روضہ اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم

رحمۃ للعالمین ﷺ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن مالک/ کراچی

حضور اکرمﷺ کی ذات و صفات تمام اخلاق و خصائل اور جمال و کمال میں سب سے زیادہ ارفع و اعلیٰ اور منزہ ہے. ان تمام کمالات و محاسن کو کما حقہ بیان کرنا انسانی طاقت اور قدرت سے باہر ہے. کیونکہ جن کمالات کا تصور اس جہاں میں ممکن ہے وہ سب کے سب حضور ﷺکو حاصل ہیں.

اللہ پاک نے اخلاق و عادات کی تمام خوبیاں اور ہمہ قسم کی عمدہ صفات آپ ﷺکی ذات گرامی قدر میں جمع فرما دی تھیں۔ آپ کی ایک نمایاں صفت رحمت ہے۔ رب ذوالجلال نے حضور ﷺ کو کلام مجید میں یوں مخاطب فرمایا کہ

ترجمہ : اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

جب ہم حضور علیہ السلام کے اس جہاں میں مبعوث ہونے سے قبل دنیا کی حالت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں خواہشات کی پیروی کرتی ہوئی ، رسم و رواج کی غلامی کرتی ہوئی شتر بے مہار قومیں نظر آتی ہیں. جن کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کو مذہب تو کیا انسانیت کے بارے میں بھی کوئی شد بد نہیں ہے.

پھر رب کریم جل جلال نے انسانوں کی حالت پر اپنا خصوصی فضل وکرم فرمایا، اور دنیائے انسانیت کی کشتی کو پار لگانے کے لیے اور لوگوں کو ہر طرح کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ جل جلالہ کی غلامی میں لانے کے لیے اپنے محبوب رحمۃ للعالمین جناب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت جہاں والوں کے لیے رحمت ہی رحمت ہے . رب کریم ذوالجلال نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی شریعت مطہرہ دے کر بھیجا جس میں افراط ہے نہ تفریط بلکہ اعتدال پر مبنی ہے. قرآن مجید میں رب کریم ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ “اللہ (تعالیٰ) کسی کو طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا.

حضور علیہ السلام کی تمام تعلیمات رحمت ہی رحمت ہیں چاہے ان کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے ، معاملات سے ہو یا طرز معاشرت سے ہر جگہ رحمت کے انوار نظر آتے ہیں . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں مختلف تکالیف کا سامنا کیا مگر کبھی کسی کو اذیت و تکلیف نہیں دی تھی. خود بھوک برداشت کرتے لیکن کبھی کسی مہمان اور سائل کو خالی واپس نہیں بھیجتے تھے. ہمیشہ دوسروں کو نفع پہنچاتے .

ایک مرتبہ فرمایا کہ “اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم” پوچھنے پر فرمایا کہ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روک دو. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اپنی امت کی آسانی اور نجات کی فکر میں رہتے تھے ایک مرتبہ فرمایا کہ ” اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا” اور “عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کرنے کا حکم کرتا”.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ سب کے لیے رحمت ہیں تو جہاں آپ نے بڑوں کا ادب کرنے کی تلقین کی وہاں آپ نے چھوٹوں پر شفقت کو بھی سر فہرست رکھا. اگر عورتوں کو اپنے خاوند کی خدمت کی تلقین کی تو دوسری طرف مردوں کو بھی یہ فرمایا کہ “عورتوں کے بارے میں اللہ ( پاک ) سے ڈرو”. جہاں خادم کو اپنے آقا کی خدمت کا حکم دیا تو دوسری طرف یہ حکم بھی فرمایا کہ “جو تم خود کھائو وہی اپنے غلاموں کو بھی کھائو جو تم خود پہنو وہی اپنے غلام کو پہناؤ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہوئے فرمایا کہ اس پر اکڑ کر نہ چلا کرو.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں ، خواتین ، گھر والوں ، کمزوروں ، یتیموں ، ضرورت مندوں ، خادموں اور نوکروں اور جانوروں کے لیے سراپا رحمت ہیں اور فرمایا کہ ” تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا.

محترم قارئین! ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ سے صرف علم میں اضافہ کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اس کو عملی زندگی میں نافذ کرنا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ حضور ﷺنے انسانی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ہماری بہترین راہنمائی فرمائی ہے جس کو مشعل راہ بنانا محبت رسولﷺ کا اولین تقاضا ہے اور یہی رب کریم کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ خالق کل کی رضا و خوشنودی کا حاصل ہو جانا سب سے بڑی کامیابی ہے، یہی تخلیق انسانی کا مقصد ہے اور نجات اخروی کا راز بھی۔

رب کائنات نے اپنے کلام مجید میں سرور کونین ﷺکے بارے میں یہ کلمات فرما کر امت محمدیہ کو مخاطب کیا ہے کہ “لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ” ترجمہ: (حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے)۔ ایک مقام پر فرمایا: ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ ان آیات اور اس مضمون پر مشتمل دیگر بہت سی آیات قرآنی سے ہمیں جناب نبی کریم ﷺکی پیروی کا حکم ملتا ہے ۔ ایمانیات ، عبادات ، معاملات ، معاشرت اور اخلاقیات انسانی زندگی کے پانچ بنیادی شعبے ہیں ۔ ان تمام شعبوں سے متعلق رسول کریم ﷺ کی تعلیمات اور ہدایات مستند و قابل اعتماد ذرائع سے ہمارے پاس موجود ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو سنت رسول ﷺ کے مبارک سانچے میں ڈھالیں اور عملی طور پر آپﷺ کو اپنا رول ماڈل تسلیم کریں ۔ یہ عمل ہماری ذاتی ، گھریلو اور معاشرتی زندگی میں خوبصورتی پیدا کرے گا ، ہمارے مسائل کو حل کرکے اعمال و اخلاق کی اصلاح کرے گا اور آخرت میں جناب نبی کریم ﷺکی شفاعت اور قرب کا سبب بنے گا، ان شاءاللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنت طیبہ کی اتباع کرنے والا بنائے، آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “رحمۃ للعالمین ﷺ” جوابات

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    ماشاءاللہ، “ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ سے صرف علم میں اضافہ کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اس کو عملی زندگی میں نافذ کرنا مطمح نظر ہونا چاہیے”۔ علمی سے عملی کا سفر طے ھونا بہت ضروری ہے ۔

  2. زينب جواد Avatar
    زينب جواد

    ہر زمانے میں دنیاوی و اخروی لحاظ سے وہی لوگ کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کی۔