ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

’شعر العجم‘ اور مغربی اثرات

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ

’شعر العجم‘ ادبی تنقید اور تنقیدی تاریخ کا وقیع نمونہ ہے۔ اس کتاب کے مشرقی عناصر کے ساتھ ساتھ مغربی پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’شعرالعجم ‘کے مطالعے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اس کا موضوع فارسی شاعری کا دفاع اور اس کا مخاطب انگریز دانوں کا طبقہ ہے۔

اسی وجہ سے شبلی نے اس امر پر خاص توجہ دی ہے کہ فارسی شاعری کی حمایت میں انیسویں صدی کے ان رائج الوقت فلسفیانہ افکار و تنقیدی تصورات سے استدلال کیا جائے جن کا یہ انگریزی داں طبقہ کلمہ پڑھتا ہے ۔ اگرشبلی مشرقی شاعری کادفاع مشرقی نظریات کے حوالے سے کرتے ، تو وہ طبقہ کہہ سکتا تھا کہ جب ہم تمہاری شاعری کو نہیں مانتے تو تمہاری شعریات کو کیوں مانیں گے، یہی وجہ ہے کہ شبلی نے جی کھول کر رائج الوقت انگریزی تصورات سے استفادہ کیا ہے۔ خورشید احمد رقمطراز ہیں:

”نقاد جب شبلی کے تنقیدی مسلک کی بات کرتے ہیں تو یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شبلی کے تصور تخیل میں کولرج کے تصورات کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ یہ حضرات دیگر انگریز مصنفوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے حالانکہ شبلی نے اپنے تنقیدی نظریے کی تشکیل میں دوسرے انگریزی مصنفوں سے بھی کافی مدد لی ہے۔

اس سلسلے میں کولرج کے علاوہ انہوں نے دو انگریزی نقادوں سے ان کے خیالات و الفاظ مستعار لیے ہیں ۔ ان میں سے ایک جان اسٹورٹ مِل ہے ، جس کا انہوں نے نام لیا ہے اور دوسرا ولیم ہیزلٹ ہے ، جس کا انہوں نے نام نہیں لیا ۔ صرف ” ایک یورپین مصنف “ کہہ کر رہ گئے ہیں “۔

انیسویں صدی کے ابتدامیں سائنسی اور تکنیکی ترقی کے پرستاروں نے شاعری پر دو حملے کیے ۔ ایک یہ کہ شاعری غیر سودمند ہے ، دوسرا ”شاعری غلط بیانی ہے“۔ شاعری کاسب سے بڑا دشمن جریمی بنتھم کو تصور کیا جاتا ہے ۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے مِل نے اپنامشہور مقالہ “What is Poetry” ۳۳۸۱ئ میں لکھا ۔ علامہ شبلی کے تنقیدی خیالات کی تشکیل میں مِل کے مضامین کا بڑا ہاتھ ہے ۔ اس مضمون میں مِل نے سائنسی صداقت میں امتیاز قائم کیا ہے:

ترجمہ:۔ ”شاعری کاتخاطب جذبات سے ہے اور سائنس کا یقین سے “
مِل نے شاعری کو قاری سے الگ کیا ہے اسی طرح خطابت اور شاعری میں فرق قائم کیا ہے:

“Poetry and eloquence are both alike the expressing or uttering forth of feeling. Eloquence supposes an audience the peculiarity of poetry appears to us to lie in the poet’s utter unconsciousness of a listener. Poetry is feeling, confessing itself to itself in moments of solitude…..”

