لالٹین

لالٹین سے عشق کی داستان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رقیہ اکبر چودھری

اپنی روایتی اشیاء سے مجھے عشق کی حد تک لگائو ہے . آٹا گوندھنے کیلئے مٹی کی پرات ، روٹیاں رکھنے کیلئے چنگیریں ، لسی کیلئے مٹی کی چاٹی . یہ سب ہمیشہ سے میرے استعمال میں رہیں۔ کبھی چاول یا دانے نہیں چھانے مگر چھاج رکھتی تھی اپنے پاس جو پچھلے دو سالوں سے البتہ نہیں ہے لیکن ان شاء اللہ جلد ہی لے آئوں گی۔کسی میلے ٹھیلے میں جائوں یا شمالی علاقہ جات سیر سپاٹے کو، ایسی روایتی اشیاء کی خریداری ضرور کرتی ہوں۔

گزشتہ برس لاہور کے میلہ چراغاں گئے تو گائوں اور دیہاتی پس منظر کی عکاسی کرتے سٹالز میری اور دعا کی خصوصی توجہ کا مرکز تھے ۔ وہاں سے خریداری کرنے کا کچھ بھی ارادہ نہیں تھا لیکن جونہی لکڑی سے بنی روایتی اشیاء کا سٹال نظر آیا میں وہیں گھس گئی۔ لسی بنانے والی مدھانی، چرخہ اور دو چار اور ایسی ہی چیزیں خریدیں . ابھی مزید خریداری کر رہی تھی کہ حلیمہ سعدیہ کھینچ کر باہر لے آئی کہ ندیدی بس کر دے .

ان روایتی چیزوں میں سے مجھے مٹی کے برتن اور لالٹین سے عشق کی حد تک لگائو ہے . امی کے پاس ایک بہت نادر قسم کا لیمپ ہوتا تھا جو آج کل اینٹیک شاپ پہ جائو تو ہزاروں میں ملے۔ اس کی چمنی ٹوٹ گئی تھی۔ اپنی نادر اور قیمتی کتابوں کے ساتھ اسے بھی سنبھال کے اپنے ساتھ رکھتی ہمیشہ . فیصل آباد سروس کے سلسلے میں شفٹ ہوئی تو میرے کمرے کی زینت بنا رہا . چمنی کی تلاش میں کالج کے ایک ملازم نے اسے پورے فیصل آباد میں گھمایا لیکن چمنی نہ مل سکی . پھر ٹرانسفر ہوئی تو واپس ساتھ لے آئی . پھر نجانے کب اور کہاں کھو گیا آج بھی افسردہ ہو جاتی ہوں کہ اسے کیونکر کھو دیا میں نے۔

شادی ہوئی تو اماں نے حسب روایت دو عدد لالٹینیں جہیز میں ساتھ دے دیئے۔ یہ ان سنہرے دنوں کی بات ہے جب لوڈشیڈنگ محض بجلی کا معمولی سا شارٹ فال ہوتا تھا ایک عفریت نہیں ۔ بجلی گھنٹہ دو گھنٹہ منظر سے غائب ہوتی تو یہ کوئی بہت سنگین مسئلہ نہیں بنتا تھا لوگ روشنی کیلئے لالٹین استعمال کرتے جبکہ خال خال گھروں میں (جو کہ نسبتا کھاتے پیتے شمار ہوتے) جنریٹر بھی رکھے جاتے۔

رہن سہن میں کچھ جدت آئی تو موم بتیاں رواج پانے لگیں . مختلف طرز کے خوبصورت اور نت نئے ڈیزائنوں والے موم بتی سٹینڈ مارکیٹ میں آ گئے مگر لالٹین کی مانگ اور استعمال میں کمی نہ آئی۔

پھر جب لوڈشیڈنگ نے ایک عفریت بن کر روشنیوں کو شکار کرنا شروع کیا تب یو پی ایس اور جنریٹر ہر گھر کی بنیادی ضرورت بن گئے. یوں لالٹین کا استعمال متروک ہوتا گیا۔

مجھے بھی کئی بار کہا گیا کہ یہ جو اماں کی طرف سے جہیز میں لالٹین لائی تھی اب یہ دے دو کسی کو ۔ مجھے مگر ان سے عشق تھا . یوں بھی اماں کی دی ہوئی اشیاء سے تو ہر بیٹی عشق کرتی ہے ، پھر بھلا کیوں دیتی کسی کو۔۔

مہینے دو مہینے بعد اسے صاف کرتی اور پھر سٹور میں رکھ دیتی تھی ۔ پچھلے ہفتے مارکیٹ گئی تو ایک بزرگ لالٹینیں بیچ رہے تھے پتہ چلا تین ہزار کی ایک لالٹین ہے . بیٹے کی فرمائش پہ لالٹین میں تیل ڈالنے ، چمنی کی صفائی اور خصوصیات اور اسے جلانے کے طریقے پہ مفصل اور سیر حاصل لیکچر دے ڈالا ۔ دائود ہنسنے لگا کہ میں نے تو بس مختصر سا سوال کیا تھا کہ جلتا کیسے ہے ؟ اماں نے تھیوری کا پورا لیکچر دے مارا۔

"کسی دن ڈیمو بھی دکھائوں گی ” اماں نے اٹھلا کر کہا . گویا اتنا بڑے اور عظیم کارنامے کے دیدار سے میرا معصوم بچہ محروم نہ رہ جائے۔

یا شاید اپنی روایتی متروک ہوتی اشیاء کی محبت اپنے بیٹے کے دل میں انڈیلنا چاہتی تھی تاکہ یہ سینہ بہ سینہ آگے منتقل ہوتی رہے۔
آج جب بجلی نے دغا دی اور میری خوش قسمتی کہ یو پی ایس بھی خراب ہو چکا تھا . دائود نے موم بتی ڈھونڈی ، جلانے لگا تو اماں نے جھٹ سے سٹور سے لالٹین نکالی اور فٹ سے لالٹین جلا کر ڈیمو دے ڈالا ۔ بس جی لالٹین کے جلتے ہی جہاں لائونج ٹمٹماتی روشنی سے جگمگا اٹھا وہیں دائود کے اندر عکس بندی کے شوق نے بھی ٹمٹمانا شروع کر دیا۔۔۔

اور بنا ڈالیں نانی کی طرف سے دیئے گئے لالٹین کی کئی ایک "فوٹوآں”
بتایئے گا کیسی لگی میری لالٹین سے عشق کی داستان اور دائود کی عکس بندی۔

تصویر : دائود ذوالفقار


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں