیوں پڑھائی چھوڑ دینے کا اعلان کرتے ہیں ، کیوں گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا خودکشی تک کے انتہائی اقدام کا سوچنے لگتے ہیں ۔
کیا اس معاشرے نے سارے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی بنانا ہے ۔ خیر سے جو ڈاکٹر اور انجینئر بھی بنتے ہیں ان کی زندگی بھی زندگی نہیں رہ جاتی ۔ میڈیکل ، انجینئرنگ کی تعلیم میں طالب علم تو تختہ مشق بنتا ہی ہے پورا خاندان مشقت اٹھاتا ہے۔
پانچ چھ سالہ خطیر رقم اور خاندان کی اس مشقت کے بعد مزید کئی محنت اور بجٹ طلب مراحل سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
جب یہ طے ہے کہ سارے کے سارے بچے اے پلس نہیں لے سکتے ۔۔۔ نہ سب ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتے ہیں نہ معاشرے کو صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز کی ضرورت ہے ۔ نہ ہی اس ساری مشقت کے بعد ہاتھ میں آنے والا رزلٹ کارڈ بچے کی مکمل صلاحیتوں کا مظہر ہے
بہت سے بچے پوری محنت کے باوجود کسی ناگہانی کی وجہ سے امتحان ویسے نہیں دے پاتے جیسے دے سکتے تھے ۔ بہت سے بچوں کو بہترین پیپر دینے کے بعد بھی ویسے نتائج ملتے ہیں جن کی انہیں توقع ہوتی ہے ۔ پوری محنت کا صلہ بھی سبھی کو کہاں ملتا ہے ۔بعض اوقات کوئی حادثہ ہوجاتا ہے ۔
جو بچہ واقعی تعلیم میں نہیں چلتا ایسا بھی بارہا دیکھنے میں آیا کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف گیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
فی زمانہ نمبرز کی دوڑ اور سوشل میڈیا پر اے پلس نمبروں کی بھرمار ۔ اے پلس آنے والے کے ہر رشتہ دار ، دوست ، تعلیمی ادارے کا اسٹیٹس ۔۔۔۔۔
محنت کے باوجود متوقع کامیابی حاصل نہ کرنے والے طالب علموں اور ان کے والدین پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اس پر کسی نے کبھی سوچا؟؟
ہم اپنے معاشرے کو امید اور حوصلہ کی بجائے بےجا خوشامد ،تعریف اور نمود نمائش کی اندھی دوڑ کی طرف لےجا رہے ہیں جس میں بہت سے جدوجہد کرتے ، ناکامی کے بعد اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے لوگ پاؤں تلے روند دئیے جاتے ہیں۔
تو اس کا حل کیا ہو؟؟؟
سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے
والدین کا تعلق صرف اسکول کالج اکیڈیمی کی فیسیں بھرنے کے بعد صرف رزلٹ والے دن بچے کی مارک شیٹ سے نہیں۔۔۔۔بلکہ سارا سال روزانہ اس کو وقت دینا بھی اہم ہے
اپنی سوشل مصروفیات ، سکرین ٹائم کو کم کرکے گھر اور بچوں کو وقت دیں
والدین اپنے بچے کو اعتماد دیں ۔ اس کا ساتھ دیں ۔ اسے آگے بڑھنے میں مدد کریں پھر بچہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے یا کامیاب نہ ہوسکے تو کیا ہوا ۔ اللہ صحت ، زندگی دے دوبارہ پیپر دے سکتا ہے ، فیلڈ چینج کرسکتا ہے ، کوئی اور ہنر آزما سکتا ہے ۔۔۔۔ آپ اس کے ساتھ کھڑے تو ہوں۔
دوسروں کے سامنے کبھی بھی اپنے بچے کی سبکی نہ کریں اکیلے میں بھی ڈانٹ ڈپٹ بچہ کو منتشر کرے گی ڈسکشن مفید ہوگی۔
بچوں کو پڑھائی کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں کا شوق دلائیں ، رات دیر تک نہ خود جاگیں نہ انہیں جاگنے دیں۔
بچوں کو خود اپنی مصروفیات اور تفریحات میں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا بنیادی ذمہ داری جو والدین نے ان کے سپرد کی ہے اسے فوکس کریں اور تھوڑا منہ کا ذائقہ بدلنے کو مثبت سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں ۔ موبائل انٹرنیٹ کی بجائے فزیکل ایکٹیوٹی اور مطالعہ رسائل و کتب اور نہیں تو صبح کی سیر ، بائسیکل چلانا بھی اچھا آپشن ہے ، نیند پوری کرنا ، صبح جلدی اٹھنا شام گھر میں گزارنا ، نمازوں اور مطالعہ قرآن کی باقاعدگی بہت مفید رہے گا
ہر ماہ کا سلیبس اسی ماہ مکمل کور کرنا
صرف کتاب نہ پکڑنا بلکہ جو سوال جو سبق ذہن نشین یا یاد ہوگیا ہو اسے تحریر کریں اپنی غلطیاں خود نکالیں۔
اساتذہ کو طالب علموں سے اخلاص بھرا رویہ رکھنا ہوگا جس بچے کو توجہ کی ضرورت ہے اسے توجہ دینا ہوگی۔
تعلیمی اداروں کو تعلیمی ماحول پر زیادہ توجہ دینا ہوگی ، تعلیم کے ساتھ تربیت اب مزید آسان ہوگئی ہے کہ ناظرہ و ترجمہ قرآن بھی نصاب کا حصہ ہے
نسل نو کو ہر حال میں محنتی ، باہمت ، دیانت دار اور پرامید بنانا ہے اس کے لئے جانچنے کا دائرہ صرف رزلٹ کارڈ نہیں ہے ۔ بچوں کی نفسیات اور صلاحیتوں کے مطابق منصوبہ بنانا ہوگا تاکہ ایک بہترین مستقبل تراشا جاسکے۔