نگہت حسین
احمد کے معالجین کا مسلسل اس بات پر اصرار ہے کہ مجھے بحیثیت ماں احمد کو بطور مثال لے کر کمیونٹی کی مدد کے لئے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیے ۔۔۔۔ اپنے تجربات ، مشاہدات اور مسائل کو لکھیں ۔۔کیوں کہ خصوصی بچوں کے لئے ہمارا معاشرہ مددگار نہیں ججمنٹل ہے ، تنقید نگار ہے ۔۔۔۔۔۔ ہماری بہت سی ہر دل عزیز سہیلیاں بھی یہی خیال پیش کرتی ہیں کہ آپ لکھا کریں احمد کو سامنے لائیں ۔
لیکن سمجھ نہیں آتا کہ خصوصی بچوں کے حوالے سے تحریر کی ابتدا کہاں سے کی جائے ؟
یہ کس کی دلچسپی ہے کہ ملک کے ان بچوں کے بارے میں بھی کچھ سوچے اور روئیے بدلے ۔۔۔۔
المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے بدنما رویوں کا بوجھ اٹھائے ہماری خصوصی بچوں کی مائیں پر اعتماد نہیں رہتیں ۔۔۔ یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ وہ خود کو مجرم سمجھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
کافی عرصے سے احمد کے روزمرہ کے مختلف مسائل کے حل کے لئے یوٹیوب سے وی لاگز سرچ کر کے دیکھتی ہوں تو ان سب میں سب سے نمایاں بات یہ نظر آتی ہے کہ ان وی لاگز کو ریکارڈ کر کے پیش کرنے والی بچوں کی مائیں بے حد پر اعتماد ، اپنی پوری کمیونٹی کے لئے مددگار ثابت ہورہی ہیں ۔ ان ماؤں نے اپنے خصوصی بچوں کی روٹین ، مختلف سرگرمیاں اور مسائل کے حل کے وی لاگز بنا کر دوسروں کی مدد کا سامان بھی کیا ہوا ہے ۔۔
کبھی آپ نے سوچا کہ خصوصی بچوں کی یہ مائیں اتنی پر اعتماد کیسے ہیں ؟ ان کو اپنے بچوں کو فلماتے شرم کیوں نہ آئی ؟ انہوں نے اپنے بچے سمیت کسی اندھیرے میں منہ کیوں نہ چھپایا ؟
اس لئے کہ ان کا پورا معاشرہ ان کو اپنے ساتھ سمیٹ کر رکھتا ہے ۔۔۔ان کی مدد کرتا ہے ان پر ترس اور ہمدردی کے بجائے آسانی مہیا کرنے کی سوچتا ہے ۔۔۔
ان کو دیکھ کر توبہ استغفار نہیں کرتا ۔۔۔ اللہ کا عذاب نہیں سمجھتا ، گناہوں کی سزا کا فلسفہ نہیں بگھارتا ہے ، معاشرے میں تبدیلی کا پہلا قدم ان بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ ہے ۔
خصوصی بچوں سے آپ کی محبت و الفت کا پہلا اظہار ان کو قبول کرنے سے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ قبول کیجیے جو ہے ، جہاں ہے ، جیسے ہے کہ بنیاد پر ۔۔۔۔۔۔ ان کے والدین سے طرح طرح کے سوالات کر کے ۔۔۔یا مستقل اپنی نگاہوں کے نشانے پر انہیں رکھ کر ذہنی ، جذباتی دبائو میں مبتلا نہ کیجیے ۔
آپ کے ایسے رویوں سے اکثر اوقات ان بچوں کے والدین ان کو گھر میں قید کرکے رکھتے ہیں ان کو کہیں لے کر جاتے ہیں نہ کسی سے ملواتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور جو ذرا ہمت کرلیں ۔۔۔۔ ان والدین کو کیا کیا نہیں سننا پڑتا بہت تکلیف دہ باتیں ہیں ۔۔۔۔