شبلی اس کویوں سمجھاتے ہیں :
”خطابت میں شاعری کی طرح جذبات اور احساس کا برانگیختہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خطابت کا مقصود حاضرین سے خطاب کرنا ہوتا ہے ، بخلاف اس کے ، شاعر کو دوسروں سے غرض نہیں ہوتی ، وہ یہ نہیں جانتا کہ کوئی اس کے سامنے ہے بھی یا نہیں؟……. شاعری تنہا نشینی اور مطالعہ نفس کانتیجہ ہے …… شاعر اگر اپنے نفس کے بجائے دوسرے سے خطاب کرتا ہے ، دوسروں کے جذبات کو ابھارنا چاہتا ہے ….. تو شاعر نہیں خطیب ہے“۔

ہیزلٹ شاعر ی کی تعریف دوسرے رومانی نقادوں سے مختلف انداز میں کرتے ہیں:

“General sense of beauty or power or harmony as in the motion of wave of the sea, in the growth of a flower……There is poetry in its birth……Fear is poetry, hope is poetry, love is poetry, hatred is poetry, the child is a poet in fact, when he first plays at hide and seek…..the miser, when he hugs his gold”.

ہیزلٹ پرجب اعتراض ہوا کہ وہ شعر کی اتنی ڈھیلی تعریف کیوں کرتے ہیں ، تو اس نے کہا وہ ”شاعری “کی اصطلاح تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے یعنی ایک تو جذبے کا لسانی اظہار، دوسرے خود جذبہ اور تیسرے جذبے کو تحریک دینے والے مخصوص اشیاء ۔ شبلی بھی جگہ جگہ شاعری کی تعریف اتنے ہی وسیع مفہوم میں کرتے ہیں ، جتنے وسیع مفہوم میں ہیزلٹ کرتا ہے:

”ہرچیز جودل پر تعجب انگیزی کا اثر کرتی ہے ، حقیقی شعر ہے ، فضائے غیر محدود ، بحرے کراں، سیارہ ہائے غیر متناہی ، بادصرصر ،مواج دریا سب مجسم شعر ہیں“۔

رائج الوقت مغربی فکری میلانات مثلا ً نطشے کی Slave morality’‘بنتھم کی Utlitarianism اورکارلائل کی ’ Hero Worship‘ سے شبلی نہ صرف واقف تھے بلکہ اس بات سے بھی باخبر تھے کہ معترضین کے بہت سے اعتراضات کی بنیاد ان ہی تصورات پر قائم ہے۔ چنانچہ شعرالعجم میں وہ جابجا ان فکری سوالات سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ مثلاً فارسی شاعری کے اخلاقی مواد سے جہاں بھی بحث کرتے ہیں، غلامی کی اخلاقیات (Slave Morality ) ا تصور ان کے ذہن میں ضرورہوتاہے ۔ چنانچہ ایک جگہ واضح طور پر لکھتے ہیں:
”شعرائے ایران کے فلسفہ اخلاق پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے بجائے ترقی کرنے کے پستی اور بے قاعدگی کی طرف میلان ہوتا ہے۔ جو مسائل بار بار مختلف پیرایوں میں ادا کئے جاتے ہیں ،یعنی ترک دنیا ، قناعت ، توکل ، تواضع ، خاکساری ، عفو ، حلم ،جود و سخا، ان میں کچھ باتیں پست ہمتی پیدا کرنے والی ہیں ، کچھ اعتدال سے متجاوز ہیں ، کچھ اصول تمدن کے خلاف ہیں اور شاید اسی تعلیم کا اثر ہے کہ ان ملکوں میں قوم کی آزادی اور حریت کا کبھی خیال نہیں پیدا ہوا۔“

بعدازاں اخلاقی شاعری کے پورے باب میں ایسی مثالیں فراہم کرتے ہیں ، جن سے غلامانہ اخلاقیات کی نفی اور آزادی و حریت کی توثیق ہوتی ہے ۔ اسی طرح شاعری کی تاثیر سے جہاں بحث کی ہے ، وہ مِل کی طرح بنتھم کی ’افادیت پرستی‘ کے تصور کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے۔ پھر اسی طرح انہوں نے فردوسی کے ’شاہنامے‘ سے مثال دے کر ثابت کیا ہے کہ فارسی شاعری میں نامور پرستی کے جذبے کافقدان نہیں ہے۔

