ڈاکٹر میمونہ حمزہ
اقرأ کو ہاسٹل میں آئے ایک سمسٹر گزر چکا تھا۔ وہ جو گھر سے چند دن بھی کبھی دور نہ رہی تھی، اب ہاسٹل ہی اس کا دوسرا گھر بن گیا تھا، گزشتہ پانچ ماہ میں وہ فقط تین مرتبہ گھر گئی تھی۔ ایک تو اس کا گھر یہاں سے اتنا دور تھا، پھر شہر پہنچ کر گاؤں کے لئے وین بدلنی بھی پڑتی اس لئے وہ گھر جاتے ہوئے بھائی کی سہولت کو بھی مدّنظر رکھتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر بھائی اس کا ساتھ نہ دیتا تو چچا کبھی اسے پڑھنے کے لئے اتنی دور نہ بھیجتے، اسی لئے اس نے ہاسٹل ہی میں اپنی دلچسپیاں تلاش کر لی تھیں۔
گریجوایشن کرنے کے بعد ایک سال اس نے قرآن حدیث سرٹیفیکیٹ کورس میں داخلہ لے لیاتھا، اور دین کا بنیادی علم حاصل ہوا تو اسے پھیلانے اور چراغ سے چراغ جلانے کی ذمہ داری بھی اس کے کندھوں پر آ گئی تھی۔ اسی لئے جونہی ہاسٹل میں کچھ سہیلیاں بن گئیں، اس نے تجوید سکھانے کی پیش کش کر دی۔اور اس کے قریبی کمروں سے پانچ طالبات نے اس سے پڑھنا شروع کر دیا، اور اگلے چند دنوں میں کچھ اور طالبات بھی اس کی غیر رسمی شاگردی میں آ چکی تھیں۔ اور کوریڈور سے گزرتے ہوئے کئی نا شناسا چہرے بھی اسے مسکرا کر سلام کرنے لگے تھے۔
وہ اپنی اسائنمنٹ بنانے میں مشغول تھی، جب اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، آنے والی طالبہ نے کھڑے کھڑے اپنا تعارف کروایا، وہ مہوش تھی ، کمپیوٹر سائنس ، بی ایس کی سٹوڈنٹ ! اور اس کی خاص توجہ کی خواستگار تھی۔ بچپن میں اس نے قرآن کریم پڑھنا سیکھا ہی نہ تھا۔ اس میں غلطی اس کی تھی یا والدین کی، یا سکھانے والے اساتذہ کی عدم برداشت! وہ کھلنڈری بچی تھی، اور کھیل کود ہی میں وقت ضائع کر چکی تھی۔ اب اپنے سامنے ندی بہتے دیکھ کر اس کا بھی دل چاہا تھا کہ اس کے پانی سے سیراب ہو لے۔ مہوش چاہتی تھی کہ وہ چند دن اسے اکیلے میں پڑھائے۔ اقرأ نے اپنے شیڈول اور سر پر کھڑے مڈ ٹرم امتحان کی بنا پر انکار کرنا چاہا، لیکن مہوش کی پر امید نگاہوں کے سامنے وہ خاموش ہو گئی۔ بس اس سے اتنا کہا:۔ ’’فجر کی نماز کے فوراً بعد آ سکو گی ؟‘‘۔
اس نے کچھ لمحے سوچا، اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس وقت اسے کوئی دیکھنے والا بھی نہ ہوگا، اس نے خوشی سے سوچا، البتہ فجر کے بعد کلاس لینے کا مطلب ہے نمازِ فجر کی ادائیگی، جو اس کی زندگی میں کبھی کبھار ہی ہوتی تھی۔ اقرأ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی، جو لمحہ بہ لمحہ بدل رہے تھے۔اور پھر وہ جلد ہی چلی گئی، اور اگلی صبح وہ نماز سے فارغ ہوئی تھی کہ مہوش نے دستک دی۔
ایک ہفتے کے دوران ہی وہ کافی قواعد سیکھ چکی تھی، اور اب استاد شاگرد کے تعلق سے بڑھ کر ان میں کچھ بے تکلفی بھی ہو گئی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے ہے۔ والد نے بڑی محنت سے یہ سفر کیا ہے۔ اولاد کو پڑھانا ان کی خواہش ہے۔ والدہ مصروف خاتون ہیں، اور ان کے سماجی رابطے کافی زیادہ ہیں، اور انہیں کی سرگرمیوں میں وہ مصروف رہتی ہیں۔ اس کی بڑی بہن کی خاندان ہی میں شادی ہو چکی ہے، اور اب اسے بھی ہاسٹل بھیج کر ماما فراغت کو انجوائے کر رہی ہیں۔مہوش اس کی دیگر سٹوڈنٹس سے مختلف ثابت ہوئی تھی، وہ اسے اپنی بڑی بہن کی طرح سمجھتی، اور اس کو اچھی کمپنی دیتی، شام کو وہ چائے پینے کا سوچ رہی ہوتی اور مہوش کبھی بسکٹ کا ڈبہ لئے آموجود ہوتی اور کبھی نمکو۔ اس کی کوئی اسائنمنٹ پھنسی ہوتی تو وہ آ کر اس کے کپڑے استری کر دیتی، کبھی کمرہ سیٹ کر جاتی۔
