خلیل احمد حامدی

امت کا سرمایہ،مولانا خلیل احمد حامدی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عصمت اسامہ

ہم دوش ثریا ہے مقام اخلاص
جو ملتا ہے ، ملتا ہے غلام اخلاص

حاجت نہیں اخلاص کی کچھ بعد فنا
قائم کرو ہستی میں ،نظام اخلاص

علماء کرام نے اخلاص کے بارے میں لکھا ہے:
” اپنی زندگی کی ساری جہتوں کو ہر طرف سے ہٹا کر صرف اللہ کی رضا میں خود کو گم کردینا ،اخلاص کہلاتا ہے "

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
"دین نام ہے خلوص کا ۔ تین مرتبہ آپ نے فرمایا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : کس کے لئے ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن حکیم کے لئے ، اللہ کے رسول کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے ” ( مشکو’ۃ شریف )

ایسی ہی سراپا اخلاص شخصیت مولانا خلیل احمد حامدی رحمتہ اللہ علیہ کی تھی ، جو دور حاضر میں ہم سب کے لئے مشعلِ راہ ہیں ۔ آپ نے ساری زندگی تبلیغ دین اسلام ، امت مسلمہ کے مسائل کے حل اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں گزاری ۔ یوں کہنا چاہیے کہ آپ کے بے لوث جذبہ کو اللہ نے اپنی بارگاہ میں قبول کر کے آپ کو کچھ خاص کاموں کے لئے چن لیا تھا ۔ بقول صاحب زادہ خورشید گیلانی "بے وفائی کے اس عہد میں ، وفا کی خوب صورت تصویر تھے ، جماعتِ اسلامی سے رفاقت کا جو عہد باندھا ، اس پر آخری دم تک قائم رہے "-

مولانا خلیل احمد 23 جون 1929ء کو ضلع فیروزپور کے قصبہ”حامد” میں پیدا ہوئے ، اسی نسبت سے "حامدی” کہلائے ۔ وہ اپنے والد مولانا فتح محمد کی طرح حافظ قرآن تھے ( جو مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگردوں میں سے تھے ) . حمید نظامی روڈ کے مدرسہ عربیہ حنفیہ سے درس نظامی کیا، کرنال شہر سے نحو میں شرحِ جامی اور فقہ،ادب اور منطق کی کتب سے فیض یاب ہوئے ۔ اوریینٹل کالج سے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا ۔ زمانہ طالب علمی میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے ۔1944ء میں مولوی محمد علی مرحوم کے ساتھ پٹھان کوٹ میں سید ابوالاعلی ‘مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے پہلی ملاقات ہوئی جس کے بعد آپ اپنے مدرسہ میں ” جماعتِ اسلامی والا” کے نام سے مشہور ہوئے- قیام پاکستان کے بعد آپ اپنی والدہ اور اعزاء کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے۔ 1949ء میں رکن جماعت بنے اور سید مودودی صاحب کے رفقاء خاص میں شمار ہونے لگے ۔ آپ سید مودودی کے مضامین اور تقاریر کا عربی اردو ترجمہ کیا کرتے تھے ۔ دسمبر 1960ء میں آپ نے سید ابوالاعلی’ مودودی کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ مولانا مودودی بیرونِ ملک جائیں اور خلیل احمد حامدی ہمراہ نہ ہوں!

نہ غرض کسی سے نہ واسطہ ، مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے ، تیری فکر سے ، تیری یاد سے ، تیرے نام سے !

مولانا خلیل احمد حامدی رحمتہ اللہ علیہ ،1963ء میں دارالعروبہ کے ناظم بنے اور اپنی وفات تک اسی منصب پر فائز رہے ۔ اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور بعد میں اس کے چیرمین بنے ۔ بیرون ملک آپ نے جاب بھی کی ۔ اردن میں "رائل اکیڈمی برائے تحقیقات تہذیب اسلامی” کے مئر رہے ۔ آپ ایک ہمہ گیر ، متحرک شخصیت تھے ۔ وقت کی بہت قدر کرتے ، ایک ایک پل کام میں لگاتے ۔ آپ منصوبہ ساز بھی تھے ، نئے پراجیکٹ ، نئے اداروں کی پلاننگ کرتے ، ان کے لئے مادی وسائل کی خاطر عملی جدوجہد کرتے ، آپ انسانی وسائل بھی مہیا کرتے ۔ لوگوں سے دین کی خاطر تعلقات قائم کرتے اور انھیں اقامت دین کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار کرتے ۔ آپ کی ترغیب پر کینیا سے حافظ محمد ادریس صاحب جبکہ ڈاکٹر منصور علی صاحب انگلستان سے پاکستان آئے ۔ آپ نے کئی پاکستانیوں کو بیرون ملک تعلیم دلوانے کا انتظام کیا جن میں رکن مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان اور آپ کے دوست حکیم عبدالرحمن عزیز صاحب کے بیٹے عبدالغفار عزیزبھی شامل تھے !

