آصفہ عنبرین قاضی
یہ اصلی کرداروں کی فرضی کہانی ہے ۔ اس کہانی میں آج سے بیس ، تیس سال پہلے کے مناظر شامل ہوں گے جب نہ موبائل کا اس قدر غلبہ تھا اور نہ وقت کی قلت ۔۔۔ کہانی میں لینڈ لائن ، پانچ روپے کی پیپسی اور دو روپے کا سموسہ بھی ملے گا ۔
کچھ واقعات مشاہدات اور تجربات پر بھی مبنی ہوں گے۔ اس سیریز کا مقصد اس دور کی شرارتیں ، رشتوں کی مٹھاس ، نوک جھونک اور مزاح کے رنگ متعارف کرانا تو ہے ہی لیکن نئی نسل کو اس زمانے میں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے جو انہوں نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوائل سردیوں کی شام تھی. اچانک بجلی چلی گئی
” کوئی لالٹین یا ٹارچ ہی جلا دے ” کمرے میں لیٹی دادی کی آواز برآمدے کے ستونوں سے ٹکراتی نعمت خانے تک جا پہنچی تھی ۔
” آئی دادی ” وہ بھاگی ” اب روشنی تیرے آنے سے ہوگی کیا ” دادی نے اسے خالی ہاتھ آتے دیکھ کر کھڑکی سے ہی ہوائی فائر کیا ۔
” ہو تو گئی ہے ۔” اس نے ٹارچ آن کرکے سیدھا دادی کے چہرے پر ماری ” تیرا ستیاناس ، نیچے کر بتی ، پتلیاں سکڑ گئیں میری ” وہ بوکھلا تو گئیں لیکن ذاتی لغت سے لفظ نکال ہی لیے ۔ “میں آپ کو تلاش کر رہی تھی، آواز کے ساتھ تصویر بھی تو آئے ” اس نے دوبارہ ٹارچ کا رخ دادی کی طرف کیا۔ ” ادھر دے اور دفعان ہو یہاں سے، جلانی آتی ہے مجھے ” دادی نے ڈپٹا۔
“آپ کے زمانے میں تو روئی اور تیل کے دیے جلتے ہونگے ناا ، ٹارچ کہاں” وہ پاس بیٹھ گئی ۔ ” تمہارے دادا مسقط سے لائے تھے ایک بیٹری، اب اتنی بھی نوح کے زمانے کے نہیں ” وہ رضائی سے اسے پرے دھکیلتے ہوئے بولیں ۔
” میں نہیں مان سکتی، گاندھی کو آپ نے اپنی جوانی میں دیکھا ، تقسیم بنگال میں آپ نے حصہ لیا، تب ٹارچ کہاں تھی بھلا؟
“چل اٹھ ادھر سے، اور ٹارچ بھی لیتی جا ، مجھے نہیں چاہیے یہ روشنی ، گز بھر لمبی زبان کو لگام نہیں ۔ ” وہ چڑ گئی تھیں
” اچھا یہ تو بتائیں جنگ پلاسی میں آپ کتنے سال کی تھیں ، دادا بتا رہے تھے تیتو میر نے جن تھیلوں میں کارتوس بھر کے دہلی بھیجے تھے وہ آپ نے ہی سیے تھے ” وہ اٹھتے ہوئے بولی
وہ کارتوس اب بھی میرے پاس رکھے ہیں ، ناخلف !” وہ اندھیرے میں جوتا پلنگ کے دائیں طرف تلاش کر رہی تھیں حالانکہ اتارا بائیں طرف تھا ۔ ” یہ کارتوس تو آپ منہ سے چلاتی ہیں ، میں بندوق والے پوچھ رہی تھی ” اس نے جاتے جاتے دروازے میں کھڑے ہوکر کہا۔ کوئی سنسناتی ہوئی چیز عقب سے آئی تھی لیکن وہ ریڈار کی پہنچ سے نکل چکی تھی ۔
