طہورہ شعیب / کراچی
زندہ و جاوید اقوام کی ایک روشن علامت اپنی تاریخ سے وابستہ رہتے ہوئے اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔نو نومبر اٹھارہ سو ستتر (9نومبر 1877 ) کو تاریخ پاکستان بل کہ عالم اسلام کی تاریخ میں بھی ایک بہت اہم شخصیت کی پیدائش کا باب متذکرہ ہے۔جنہوں نے تفکر کی دنیا میں اپنے کلام سے انقلاب برپا کردیا۔
شاعر مشرق ڈاکٹر و علامہ محمد اقبال ، جن کی شاعری نے نہ صرف بر صغیر کے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے بل کہ آج بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اگر ان کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا بے سود نہ ہوگا کہ ان کی شاعری ایک معجزہ محسوس ہوتی ہے۔
اور اس بات کو کہنے میں باک اس لیے نہیں کہ ان کے کلام کا اکثر حصہ قرآن و حدیث کے اصولوں کا مظہر ہے ۔ اقبال نے مقصد حیات و موت ، زمانے کے تغیرات ، نشیب و فراز جیسے اجتماعی موضوعات سے لے کر فرد کی سوچ اور رویے تک کو موضوع بنایا اور کامیابی سے اس درد کو بذریعہ شاعری منتقل کیا جو وہ انسانیت ، اسلام اور امت مسلمہ کے لیے رکھتے تھے ۔ علامہ اقبال کے سخن ور تصورات میں سب سے زیادہ جو چیز گہرائی کے ساتھ ملتی ہے وہ ان کا تصور خودی اور نوجوانوں سے امید ہے ۔ تصور خودی کو مومن کے دل میں جاگزیں کرنے کے لیے فرماتے ہیں
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہے خدا کا ترجماں ہوجا
اقبال متمنی تھے کہ ہر بندہ مومن اپنے قلب و شخصیت کو خودی کی دولت سے مالامال کرے ۔ وہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ حیات مسلم ایک کشمکش اور جہد مسلسل ہے جس میں خودی کا زادراہ لے کر خود شناسی کے سفینے کا مسافر بن کر خدا شناسی کا سفر ہر مسلمان کو طے کرنا ہے ۔
وہ زندگی کی معراج اس بات کو سمجھتے تھے کہ انسان اپنے اور اپنے خالق کی حیثیت کو پہچان کر بلند اور عظیم تر مقاصد کے ساتھ زندگی گزارے ۔ وہ اس یقین کو مسلمانوں کے اندر دیکھنے کے خواہاں تھے خودی کا گوہر جس فرد اور قوم کے اندر موجود ہو وہ اپنے سیرت و کردار کے بل بوتے پر ہمیشگی کی زندگی پالیتے ہیں ۔ ان کی تقدیر میں شکست و ریخت نہیں ہوتی ، اغیار و دشمنان کے ہاتھوں ہزیمت و رسوائی نہیں ہوتی بل کہ زندگی کی جاودانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
خودی کے ساز میں ہے عمر جاودانی کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
اقبال مادیت کے مقابلے میں غیرت و حمیت کا سبق دیتے ہیں جس کے لیے انہوں مسلمانوں کی تہذیب ، تاریخ اور حوادث زمانہ کو اپنے کلام میں استعارات و تشبیہات کے طور پر استعمال کیا ۔ وہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ مسلمان خواب غفلت سے جاگیں اور بحیثیت مسلمان اپنی منزل کے حصول کے لیے متحرک ہوں ۔ غلامانہ ذہینیت ، بے حمیتی ، بزدلی ، تھڑدلا پن ، محکومانہ سوچ و طرز عمل سے ان کی بیزاری جابجا ان کے کلام سے ظاہر ہوتی ہے
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اقبال دراصل خودی کی طاقت سے طرز فکر و عمل کی تبدیلی کا زبردست پیغام دیتے ہیں ۔ وہ حالات کے تغیر ، اقوام کی تقدیر اور فرد کی تمناؤں کا موثر ترین تجزیہ کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں اگر خودی کا سرمایہ انسان کے پاس ہو تو یہ زندگی میں مثبت تبدیلی کی سب سے بڑی علامت بن سکتی ہے ۔ اس کے ذریعے چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پیچھے نا آسودگی کے بجائے بڑے بڑے خوابوں کا ناظر و مشتاق بن کر زندگی کو امر کیا جاسکتا ہے۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ چار سو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کا کلام آج بھی تازہ ہے ۔ اس کو بدقسمتی کہا جائے یا حوادث زمانہ ، اقبال اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کو جس خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے تھے آج بھی مجموعی طور پر حالات کے تنوع کے ساتھ وطن عزیز اور عالم اسلام میں وہی ٹھنڈی میٹھی نیند جاری ہے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اقبال کے کرشماتی منظوم شاہکار جن کو ہمارے یہاں نصاب تعلیم کا مستقل حصہ ہونا چاہیے ، گویے اپنے سروں کی تسکین کے لیے اس کو استعمال کرکے نہ صرف اس کلام کی بے توقیری کر رہے ہیں بل کہ اس کا منشاء کتابت بھی فوت ہورہا ہے ۔
اقبال کا تصور خودی ، تہذیب و تمدن ، انقلاب و امامت ، بچوں اور نوجوانوں کی فکری نمو کے سلسلے میں جتنی سخن ور کاوشیں ہیں ان کو اپنا گراں قدر سرمایہ جان کر ان سے تعلیمی استفادہ وقت کی عین ضرورت ہے ۔ اگرچہ اقبالیات کو اگر ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت سے بنیادی تعلیم یا اسکول کی سطح سے ہی متعارف کروادیا جائے تو نسل نو تک نہ صرف تاریخی ورثے کی بے مثال منتقلی ہوسکتی ہے بل کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچتے ہوئے طلباء جس فکری بالیدگی اور مضبوط شخصیت و کردار کے حامل ہوسکتے ہیں اس کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔##