راؤ عارف واجد
ہر سال ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو ہر طرف سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے محافل اور مجالس کا بھرپور اہتمام ہوتا ہے اور خوب جوش و خروش کا سماں ہوتا ہے . اسوہ حسنہ ہماری عملی زندگی کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کرنے کیلئے نہایت ناگزیر مکمل و مربوط نظام حیات ہے لیکن افسوس کہ اب تک انسانیت اس نظام حیات سے غافل ہے۔
نبوت تو وہ عظیم الشان منصب ہے جو صرف اللہ تعالی کا خاص انتخاب ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ ہستی ہیں جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، انبیاء مرسلین کے سردار اور امام ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں جنہوں نے جینے کا سلیقہ سکھایا اور جن کے طفیل ہم جنت میں جائیں گے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے لیکن اکثر جگہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ محبت کی تعریف کیا ہے؟
محبت دلی تعلق اور اس کے میلان کو کہتے ہیں یہ تو لغت کی تعریف ہے جو لکھی گئی ہے لیکن مطالعہ کے دوران یہ بات پڑھی کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ محبت کی تفصیلات پر کلام کرنے کے بعد محبت نبوی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت اصل میں میلان کو کہتے ہیں، یہ کئی وجوہ سے ہوتا ہے کبھی حسن صورت تو کبھی حسن سیرت وغیرہ وغیرہ، جسے انسان پسند کرتا ہے اس سے لطف اٹھاتا ہے، اس سے لطف اندوز ہوتا ہے مثلا: علماء، صلحاء کی محبت اس نوعیت کی ہے اور کبھی محبت کا سبب اس شخص کا کوئی احسان ہوتا ہے جس سے محبت ہو گئی ہے یہ تمام اسباب نبی اکرمؐ میں موجود ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے حسن و جمال کے قابل مظہر ہیں، ہر طرح کے فضائل آپ کی ذات میں جمع ہیں اور پوری امت مسلمہ آپ کی احسان مند ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل ہمیں سیدھا راستہ عطا ہوا اور آپؐ ہی کے طفیل ہم اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جس سے بڑا نہ تو کوئی ہمارا محسن ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی خیر خواہ۔
قرآن پاک میں بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے اس کا واضح پیغام اور مقصد آپ کی زندگی کو اپنی زندگیوں میں جذب کر لینا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا آئیڈیل بنانا ہے۔
بدقسمتی سے ایک بات ذہن میں آتی ہے تو بہت رنج ہوتا ہے میں اکثر اپنے نوجوان ساتھیوں سے اور بچوں سے ایک سوال کرتا ہوں کہ آپ کا رول ماڈل کون ہے؟ تو کوئی کسی اداکار کا تو کوئی کسی ڈانسر کا تو کوئی کسی کھلاڑی وغیرہ کا نام لیتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہے لیکن کبھی وہ یہ نہیں سوچتا اور نہ اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ تیرا سب سے بڑا محسن اور رہبر کے جس نے تمہارے لئے راتوں کو رو رو کر مانگا تو کبھی تمہاری خاطر طائف کی گلیوں میں پتھر کھائے اور لہو لہان ہوئے وہ شخص تمہاری زندگیوں میں کہاں ہے ! تو دل خون کے آنسو روتا ہے
بدقسمتی سے ہم اتنے ظالم نکلے کہ ہم نے اپنی ہی نبی کی زندگی کو اپنی نظروں میں اجنبی بنا دیا اور پھر ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم مصائب و مشکلات کے دریا میں پھنسے ہوئے ہیں اور بری طرح سے مصیبتوں کا شکار ہیں جس کا واحد حل اور علاج صرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور اس محبت میں کامل اتباع ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور سچی محبت نصیب فرمائے۔ آمین