مولانا خلیل احمد حامدی رحمتہ اللہ علیہ نے بیرون ملک کے کئی اسفار کیے اور امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لئے عملی کوششیں کیں ۔ آپ نے جن ممالک کے دورے کئے ان میں متحدہ عرب امارات ، ملائیشیا ، ماریشیس ، تنزانیہ ، سوڈان ، اریٹیریا ، سنگاپور ، بوسنیا ، البانیہ ، بلغاریہ، برطانیہ ، امریکہ ، شام ، مصر ، کویت ، عمان ، اردن ، ترکی ، سعودی عرب ، فلپائن ، مالدیپ شامل ہیں-

آپ کو 35 حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ بیرون ملک دوروں کے دوران آپ اپنے قائم کردہ اداروں کو چلانے ، طلبہ کے تعلیمی اخراجات ، جماعت کے دفاتر کا خرچہ ، ملازمین کی تنخواہوں کے لئے وسائل تلاش کرتے ۔ آپ نے متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ رابطہ عالم اسلامی کا کوئی اجلاس ایسا نہ تھا جس میں آپ نے مسئلہ کشمیر پر قرارداد نہ پیش کی ہو ۔

پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس ، جو مراکش کے شہر رباط میں ہوئی ، آپ اس میں شریک تھے ، عرب دنیا کے ابو بدر نے آپ کو "سفیرالاسلام” کا خطاب دیا ۔ جب سعودی عرب کی حکومت نے مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کی دینی خدمات کے لئے شاہ فیصل ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تو مولانا مودودی نے خلیل حامدی صاحب کو جماعتِ اسلامی پاکستان کا نمائندہ بنا کر بھیجا اور آپ نے وہاں عربی تقریر بھی کی اور یہ شان دار ایوارڈ بھی وصول کیا ۔ اسی ایوارڈ کی رقم سے آپ نے منصورہ کی زمین خریدی اور منصورہ کا نام بھی تاریخ کے ایک مشہور شہر کے نام پر رکھا۔ یہاں جنگل کی طرح درخت تھے جنھیں صاف کروا کے تعمیرات کروائیں ۔ منصورہ ہسپتال بھی تعمیر کروایا۔

آپ امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے ۔ آپ کی زندگی کا ایک بڑا کارنامہ عراق اور کویت کے مابین جنگ کو رکوانا ہے ۔ اس کے لئے آپ نے صدر صدام حسین سے خصوصی ملاقات کرکے انھیں جنگ روکنے پر آمادہ کیا تھا۔

مولانا خلیل حامدی تقریباً دس برس تک حج کے موسم میں سرزمین حجاز پر حاجیوں کو لیکچر دیتے رہے ، ان کے نزدیک ساری امت ایک ہی وحدت تھی ، اقامت دین کا جذبہ انھیں کہیں بیٹھنے نہیں دیتا تھا ۔ آپ معلم بھی تھے ، مدرس بھی اور مصنف بھی ۔ آپ نے کتابوں کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا ہے جو اس قابل ہیں کہ انھیں دوبارہ شائع کروایا جائے مثلاً آفاق دعوت ، تحریکی سفر کی داستان ، تحریک اسلامی کے عالمی اثرات ، بوسنیا ، ترکی قدیم و جدید ، سرخ اندھیروں میں ، عالم اسلام اور اس کے مسائل و افکار ، اخوان المسلمین تاریخ اور دعوت ، جہاد اسلامی وغیرہ ۔

آپ نے مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی متعدد کتب کے عربی تراجم بھی کئےاور کئی عالمی شہرت یافتہ عربی کتب کو اردو زبان میں منتقل کیا جن میں جادہ و منزل ، حسن البنا کی ڈائری ، اذکار مسنونہ ، عصر حاضر میں اسلام کی زبوں حالی ، اسرائیل کی تعمیر میں اشتراکی ممالک کا کردار ، روداد ابتلاء ( مصر ) ، روداد قفس ( زینب الغزالی ) جدید نظریات کی ناکامی اور اسلامی نظام کی ضرورت ، تحریک اور کارکن ( سید مودودی ) ، صدائے رستا خیز ، بانگ سحر ، آفتاب تازہ اور متعدد عربی تالیفات شامل ہیں۔

ایک عالم اور متعدد اداروں کے بانی ہونے کے باوجود آپ انتہائی سادہ اور درویش منش انسان تھے ۔ آپ کی ہر دل عزیزی کا اصل راز آپ کی ملنساری اور حسن اخلاق کی کشش میں تھا ۔ آپ انسانوں کی خوبیوں کے قدردان اور خامیوں سے صرفِ نظر کرنے والے تھے ۔ آپ افسروں کے تکبر اور جاہلوں کے غرور سے بالکل پاک تھے ۔ آپ کے قائم کردہ اداروں میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ وحدت روڈ ، ادارہ تحفیظ القرآن منصورہ ، منصورہ ماڈل ہائی سکول برائے طلبہ ، منصورہ ماڈل ہائی سکول طالبات اور جامع مسجد منصورہ سمیت ایک درجن مساجد شامل ہیں۔

ہر صاحبِ نعمت کو رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک بار مولانا خلیل حامدی صاحب کو ان کے ایک دوست نے کسی شخص کے حسد کے بارے آگاہ کیا ،ایک بار کسی نے کہا کہ فلاں آپ کے خلاف یوں افواہیں اڑاتا ہے ۔ حامدی صاحب نے بڑا یادگار جملہ کہا ” لوگ باتیں کرتے رہیں گے اور ہم اپنے کام کر جائیں گے !” وہ اپنے مخالفین کا معاملہ ،اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرتے تھے ۔

اس دور کے عرب حکمران امت سے محبت کرنے والے تھے اور اہل علم حضرات کے قدر دان تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک بار غلاف کعبہ پاکستان میں تیار کیا گیا اور تیار کروانے والی شخصیت مولانا خلیل احمد حامدی تھے ، جنھوں نے سعودی حکمرانوں سے خصوصی گزارش کر کے پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی کو مستحکم کیا اور سعودی حکمرانوں نے اس تحفہ کو خوشی سے قبول کیا ۔

2006ء میں مولانا خلیل احمد حامدی کے بیٹے اسامہ خلیل حامدی نے اپنے والد کی یاد میں منصورہ میں ایک کانفرنس منعقد کروائی تھی ،جس سے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی،قاضی حسین احمد نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
"مولانا خلیل احمد حامدی نے پوری دنیا میں جماعت اسلامی کو متعارف کروایا اور سید مودودی کی فکر کو پھیلایا، وہ دنیا کی اسلامی تحریکوں سے جماعت کے رابطے کا ذریعہ بنے ۔ مرحوم نے قلم ، زبان اور عمل سے اسلام کی سربلندی کے لئے جہاد کیا ، وہ اسلامی تحریکوں کے لئے بہت بڑا سرمایہ تھے ! "

مولانا خلیل احمد حامدی نے ساری زندگی ، اپنی صلاحیتوں اور وقت کو اقامت دین کی جدوجہد میں لگایا ، یہاں ان کی اہلیہ کے صبر واستقامت کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے شوہر کے بیرون ملک اسفار ، تنظیمی مصروفیات و دیگر کاموں کے لئے انھیں یکسوئی فراہم کی ۔ اکیلے پن کی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔ گھرداری اور بچوں کے سارے کام تنہا سنبھالے اور جب وہ دنیا سے چلے گئے تو اس وقت بھی یتیم بچوں کا سائبان بنی رہیں ۔ آج بھی امت کو ایسی ہی رفیقائے حیات کی ضرورت ہے۔

مولانا خلیل احمد حامدی 25 نومبر 1994ء کو ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ وفات کے وقت زبان پہ سورہ یاسین کی آیات تھیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں خاص مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنادے۔آمین۔

شراب _ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا !
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا !
مرا دل ، مری رزم گاہ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی ،متاع فقیر !
اسی سے فقیری میں ہوں ، میں امیر!
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹادے ،ٹھکانے لگا دے اسے !
#


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں