ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
علامہ شبلیؔ ایک نابغہ تھے۔ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ بڑی خوبصورتی اورنزاکت سے اپنے مقصد کواس طرح پیش کرتے ہیں کہ زبان میں مولویانہ یاواعظانہ انداز پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کامحققانہ انداز برابر باقی رہتاہے۔ مولاناکے قلم میں ایک توازن ہے۔ وہ اپنوں کے بارے میں لکھ رہے ہوں یا مغربی مستشرقین کے بارے میں ، کسی اعتراض کاجواب دے رہے ہوں یا اس پر خود اعتراض کر رہے ہوں ، وہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کے ’مقالات‘ میں سنجیدگی اور رکھ رکھاؤ برابر نظر آتا ہے اور کہیں جذباتی ہوئے نہیں نظرآتے بلکہ جو کچھ کہتے بڑے اعتماد ، وثوق اور تحقیق کے ساتھ ہی کہتے ہیں۔
مقالات کی پہلی جلد’مذہبی معاملات‘پرمشتمل ہے۔ان مقالات میں کچھ تو ایسے ہیں جن میں یورپ کے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور کچھ ایسے مقالات بھی ہیں جن میں اپنوں کی بعض غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی ہے۔ ’علوم القرآن‘ کے عنوان سے ایک مقالہ علامہ مرحوم نے بڑی تحقیق سے تحریر کیا۔ اس کوپڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ اسلاف کتنی عرق ریزی سے کام کرتے تھے کہ قرآن کریم کی ایک ایک باریکی اور نقطہ پر صفحات لکھ ڈالے تھے اور اس کے اعجاز پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں ملتی ہیں۔
جاحظؔ نے تیسری صدی ہجری میں اس موضوع پرقلم اُٹھایا۔ بعدازاں محمد بن فرید واسطی ، عبدالقاہر جرجانی ، خطابی ، ابن سراقہ اور قاضی ابوبکر باقلانیؔ وغیرہ نے بسیط اور مفصل کتابیں لکھی ہیں۔ان بزرگوں کے کارنامے کوبھی اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔
’تعدد ازدواج‘ پرہمیشہ بحث ہوتی چلی آئی ہے۔ بہت سے اہل ہوس توقرآن کریم کی آیت کے ایک حصہ کو اپنے لئے کافی سمجھ کر ہمیشہ دوسرے حصہ کو چھوڑ دیتے ہیں اوریوں عدل سے دور رہتے ہیں ۔ علامہ ؔ نے اس مسئلے پر بڑے احتیاط سے قلم اُٹھایا ہے اور قرآن کے صحیح مفہوم کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور عدل پر بار بار زور دیا ہے۔
چنانچہ علامہ نے اس سلسلے میں خلیفہ منصور کی مثال پیش کی ہے کہ جب خلیفہ کا ارادہ دوسری شادی کرنے کا ہوا تو اس کی بیوی اس پرمعترض ہوئی۔ چنانچہ خلیفہ وقت نے اس معاملے میں امام ابو حنیفہ ؒسے استفسار کیا کہ مسلمانوں کے لئے کتنی بیویاں جائزہیں ۔ امام صاحب نے فرمایا ، چار۔ خلیفہ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا کہ امام صاحب کی رائے سن لی۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے فوراً فرمایا ، لیکن خلیفہ منصور کے لئے ایک سے زیادہ شادی جائز نہیں۔ خلیفہ نے معلوم کیاکہ کیوں؟ امام صاحب نے فرمایا ’تم نے جس انداز سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور جس طرح گفتگو کی اس سے میں قیاس کرتا ہوں کہ تم اُس کے ساتھ عدل نہیں کرتے۔ اس لئے میں حکم دیتا ہوں کہ تم اسی ایک بیوی پر قناعت کرو ۔‘ اس مثال کو علامہ اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ایک عام انسان تو کیا اگر خلیفہ وقت بھی اس شرط کو پورا نہیں کرتا جسے قرآن کریم نے ضروری قرار دیا ہے تو پھر اس کے لئے حدسے تجاوز کرنا جائز نہیں۔
عورتوں کے لئے پردہ کاموضوع ایسا ہے جس پر پہلے بھی اعتراضات کئے جاتے تھے۔ اور آج کل بھی اس پر تنقیص کی جاتی ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی وہی باتیں کہنے لگا ہے جو کچھ اہل یورپ کی طرف سے سامنے آتی تھیں۔ 1899ء میں رسالہ ’نائن ٹیٹھ سنچری‘ میں سیدامیر علی کاایک مضمون شائع ہوا۔
