قانتہ رابعہ :
لاکھوں درود اس ہستی ہر اس جیسا کبھی پہلے پیدا ہوا نہ آئندہ ہوگا ، کروڑوں سلام اس کی بارگاہ میں جسے بشر پیدا کیا بنی نوع انسان میں سے ، صرف اسے رب نے اپنا محبوب قرار دیا ، ان کی امت کے لیے ان کا نام بغیر تسلیمات کے لینا ناپسندیدہ ٹہرا ۔ ایک سانس میں ایک مرتبہ نام لو یا دس مرتبہ محبت کی بناء پر مختصر ہی سہی مگر سلام ضرور بھیجو ۔
اور اس درود و سلام کی تاکید ہی نہیں کی باعث انعام بنا دیا ۔کیا آپ نے دنیا میں کوئی ایسی ہستی دیکھی ہے جس کا نام اتنے پروٹوکول کے ساتھ لیا جائے ؟؟ اور اس پر رب دس دس نیکیوں کا باعث بنائے ، دس دس گناہ معاف کرے ؟؟؟ اس نام کو دل کی سکینت روزی کی برکت ،اور اللہ نے اپنی رحمت قرار دیا ۔
اس محبت کی چھوٹی سی جھلک یہ ہے کہ پوری روئے زمین پر جو شخص بھی خواہ وہ کسی قوم اور خطے سے تعلق رکھتا ہو ، جتنی مرتبہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے گا تو ساتھ میں ملائکہ کے علاوہ رب العزت بھی ان پر درود بھیجے گا ۔ بلا شبہ اللہ رب العزت کے درود بھیجنے کی کیفیت اور نوعیت وہ خود ہی جانتا ہے لیکن ہم گناہ گاروں کے لیے یہی جاننا کافی ہے کہ ان کے ذکر پر رب بھی ہم نوا ہوجاتا ہے۔
اور اگر اس مالک کائنات کی تعریف کے لیے ساتوں سمندر سیاہی بن جائیں اور سب درختوں کے قلم بن جائیں تو بھی ناکافی ہیں ۔ اسی طرح اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے لیے بھی یہی صورت حال ہے ۔ جس طرح اللہ کی تعریف کا کوئی شخص حق ادا کر ہی نہیں سکتا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا . اللہ رب العزت نے ان کی آمد کو احسان قرار دیا ہے ۔ اور احسان ماننا پڑتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احسان کن معنوں میں؟؟؟؟
کیا دنیا میں زندگی گزارنے کا شعور دیا ؟ دنیا کی حقیقت بتائی؟؟ نہیں اس کے ساتھ رب سے بچھڑے انسان کو رب سے ملایا ؟؟اور ان سب سے اوپر ایک یہ بات کہ رب نے اختیار اور چوائس کا کسی مخلوق کو حق نہیں دیا تھا . جب انسان کو پیدا کیا تو اسے یہ اختیار دیا کہ جس راستے پر چاہے قدم رکھ سکتا ہے . راستے دو ہی تھے جنت اور جہنم کے ۔
جنت کا راستہ دشوار گزار گھاٹیوں سے گزر کر ملے گا اور ان میں سب سے مشکل گھاٹی نفس کی ہے ۔ جا بجا ٹھکرائے جائو گے ، انگلیاں اٹھیں گی . ایک ٹرافی کے حصول کے لیے سو جتن کرنا پڑتے ہیں . یہ تو رب کا انعام جنت ہے کسی آنکھ نے دیکھا نہ اس کے بارے میں کسی کان نے سنا ۔ بس ریموٹ کنٹرول انسان کو دے دیا جائے گا کہ جس عیش و عشرت کو میری خاطر ٹھکرایا تھا اب تمہی اس کے حق دار ہو ۔سورہ الواقعہ میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک مقربین کی رب کی رضا نعمتوں بھری رب کے دیدار والی جنت ، دوسری دائیں بازو والوں کی جہاں بے موسمی پھل ، بیر ،تہہ در کیلے ۔ کوئی شوگر کولیسٹرول نہیں بس یہ تمہارے لیے ہیں
دوسرا راستہ جہنم کا ہے ۔ بد پرہیزی پر تم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو کڑوے کسیلے سیرپ ، انجکشن اور مرض بگڑ جائے تو سرجری ، جسم کے حصوں کو کاٹ دیا جاتا ہے ، جہنم بھی کچ لہو کھولتے پانی کا سیرپ لئے ہوگی دھواں اور آگ کا عذاب ۔۔۔۔ اللھم انی اعوذبک ۔۔۔۔ لیکن جہنم کا راستہ بہت پر کشش ، بہت دل لبھانے والا ، رب سے غفلت اور آخرت کے بارے میں شک شبہ ڈالنے والا ہوگا ۔ اس راستے پر وقتی سرور ہوگا عیش و عشرت میسر ہوگی مگر انجام انسان کی عقل کے غلط استعمال کی بناء پر عبرت ناک !!!
یہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی تھی کہ انہوں نے صرف اور صرف امت کی خاطر ہر طرح سے ہر حالت میں رب کی اطاعت اور رب کی پسند کے کام کر کے بتلایا یہ ہے راستہ ۔۔۔ یہ ان کی زندگی تھی کہ نفس پر قابو پانے کے وہ انداز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھائے کہ قتل و غارت گری ، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے ہدائت دینے والے بن گئے ۔۔۔
جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کا حق ادا کیا اور تریسٹھ سالہ زندگی کے ہر سانس کو رب کی رضا کے لیے گزار کر دکھایا انہی لوگوں نے جو اس وقت کے ہر گناہ کے عادی تھے شراب و شباب جن کی گھٹی میں تھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گزار کر بتا گئے کہ دیکھو ! تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تو دو رائے رکھ سکتے ہو کہ بشر تھے یا نہیں ۔۔۔ ہمیں دیکھو ۔۔ہم تو بشر ہیں ۔۔۔ ہر برائی کا ذائقہ چکھ چکے ہیں لیکن اللہ کے رسول کی فرمانبرداری میں اتنی لذت ہے کہ دنیا کی سب لذتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں ۔ ان کی زندگی میں اللہ نے انہیں رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ،کا سرٹیفیکٹ دے دیا۔
آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو سنت پر عمل پیرا ہونا کہا جاتا ہے اور سنت پر عمل صبح آنکھ کھلنے سے رات بستر پر آنکھ بند ہونے تک یہاں تک کہ آنکھ کھل جائے تو کروٹ بدلنے تک سنتیں موجود پیں . بچے کی پیدائش سے میت کو قبلہ رخ لٹانے تک کی سنتیں عمل کے لیے ہیں . وہاں بھی اپنی مرضی سے جس رخ پر چاہیں میت کو مٹی کے سپرد نہیں کر سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نبی جو ہمیں انفرادی زندگی میں تو ہر قدم پر انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے مگر اجتماعی اور معاشرتی سیاسی عدالتی تعلیمی تجارتی اداروں میں راہنمائی سے محروم رکھے؟؟
صحابہ کرام کی مثال سامنے رکھیے ، انہوں نے جنت کا سودا کیا اور گردنیں تک کٹوانے کو تیار ہو گئیے ۔ آج جنت میں جانے کا شوق تو بہت ہے مگر گردنوں کی بجائے بارہ ربیعُ الاول کا کیک کاٹ کر اطاعت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ عمل مشکل ہے ۔ اس کی بجائے وظیفے وظائف دم درود کو کافی سمجھ لیا . بس یہی المیہ ہے ہماری نالائقیوں کا ۔ اللہ امتی ہونے کا اعزاز دیتا ہے تو اس کے قابل بھی بننا پڑے گا پھر رب کی رحمت اور رضا آپ کو ہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی ملے گی ۔۔فداہ امی وابی ##