ہم بھی عوامی مقامات میں یاکسی کے گھر احمد کے ساتھ جائیں اور کسی تیسرے فرد کی بھی اسی وقت آمد ہوجایے تو ہمارے لئے وہ تمام وقت بے چینی اور بے سکونی کا بن جاتا ہے ۔۔۔ ہم احمد کے ساتھ ہر جگہ توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔اچھے خاصے بظاہر سمجھدار نظر آنے والے ہونقوں کی طرح ایک ٹک ہمیں دیکھتے ہیں ۔ ایک ایک حرکت ہر نظر رکھتے ہیں ۔۔۔۔اک تماشہ سمجھ کر نظارہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں احمد پر بہت حیرت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ بہت سی نگاہیں ہمارا حصار خود بہ خود کرلیتی ہیں ۔۔۔۔۔جن میں زیادہ تر ایسی ہی ہوتی ہیں کہ انہوں نے پوری دنیا میں واحد یہی بچہ خصوصی دیکھا ہے ۔۔۔۔ میں اب اکثر لوگوں کے ساتھ احمد کے معاملے میں الٹے سیدھے غیر ضروری اور بے کار سوالات پر نظر انداز کرنے اور خاموش رہنے کی پالیسی پر کار بند ہوں۔ اکثر میں ان سوالات کے جواب پر یہ بھی کہہ دیتی ہوں کہ آپ کو ان کے جوابات نہ دوں تو آپ کی معلومات میں کوئی کمی تو نہیں رہ جائے گی؟
کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا ؟
اس کو کیا ہوا ؟
یہ عوام کے پوچھے جانے والے ۔۔۔۔۔ پہلی ملاقات کے وقت ۔۔۔۔۔۔اور بغیر کسی تعلق کے پوچھے جانے والے سوالات نہیں ۔۔۔۔۔۔ احمد کے ساتھ باہر نکل کر قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم انکلیسو نہیں ۔۔۔ہمارا مزاج انکلیسو نہیں ، ہمارا معاشرہ انکلیسو نہیں ۔
معاشرے سے درخواست ہے کہ ان ماؤں کو اعتماد دیجیے ان کو اور بچوں کو قبول کیجیے ۔۔۔۔ نظروں کے شکنجے سے آزاد کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔رحم ترس اور توبہ استغفار والی شکلوں اور نگاہوں سے والدین کو بچا لیجیے جو پہلے ہی جذباتی ، مالی ، اور جسمانی مشقتوں کی وجہ سے تھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔۔
تنوع میں حسن ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا کی تخلیق ایسی ہی کی ہے ۔۔۔ ہر فرق کو قبول کیجیے ۔۔۔۔ یہی آپ کی سب سے بڑی مدد ہوگی ۔
2 پر “خصوصی بچوں کی مائیں کیا چاہتی ہیں آپ سے؟” جوابات
محترمہ نگہت صاحبہ آپ کی تحریر بہت اہم اور حساس موضوع پر ھے اور یہ ایسا محسوس ھوتا ھے کہ آپ نے لبا لب بھرے پیالے سے صرف ایک قطرہ انڈیلا ھے۔۔۔۔امید ھے کہ آپ اس موضوع پر بہت ساری ضرورت مند ماوں کے لئے مزید لکھتی رہیں گی۔۔۔۔
میرے لئے یہ موضوع ہمیشہ سے خاص دلچسپی کا باعث رہا ھے۔۔۔اور حال ہی میں میری کتاب شائع ھوئی ھے ” جو پیچھے رہ گئے ” کے نام سے۔۔۔۔
بہت شکریہ زبیدہ صاحبہ ۔آپ کے تبصرے ہمارے لئے حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں ۔آپ کا کہنا بالکل درست ہے کہ ابھی صرف ایک قطرہ ہی انڈیلا ہے ۔آپ کی کتاب کی دستیابی کہاں سے ممکن ہے ،مجھے خوشی ہوگی کہ میں اس کا مطالعہ کروں ۔