اس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلمان عورتوں میں مروج پردہ کاخلفاء کے زمانے میں کہیں نام و نشان نہ تھا بلکہ اس کے برعکس اعلیٰ طبقے کی عورتیں بلا برقع کے مردوں کے سامنے آتی تھیں۔ اس کارواج ساتویں صدی ہجری سے ہوا ہے جب خلافت اسلامی کمزور ہو گئی تھی اور تاتاریوں نے اسلامی حکومت کو درہم برہم کرایا تھا۔ علامہ شبلی ؔ نے اس مضمون کا نوٹس لیا اور ’پردہ اور اسلام‘ کے عنوان سے اس کے رد میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کاآغاز وہ یوں کرتے ہیں:
”یورپ کی عامیانہ تقلید نے ملک میں جو نئے مباحث پیدا کر دیے ہیں ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے ۔ اگراس مسئلہ پر صرف عقلی پہلو سے بحث کی جاتی تو ہم کو دخل در معقولات کی کوئی صورت نہ تھی لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے خود مذہب اسلام میں پردہ کا حکم نہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرون اولیٰ میں پردہ کارواج بھی نہ تھا۔“
آگے مولانا نے مفصل بحث کرتے ہوئے ثابت کیاہے کہ عرب میں اسلام سے پہلے بھی پردہ کا رواج تھا۔ اسلام نے اس میں بعض اصلاحات کیں۔ قرآن وحدیث میں اس کے احکام دیے گئے اورمسلمانوں نے ان کے مطابق عمل کیا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ بعد کے دورکی ایجادہے۔
شبلی ؔ کے تاریخ نویسانہ تناظر میں خاص طور پر حساس موضوع جس پر عذرخواہانہ ارتکاز نظر آتا ہے ، وہ غیر مسلم باشندوں سے سلوک کا ہے۔ انہوں نے اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں کے تحفظ کے نظریہ کے نشوونما کا 629ء کے ’صلح نامہ نجران‘ سے کیاہے۔ جس میں اسلامی ریاست اور اس کی غیرمسلم رعایا کے مابین حقوق اور اخلاقی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مثلاً بیرونی حملہ آوروں سے ان کی حفاظت ، ان کی مذہبی رسومات اور ان کے قسیس کے افعال میں غیر مداخلت ، ان کے جان ومال اور تجارتی مفاہمت کی حفاظت کی ضمانت اور زمین کا محصول معاف کرکے جزیہ کی وصولیابی بعد میں جو مسلمان حکمرانوں نے جو امتیازی قانون یا دستورجاری کیے یا فقہاء اور سیاسی مفکرین نے جوسفارشات پیش کیں وہ محض ذاتی نوعیت کی تھیں۔
بہرحال تاریخ اسلام میں قانونِ فوجداری مسلم و غیر مسلم دونوں کے لئے یکساں ہی رہا ۔ کسی غیر مسلم کی غیر منقولہ جائداد کا کسی مسلمان کا خریدنا یا اپنے قبضہ میں لے لینا حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں ناجائز ہی رکھا اور اس عمل کے اجراء میں نجران کے صلح نامہ کی روایت اور رُوح کار فرما تھی۔ اس حکمت عملی کے جواز کے متعلق علامہ شبلی کااستدلال یہ ہے کہ اس کی قانونی حیثیت امام ابویوسف ؒ کے اس فتویٰ سے مسلّم ہوگئی کہ مسلمان حکمران ذمیوں کوان کی زمین سے بے دخل نہیں کرسکتے اور جب کبھی اس اصول سے انحراف کیا گیا تو اس پر سخت محاکمہ کیا جاتا۔
مغربی مؤرخین کے اس الزام کے خلاف کہ عیسائیوں کو نئے گرجے بنانے کی اجازت نہیں تھی ۔ شبلیؔ کاکہنا یہ ہے کہ عبداللہ بن عباسؓ کی شہادت کے مطابق یہ پابندی پہلے محدود تھی اور محض ایسے مسلم شہروں سے متعلق تھی جو مسلمانوں کی نو آبادیاں تھیں ، مثلاً کوفہ ، جہاں سرے سے کوئی غیرمسلم موجود نہیں تھا اور یہی وہ بستیاں تھیں جہاں عیسائیوں کو نئے گرجا بنانے کی اجازت نہیں تھی ۔
دمشق میں جہاں عیسائیوں سے معاہدے ہو چکے تھے ، وہاں مذہبی آزادی کی جو ضمانت دی گئی تھی ، اس کا پورا احترام مدنظر ہوتا تھا ۔ بعد میں عیسائیوں کو خالص اسلامی شہروں مثلاً قاہرہ میں نئے گرجے بنانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
شبلیؔ اس تاریخی حقیقت ثابتہ کو بطور عملی حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ تاریخ میں کسی سلطنت میں محکوموں کو حاکموں کے مساوی حقوق کبھی نصیب نہیں ہوئے ۔ اسلام سے پہلے کی تہذیبوں میں مفتوح اقوام کے ساتھ جانوروں کا ساسلوک روا رکھا جاتا تھا اور اسلامی حکومت کو یہ برتری اور امتیاز حاصل تھی کہ وہ مقابلتاً زیادہ رواداری اور یک جہتی کی قائل تھی۔ امتیازی لباس یا پست درجہ کے متعلق جو قانونی تحریریں ملتی ہیں ، ان کے متعلق شبلی ؔ کی یہ رائے ہے کہ وہ خلیفہ المتوکل ؔ (847۔861ء) کی مذہبی حکمت عملیوں کے منصوبوں کے تحت وجودمیں آئیں ، جنہوں نے عقلیت پسند معتزلیوں کوبھی سزائیں دیں ۔ لہٰذا اصولی طور پر وہ اسلامی نہیں ہے۔
بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں نامور یہودی اور عیسائی دانش وروں یا عمّال سلطنت کی جو سرپرستی کی جاتی تھی اور اعلیٰ مناصب عطا کیے جاتے تھے ، وہ ان مراتب اور توقیر سے بدرجہا برتر اور بہتر تھے ، جو یورپی نو آبادیوں کی انتظامی حکومتیں مقامی قوموں کے ممتاز افراد کے ساتھ روا رکھتی تھیں۔
معترضین اکثر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اسلام جمہوریت کاقائل نہیں اور جمہوری دنیامیں ذمّی بنانے کا مسئلہ مضحکہ خیز ہے۔ علامہ شبلی ؔ کامقالہ ’حقوق الزمّیین‘اُس دور کے اور معاصر تمام جمہوریت پسند حکومتوں کے لئے ایک چلینج معلوم ہوتا ہے ۔ یہ نام نہاد جمہوریت پسند صرف لفظاً مساوات کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں عملاً افلاس اور حق تلفی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ضروریات زندگی عنقا ہوکر رہ گئی ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ اظہر من الشّمس ہے ۔ برعکس اس کے اسلام غیر مسلم ملک کے شہری کو ذمی بنا کر اپنی آغوش امن میں لے لیتا ہے ۔ ان کی جان و مال کا اسی طرح محافظ بن جاتا ہے جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے۔ ان کی تعلیم ، روٹی ، کپڑا اور طبی امداد وغیرہ کاانتظام کرتا ہے ۔
علامہ شبلی ؔ حضرت عمرؓ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ ایک ذمی نے اُن کو شہید کیا لیکن پھر بھی وفات کے وقت اُنہوں نے تین نہایت ضروری وصیتیں کیں ، ان میں سے ایک یہ تھی ،”کہ ذمیوں کے ساتھ جو قرار ہیں ، وہ پورے کیے جائیں۔ ان کی طاقت سے زیادہ کام ان سے نہ لیا جائے ۔ اور ان کے دشمنوں کے مقابلہ ان کی طرف سے لڑائی کی جائے“۔
آج بھی جمہوریت کانعرہ بلند کرنے والی حکومتیں اپنی خاص خاص اسامیوں پر دوسرے فرقوں کے لوگوں کا تقرر نہیں کرتیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کی وسیع القلبی یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے ابن آثال ، جو کہ عیسائی تھا ، کو حمص کا فنانشل کمشنر اور حاکم مقرر کیا ۔ عبدالملک بن مروان کا چیف سیکریٹری ابن سرجون نامی ایک عیسائی تھا۔ ہندوستان پہنچ کر تو اسلام نے اپنی وسعت قلبی کی انتہا کردی کہ غیرمسلموں کو ملک کی افواج میں بڑے بڑے عہدوں پرمامور کیا۔
آخر میں علامہ شبلی ؔ جزیہ کا اخلاقی جوازپیش کرتے ہیں کہ آبادی کے وہ افراد جو سلطنت کی مدافعت میں عسکری خدمات انجام نہیں دیتے اور برائے نام مالی مددکرتے ہیں ، وہ مسلمانوں ہی کی طرح رفاہِ عامہ کے اداروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ مزیدبراں غیر مسلم زکوٰۃ سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں ، جوصرف مسلمان ادا کرتے ہیں لیکن جس سے بقول امام ابویوسفؒ حضرت عمر ؓ نے عیسائیوں اوریہودیوں کو بھی حصہ پانے کا حق دار قرار دیا تھا۔