” اماں فاطمہ مستقل چھٹی پہ ہیں ، میں چاہتی ہوں کوئی اور کام والی رکھ لیں ” امی نے دادی کے سامنے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا ” اور وہ جو نکمی پڑھائی سے چھٹیاں کرکے بیٹھی ہے اس کو ساتھ لگائو نا، کچھ تو سیکھے” دادی کی آنکھوں کے سامنے اماں فاطمہ کی بجائے ایک اور نکمی گھوم گئی ۔ ” وہ کام سدھارنے کی بجائے بگاڑتی ہے ، پتا تو ہے نا آپ کو ” امی افسردہ ہوئیں۔
” اماں ! باہر ایک لڑکی آئی ہے آپ نے بلایا تھا؟ ” وہ چہرے پہ بیسن ملے وہاں آئی ” تجھے کتنی بار کہا ہے یہ کریانے کی دکان منہ پہ نہ ملا کر، کبھی چاول ، کبھی آٹا اور بیسن ” امی چڑ سی گئیں ۔ ” سرخ مرچیں رہ گئی ہیں وہ بھی مل لے ” دادی نے عینک نیچے کرکے گھورا۔ ” لیکن آپ تو نہیں مٙلتیں ، پھر بھی آپ کو لگتی ہیں “
“کیا؟”
“مرچیں ” وہ شرارت سے کہہ کر پھر نکل گئی
“بدزبان ۔۔” وہ چائے کے پیالے کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
“میں اس عورت سے مل لوں ، گھر کے کام کے لیے بلوایا تھا گائوں سے ” امی اٹھ کر برآمدے میں آ گئیں ۔ سامنے صحن میں الگ ہی منظر تھا ، گہرے آتشی گلابی سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی کڑاک کڑاک کرتی دیسی مرغی کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔ بال اڑے ہوئے ، آنکھوں میں پھیلا ہوا سرمہ اور شلوار کے پانئنچے جوتوں کے نیچے ۔۔۔۔ اچانک اس نے مرغی کو دبوچ لیا ، چکرائی اور زمین پر بیٹھ گئی ۔
“کیا نام ہے تمہارا ؟ “
امی اس کے حلیے اور حرکتوں کو دیکھتے ہوئے حیرانی سے بولیں ۔
” وہ جی، میں شبو ، شبانہ کلثوم ” اس نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔
“اچھاااا ۔۔۔۔ شبو ہو تم ، اماں فاطمہ کی بھانجی تو نہیں ؟ “
” ہاں جی ، مجھے اماں فاطمہ نے بھیجا ہے ” اس نے ہنوز مرغی دبوچ رکھی تھی ۔
” اماں فاطمہ نہیں آئے گی اب؟ “
” نہیں جی ، اب میں آیا کروں گی ۔ ” اس نے نفی میں سرہلایا ۔
” اور یہ مرغی ؟ “
” آنڈے دیتی ہے “
” یہ تو مجھے بھی پتا ہے ، یہاں کیوں لائی ہو؟ ” اماں کو جانوروں اور پرندوں سے خاص لگائو نہ تھا ۔
” آنڈے اٹھارہ روپے درجن ہوچکے ہیں جی، یہ مینو موچی کے کوٹھے میں دے آتی ہے ، وہ روز انڈے آلو بناتے ہیں ہمارے گھر زکام والے بندے کو بھی نہیں ملتا۔” وہ زمین سے اٹھتے ہوئے بولی ۔
” تو کیا یہ روز تم لے کے آئو گی ” اماں گھبرا سی گئیں ۔
” نہیں جی ، آج ادھر اس کا انڈا دلوانا ہے ، کل ٹوکرے میں ڈال کے آئوں گی ” وہ اس کی گردن سہلاتے ہوئے بولی ۔
” کام آتا ہے ؟
” سیکھنے کے لیے ہی تو آئی ہوں ، بےبے نے کہا میر صاحب کے گھر چلی جا ، میرا تو دل نہیں کرتا کام کرنے کو ” وہ بیزار سی ہوکر بولی ۔
” اچھا چھوڑو اسے ، اور کمروں کی صفائی کر لو پہلے ” اماں اسے اب پاس بٹھا کر ہدایات دینے لگیں۔