اقرأ کو بھی اس کی عادت سی ہو چلی تھی، شام کے سائے ڈھلتے ہی اس کی نگاہیں اس کی دستک کی منتظر رہتیں۔ مہوش زندہ دل لڑکی تھی، اس کی سہیلیوں کا دستہ اس کی نئی مصروفیت سے کافی نالاں نظر آتا تھا، بقول ان کے تجوید کی اس ٹیچر نے ان سے ان کی دوست چھین لی تھی۔ اسی لئے وہ کئی مرتبہ اسے تلاش کرتے ہوئے اقرأ کے کمرے تک آ جاتیں اور اسے لیکر ہی جاتیں، نہ اس کے بغیر کرکٹ میچ دیکھنے میں مزا آتا نہ ویک اینڈ پر مووی دیکھنے کا۔انہوں نے کامن روم کی ٹیلیوژن سکرین پر کئی ڈرامے بھی اکٹھے ہی دیکھنا شروع کئے تھے، اور اب مہوش ان کے درمیان سے نکلنا بھی چاہتی تو وہ ایسی دھما چوکڑی مچاتیں کہ اسے ساتھ دیتے ہی بنتی۔
اور اسے کبھی تو ایسا لگتا کہ وہ پنڈولیم کی مانند کبھی دائیں لٹک رہی ہے اور کبھی بائیں۔ اور یہ فقط ظاہر کا معاملہ نہ تھا، اس کے اندر بھی ایک ایسی ہی جنگ جاری تھی، جسے اس کے سوا کوئی بھی نہ جانتا تھا۔اس کی وقاص سے ملاقات اچانک ہی ہوئی تھی، وہ اپنی ماما کے ساتھ ہی کزن کی مہندی پر گئی تھی، جہاں لڑکے والوں اور لڑکی والوں کے درمیان گانوں کے مقابلے میں وہ کچھ زیادہ ہی پیش پیش تھی۔ جب کسی انجانی جانب سے اسے نگاہوں کی تپش کا اندازہ ہوا، اور پھر کھانے کے دوران ایک دو ستائشی جملے اس کے کان میں سنائی دیے، جن کا جواب اس کے ہونٹوں کی مسکان نے دیا۔
شادی اور ولیمے کی تقریبات ابتدائی شناسائی کا ذریعہ بن گئی تھیں۔ ٹیلیفون نمبرز کا تبادلہ ہوا تو پیغامات کا سلسلہ چل پڑا جس میں فقط اس کے حسن ، آواز اور شخصیت کی تعریف تھی۔ اگلے مہینے اس کے جنم دن پر اس کی تصویروں اور ویڈیوز کا البم تحفے کے طور پر ملا، اس نے کس طرح اس کے ہر پوز کا عکس محفوظ کیا تھا، وہ اس کی مہارت اور اتنی توجہ پر کھل کر مسکرائی، اور بے اختیار اس کے ہاتھ موبائل سکرین پر گردش کرنے لگے۔
وہ بھی شاید اسی کا منتظر تھا، اس نے ایک ایک تصویر پر بلا تکان بولنا شروع کیا تو وہ پوری طرح اس کے سحر میں آ چکی تھی۔اس روز اسے اس کے فون کا انتظار تھا، مہوش نے جھلا کر خود کال ملانے کی کوشش کی تو اس کا کریڈٹ ناکافی ہونے کا پیغام سنائی دیا۔ وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی اقرأ کے کمرے میں آئی، اور ایک ضروری کال کے لئے اس سے موبائل مانگا، جو اقرأ نے بلا تردد اسے دے دیا۔اسے فقط یہی تو کہنا تھا کہ مجھے کال کر لو۔
اقرأ کئی دنوں سے پریشان تھی ، ایسا تو اس کے ساتھ کبھی نہ ہوا تھا، اسے مسلسل رانگ میسیجز آ رہے تھے، اور اس سے بات کرنے کے لئے اصرار۔ اسے سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے ، یہ نجانے کون شخص تھا جو اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ وہ ان میسیجز کو ڈیلیٹ کرتی تو کچھ نئے میسیجز اس کا منہ چڑا رہے ہوتے ۔ وہ اپنا موبائل نمبر کسی کو دینے میں انتہائی محتاط تھی، پھر اس سے کہاں غلطی ہوئی؟ وہ اس جسارت کے تانے بانے ملانے سے قاصر تھی۔
اس کا دل چاہا کہ اس حوالے سے بھائی سے بات کرے، لیکن وہ نہ جانتی تھی کہ اس کا ردّ عمل کیا ہو گا؟ وہ جذباتی ہو کر اسی کو موردِ الزام ٹھہرائے گا یا اسے اس تکلیف سے نجات دلائے گا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بات گھر کے بڑوں تک پہنچے تو اس کی تعلیم ہی ادھوری رہ جائے، کیونکہ اس کے گھر میں تو چند برس پہلے تک گھر میں ٹیلیفون پر آنے والی کال بھی صرف مرد ہی ریسیو کیا کرتے تھے، یا گھر کا کوئی بچہ۔ اماں گھر میں نہ ہوتیں تو وہ اس کے چونگے کو اٹھانے کی بھی ہمت نہ کرتی، کہ نجانے کس کی کال ہو۔
یونیورسٹی میں رابطے کی ضرورت پوری کرنے کے سبب بھائی نے اسے موبائل دلوایا تو چچا نے خشمگیں نگاہوں سے گھورا تھا۔ اور بھائی نے ہی انہیں مطمئن کیا تھا۔ اس لئے وہ انجانے پیغامات کی خبر اڑا کر اپنے لئے مسائل پیدا نہ کرنا چاہتی تھی، کئی دن کی سوچ بچار کے بعد اس نے مہوش سے ان میسیجز کا ذکر کیا۔ وہ فوراً ہی مدد پر آمادہ ہو گئی، اور وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے بابا کو فون کیا، انہوں نے اقرأ کو تسلی دی۔ اس نے رانگ نمبر انہیں بھجوا دیا، اور اگلے دن سے پیغامات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اس نے خود مہوش کے بابا کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ تو اس سے متاثر ہو گئے تھے، ایسی بیٹیاں تو ان کا خواب تھیں، مگر مہوش کی سہیلیاں تو اس سے بھی بڑھ کر بولڈ تھیں۔
وہ اسے معاشرتی اور خاندانی روایتوں کا پابند بنانا چاہتے تھے، مگر اس کی اپنی ہی دنیا تھی، اور اپنی ماں کی شہہ پا کر وہ ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیتی۔مہوش کے اندر ایک جنگ شروع ہو چکی تھی، بابا سے رابطے کے بعد اقرأ بھی ان کے خاندان کی فرد کی طرح بن چکی تھی، کبھی اس کا فون نہ ملتا تو بابا یا ماما اقرأ سے ہی رابطہ کر لیتے، اور وہ انہیں مہوش کے بارے میں بتا دیتی۔اور کئی مرتبہ اسے ایسے ہی لگتا کہ اس نے اقرأ سے رابطہ کروا کر اپنے اوپر ایک اور گرفت کا سامان کروا لیا ہے۔ اب جب ہاسٹل سے باہر جانے لگتی تو اقرأ کو بھی کچھ نہ کچھ کہہ کر ہی جانا پڑتا، ایسی ہی تسلی جو دراصل اس کے والدین کے لئے ہوتی۔
وقاص اس کی زندگی میں نہ آیا ہوتا تو یہ اس کے لئے یہ سب اتنا تکلیف دہ نہ ہوتا، مگر یہ معاملہ نہ اس کے گھر والوں کو معلوم تھا نہ ہی اقرأ کو بتا کر وہ کوئی خطرہ مول لینا چاہتی تھی، دوسری جانب وقاص کے ملاقات کے تقاضے اسے بار بار جھوٹ بولنے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ بازار شاپنگ کا کہہ کر جاتی تو تین گھنٹے بعد ہی واپس لوٹتی، اور کئی مرتبہ ایک جھوٹ کو بچانے کے لئے دوسرا جھوٹ بولنا پڑا ۔
اقرأ دیکھ رہی تھی کہ مہوش کی کلاس میں توجہ بھی کم ہو رہی تھی، کبھی اس کی آنکھ نہ کھلتی اور کبھی وہ پڑھتے ہوئے بھی اونگھ رہی ہوتی، اقرأ اسے رات کی نیند کا پوچھتی تو وہ ٹال جاتی ۔ اس کا چہرہ مرجھا رہا تھا ۔ ویک اینڈ کی فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسائنمنٹ میں مصروف تھی جب مہوش ذرا جلدی میں اس کے کمرے میں آئی ، اس نے اس کے موبائل سے کسی کزن کے کہنے پر مری میں ہوٹل کی بکنگ کروائی تھی ۔ وہ جس طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار آئی تھی اسی طرح واپس ہو لی، البتہ اس کے چہرے کے رنگ کچھ عجیب سے تھے، جسے وہ کوئی نام نہ دے سکی تھی ۔
وہ ہاسٹل ٹک شاپ سے سامان لے کر لوٹ رہی تھی جب اس نے مہوش کو بہت تیار باہر جاتے دیکھا، آج تو اس نے اقرأ کو بتانا بھی گوارا نہ کیا تھا۔اسی شام مہوش کے بابا کا فون آگیا، اور حسبِ معمول انہوں نے بیٹی کے بارے میں پوچھا، اس کا فون بند تھا، اور کئی مرتبہ کی کوشش کے بعد انہیں آسان حل یہی لگا تھا کہ اقرأ سے اس کا حال پوچھ لیں۔وہ اس کے کمرے تک جا کر اس سے بات بھی کروا دے۔ اقرأ کو اندازہ ہوا کہ ان کی آواز بھرائی ہوئی ہے۔ مہوش کے ہاسٹل میں نہ ہونے پر ان کی پریشانی دوچند ہو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دوست نے فون کر کے بتایا ہے کہ انہوں نے کسی نوجوان کے ہمراہ اسے مری جاتے دیکھا ہے۔
اقرأ کو ساری کڑیاں ملتی ہوئی دکھائی دیں، یعنی اس نے یہ بکنگ اپنے لئے کروائی تھی۔ کیا مہوش اتنا بہک بھی سکتی ہے؟ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی، قرآن کے نام پر قائم ہونے والے تعلق میں ایسا دھوکہ بھی ہو سکتا ہے؟ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ مہوش کی دوستی کو نباہے، یا اس باپ کی عزت کو بچائے۔ اس نے دن کی ساری بات انہیں بے کم و کاست بتا دی، انہوں نے ہولے سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:۔ بہت شکریہ بیٹی، میں تمہارا احسان بھلا نہ پاؤں گا۔
شام نے رات کی سیاہی اوڑھ لی تھی، اور اسی اندھیرے میں خلافِ معمول ہاسٹل نمبر 4 کا آہنی دروازہ کھلا تھا، مہوش اپنی ماں کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی، اور پھر کچھ دیر کی کھٹ پٹ کے بعد اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ اس دستک کو خوب پہچانتی تھی، دروازہ کھلنے پر دو نفوس اندر داخل ہوئے، ایک کا چہرہ شرمندگی سے جھکا ہوا تھا، شاید تربیت کے جھول پر شرمندہ تھی، جبکہ دوسرا چہرہ ستا ہوا تھا، اس پر کئی رنگ آ اور جا رہے تھے، سب سے نمایاں رنگ کھسیاہٹ کا تھا۔
وہ دونوں اسے سلام کر کے واپس ہوئیں تو مہوش سامان لینے کے بہانے پھر اس کے پاس آئی، اور اسے ایک لفافہ پکڑایا:۔ ایک احسان کر دیں مجھ پر۔۔یہ لفافہ اس ایڈریس پر ٹی سی ایس کر دیں۔رات کی تاریکی میں گیٹ نمبر 4 سے یہ قافلہ واپس جا چکا تھا، اقرأ کی نیند اڑ چکی تھی۔ دو تہائی رات گزر چکی تھی، جب اس نے اس لفافے کو کھولنے کا فیصلہ کیا، یہ مہوش کی تصاویر تھیں، کسی نوجوان کے ساتھ!لیکن یہ بے وقوف لڑکی یہ تصاویر اسے کیوں بھیجنا چاہ رہی تھی؟ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود اسے نہ اپنے خاندان کی عزت کا پاس تھا نہ اپنے باپ کے جھکے کندھے اسے دکھائی دے رہے تھے۔ انہیں تصویروں کے درمیان سے نکلنے والے کاغذات نے اس کا لہو منجمد کر دیا تھا۔ یہ نکاح نامہ تھا۔۔۔ جس کے مندرجات خالی تھے،
وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی، جب اسے اس پر مہوش کے دستخط دکھائی دیے ۔ وہ لرز کر رہ گئی ، مہوش اس قدر باغی بھی ہو سکتی ہے وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ وہ لڑکا جو اس کے والدین کو دیکھتے ہی رفو چکر ہو گیا تھا، وہ اپنی باگیں اس کے حوالے کر رہی تھی ۔ اس نے اس کی تصویر بنا کر مہوش کے والد کو بھیج دی اور ان کی ہدایت پر بدبودار ادھوری دستاویز کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔اسے لگا کہ اس نے بوڑھے باپ ہی پر نہیں مہوش پر بھی احسان کیا ہے!٭٭٭