شبلی سے پہلے اور ان کے بعد بھی ادبی تاریخ لکھنے کاعام طریقہ یہ رہا ہے کہ شعراء کے ناموں اور کارناموں کو حروف تہجی کے بجائے تاریخی ترتیب سے یکجا کیا جاتا ہے۔ شبلی نے شعر العجم میں ایسا نہیں کیا بلکہ ادبی تاریخ نگاری کے لئے اصول ارتقاءEvolution theory کو بنیاد بنایا ، جو انیسویں صدی کے نصف آخر کا انقلا ب آفریں تصور ہے۔ اپنی کتاب میں شبلی نے ’اصول ارتقا ء ‘ کا ذکر دو بار کیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

” جس قدر زمانہ گزرتا جاتا، اصول ارتقاء کے موافق شاعری کا قدم آگے بڑھتا تھا “۔
دوسری جگہ لکھا ہے :

”خواجہ حافظ کے بعداصول ارتقاء کے خلاف ، غزلیہ شاعری کی ترقی ڈیڑھ سو برس تک رک گئی …… لیکن ارتقاء میں اتفاقی سکون ہو جاتا ہے ، سلسلہ منقطع نہیں ہو جاتا“۔

شبلی نظریہ ارتقاء کو صرف سمجھتے ہی نہیں ، برتتے بھی ہیں ، اس کی مزید توثیق ان کے اس جملے سے ہو جاتی ہے:
”شاعری کی تاریخ کا ایک ضروری باب ہے کہ شاعری کی ترقی کے تدریجی مدارج دکھائے جائیں“۔

نظریہ ارتقا کے حوالے سے ’شعر العجم ‘ میں شبلی نے ڈارون کے بجائے ہربرٹ اسپنسر سے استفادہ کیا ہے ۔ ۹۰۹۱ئ میں ابن مسکویہ کی کتاب ”تجارب الامم “ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یورپ میں آج کل فن تاریخ کواس قدر ترقی ہوئی کہ کبھی نہ ہوئی ہوگی ….. تاریخ کامقصد واقعات کا پتہ لگانا ہے ، جن کے خاص نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جن سے علت و معلول کا اس طرح سلسلہ قائم ہوتا ہے کہ جب اسی قسم کے واقعات پیش آئیں تو فوراً پیش گوئی کی جاسکے کہ اسی قسم کے نتائج پیش آئیں گے…… چنانچہ ہربرٹ اسپنسر نے تفصیل کے ساتھ اس نکتے کو لکھا ہے“۔

ڈارون کی ‘Origin of Species’ سے دوسال قبل 1857ئ میں اسپنسر نے ‘Progress, its Law & Cause’ کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا اور اس میں فنون کی تاریخ سے بحث کی۔ ڈارون کے مقابلے میں اسپنسر کے نظریے کو زیادہ تر مورخوں نے قبول کیا ، کیونکہ اس کاسمجھنا بھی آسان تھا اور اس کے استعمال میں بھی سہولت تھی۔ اسپنسر کامفروضہ یہ ہے کہ :

“Evolution always moves from the homogeneous and simple to the heterogenous and complex”. یعنی ارتقاءکا سفر ہمیشہ متجانس اور سادہ سے غیر متجانس اورپیچیدہ کی طرف ہوتا ہے ۔ سادگی سے پیچیدگی کی طرف ارتقاءکو شبلی نے شعر العجم میںیوں بیان کیا :

”عام قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے توابتدا میں تمام چیزیں خوراک ، پوشاک ، مکان ، اسباب ، وضع قطع بے تکلف اورسادہ ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ نفاست، لطافت اور تکلف پیداہوتا ہے اور روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حد سے بڑھ جاتا ہے اور اس وقت ترقی رک کر قوم برباد ہو جاتی ہے۔

شاعری کی بھی یہی حالت ہے ۔ ابتدا میں سیدھے سادے ، صاف صاف اور بے تکلف خیالات ہوتے ہیں ….. الفاظ میں تراش خراش نہیں ہوتی ۔ اس سے قدم آگے بڑھتا ہے تو خیالات میں بلندی شروع ہوتی ہے ۔ الفاظ میں تراش خراش شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد دقت آفرینی اور باریک بینی شروع ہوتی ہے۔ محسوسات سے گزر کر صرف خیالی چیزوں پر مدار رہ جاتا ہے ۔ یہ ترقی کی آخری منزل ہے ، جو تنزل سے ہمدوش اور ہم آغوش ہے“۔