” اماں وڈی ، آپ دائی زینب کی سہیلی تھیں نا ” اس کا تیسرا روز تھا، دادی کے کمرے میں جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے بولی
” ہاں بھئی ، میرے ساتھ ہی پلی بڑھی ” دادی نے دوائیوں کا ڈبہ کھولتے ہوئے کہا ۔
” وہ تو کب کی فوت ہو گئی ، میں تو سمجھی تھی آپ بھی ہوگئی ہوں گی جی ۔ ” وہ بےنیازی سے سنگھار میز کو جھاڑتے ہوئے بولی ۔
” کیوں ، ہمارے فوت ہونے کی تاریخ کیوں ایک ہو نے لگی ۔” دادی دہل سی گئی ۔
” اماں وڈی جب ہتھ سلامت ہوں نہ دند ، فیر جینے کا فیدا ؟ ” وہ ڈرامائی انداز میں گہری سانس لے کر بولی ۔
” اللہ معاف کرے ، میرا سب کچھ سلامت ہے ، تجھے کس نے کہا میں معذور ہوں ۔ ” دادی کو شدید دھچکا لگا ۔
” وہ جی نوشی بی بی کہہ رہی تھیں کہ ہماری فریج ، دادی اور الیکٹرا کا ٹی وی تینوں نہیں چلتے ۔” اس نے ہہو بہو وہی جملہ دہرا دیا جو نوشی کے کمرے سے سن کے آئی ہے ۔
” اس کی زبان جو چلتی ہے ، باقی سب کیسے نہ بند ہوں ، بلا کے لے آ اسے ذرا ۔ ” دادی آخری گولی نگلنے کا ارادہ موخر کرکے اس ناہنجار کو کچا کھا جانے کا ارادہ باندھ چکی تھیں ۔
” مجھے ڈانٹیں گی وہ ، پہلے ہی کہہ رہی تھیں میری دادی پہ انڈونیشیا کے جن آتے ہیں، ان کے قریب مت جانا ” وہ مسکین سی بن گئی ۔
” اور کیا کہہ رہی تھی مجھے بتا سب سچ سچ ” وہ جلال میں آچکی تھیں اور شبو ازل کی موقع پرست ۔۔۔
“کہہ رہی تھیں دادی تو میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں ، ازل کا بیر ہے مجھ سے ، اور جی آپ کو انگریزی میں بھی کچھ کہہ رہی تھیں ۔” شبو نے سرگوشی کے انداز میں قریب ہو کر بتایا ۔
“۔۔۔ اچھااااا۔۔۔ اور؟ “
” اور یہ کہ آپ کی نظر کمزور ہے دو روپے کے اور پچاس کے نوٹ میں فرق نہیں کرسکتیں ، وہ آپ کو دو کا نوٹ کہہ کر بٹوے سے پچاس کا لے جاتی ہے ۔ اور کالج میں پارٹی کرتی ہے۔ ” وہ مزید رازدارانہ انداز میں قریب ہوئی ۔
“ہممممم۔۔۔ مجھے پہلے ہی شک تھا۔۔۔ ” دادی کی آنکھ میں زیرو زیرو سیون والی چمک عود آئی ۔
” ایک کام کر شبانہ بیٹی ، ابھی ذرا اس کو میرے پاس بھیجیو ،، وہ پرسوچ انداز میں بولیں ۔
میں نے فضل کی ٹوپیاں بُننے کے لیے اون کے دو گولے منگوانے ہیں ، دیکھوں تو ذرا ، مجھے یہ بیس روپے کتنے میں پڑتے ہیں۔ ” وہ بھی زمانہ دیکھ چکی تھیں لیکن اسے بٹوے سے ہیرا پھیری کرتے نہ دیکھ پائیں لیکن اب بکرے کی ماں کے خیر منانے کے دن گئے ۔
” جی دادی ، آپ نے بلایا؟ ” وہ کینو ہاتھ میں پکڑے وہاں آئی ۔
” ہااں میری بچی ، ایک کام کر، ذرا وہ بٹوہ تو نکالنا سامنے صندوق سے ” دادی نے اچھی طرح عینک صاف کرکے ناک پہ ٹکائی ۔
” جی اچھا ” اس کی آنکھوں میں چمک در آئی اور دادی کی آنکھوں میں عقابی روح ۔۔۔۔
(جاری ہے )