اسپنسر کے اصول ارتقاء میں Survival of the fittest یعنی بقائے اصلح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ Struggle for Existence یعنی جہد للبقاء کے نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ جہد للبقاء کا متبادل لفظ مسابقہ ہے۔ شعرالعجم میں مسابقہ ، مقابلہ ، حریف یا اس مفہوم کو ادا کرنے والے دوسرے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے استعارے بھی بکثرت ملتے ہیں جن کے ذریعے بقائے اصلح یا جہد للبقا کامفہوم ادا کیا گیا ہے ، چندمثالیں مندرج ہیں:

(۱) ”مسلمان کی غزلیں چنداں مقبول نہیں ہوئیں۔ ان سے پہلے سعدی کارنگ عالم کو مسخر کرچکا تھا ۔ اس رنگ میں وہ کہہ نہیں سکتے تھے ۔ اس لئے مضمون آفرینی شروع کی“۔

(۲) ”خواجہ صاحب اپنے اساتذہ یا حریفوں سے طرحی غزلوں میں چنداں بلند رتبہ نہیں …….با ایں ہمہ ان کی غزلوں نے دنیا میں جو غلغلہ برپا کیا اس کے آگے سعدی ، خسرو ، خواجہ سلمان کی آوازیں بالکل پست ہو گئیں۔“

چونکہ شعر العجم میں ارتقا پسند نقطہ و نظر اپنایا گیا ہے اس لئے شعراء کے مدارج متعین کرنے کا انداز بھی بدل گیا ہے ۔ شبلی کو اس کا احساس ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں:

”یہ ایک واقعہ ہے کہ سعدی ، خواجہ اور سلمان ہی کے خاکے ہیں ، جن پر حافظ نے نقش آرائیاں کی ہیں ، اس لئے ان کے باہمی امتیاز اور تدریجی ترقی دکھانا شعرالعجم کا فرض ہے“۔

بالفاظ دیگر شاعر کا درجہ متعین کرتے وقت اس کے ماقبل و مابعد کا حوالہ دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ و ہ شاعر ارتقا کی زنجیر میں منسلک نظر آئے ۔ کمال اسماعیل کا درجہ شبلی اس طرح متعین کرتے ہیں:

”کمال کی شاعری قدما اور متاخرین کی مشترک سرحد ہے یعنی اس کا ایک سرا قدما اور دوسرا متاخرین سے ملا ہوا ہے ۔ قدما کی متانت ، پختگی ، استواری اور متاخرین کی مضمون بندی ، خیال آفرینی ، نزاکت مضمون دونوں یکجا جمع ہوگئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ متوسطین اور متاخرین دونو ں ان کے معترف ہیں“۔

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

”زورکلام جس کی ابتدا نظامی نے کی تھی ، عرفی نے اس کو کمال کے درجے تک پہنچا دیا“۔

غرض یہ کہ اصولِ ارتقا کی بنیاد پر شبلی نے فارسی شاعری کے حوالے سے الفاظ ، خیالات ، اسالیب بیان اور اصناف سخن کاجائزہ لیا ہے اور’شعرالعجم‘ کو ادبی تاریخ کا نادر نمونہ بنا دیا ہے۔

٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “’شعر العجم‘ اور مغربی اثرات” جوابات

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    ایسے جامع اور خالصتا ادبی تجزیات ضرور بادبان کی زینت بنتے رہنے چاہیئں جن سے ادب پرستوں کے ذوق کی تسکین ھوتی رہے۔

    1. ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر Avatar
      ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

      جزاک اللہ…. شکرًا محترمہ

    2. ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر (مقبوضہ کشمیر) Avatar
      ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر (مقبوضہ کشمیر)

      شکرًا جزاک اللہ