فرح مصباح
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے کائنات کے تمام بہترین اوصاف عطا فرمائے۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ وجہِ تخلیق کائنات ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ احزاب میں اپنے نبی کی شان دار زندگی کو اس طرح سے بیان فرماتے ہیں:
لَقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة
چاہے عرب ہو یا عجم، کالا ہو یا گورا ، ہندی بولے یا سندھی ، چینی بولے یا افغانی سب کے لیے حضور اقدسﷺ کی خوبصورت زندگی بہترین آئیڈیل ہے۔ معاملہ چاہے عبادت سے متعلق ہو ، تب بھی نبی ﷺ کی زندگی آئیڈیل ہے ۔ معاملہ چاہے معاشرت سے متعلق ہو ، نکاح بیاہ سے متعلق ہو ، رشتہ داری جوڑنے سے متعلق ہو ، حقوقِ نسواں سے متعلق ہو ، پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق ہو ، بچوں کی تعلیم و پرورش سے متعلق ہو ، تب بھی نبیﷺ کی زندگی ہی بہترین آئیڈیل ہے۔
اور تو اور معاملہ چاہے معیشت سے متعلق ہی کیوں نہ ہو ، عام کاروبار سے متعلق کیوں نہ ہو ، دورِ جدید کے الیکٹرونک بزنس سے متعلق کیوں نہ ہو ، اس میں بھی نبیﷺ کی مبارک زندگی ہی قابلِ عمل ہے۔ جس نے اپنا آئیڈیل بدل دیا ، اس نے اپنا مقصد بدل دیا۔ جس نے اپنا آئیڈیل بدل دیا، اس نے بہترین زندگی کو چھوڑ دیا۔ اب کون سی زندگی اختیار کر رہا ہے؟ ناکامی والی زندگی۔ کامیابی والی زندگی کو بیچ کر ناکامی والی زندگی خرید رہا ہے۔ بڑا بدنصیب آدمی یا عورت ہے۔ اس کی تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔
پہلے ہم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ابتدائی زندگی کا خلاصہ بیان کرتے ہیں جو بہت اہم ہے ۔ خاتم النبینﷺ کے والد آپ کی پیدایش سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے ۔ پھر والدہ بھی چھ سال کی عمر میں ساتھ چھوڑ گئیں ۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے دادا عبدالمطلب کی وفات کے بعد اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آگئے ۔ ابو طالب اپنے بھائی کے اس بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے، اسی لیے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ اورحضورﷺ کو بھی اپنے چچا سے بہت محبت تھی۔
آپﷺ نے عرب کے دستور کے مطابق نو عمری میں بکریاں چر ائیں ۔ اور پھر قریش کے دستور کے مطابق تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔ قرآن کریم میں اللہ جل شانہٗ نے قریش کے تجارتی قافلوں اور سفر کا ذکر اس طرح سے کیا کہ پوری سورۂ قریش اس موضوع پر اتاری۔ اور اپنا احسان وانعام بتایا کہ سردیوں میں تم نہایت اطمینان سے یمن کی طرف سفر کرتے ہو اور گرمیوں میں شام کی طرف۔ اللہ ہی تمہیں بھوک کی حالت میں کھلاتا ہے اور اسی نے تم کو ہر خوف سے امن دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت ایمان داری کے ساتھ تجارت شروع کی۔ چچا کے ساتھ شام کے سفر میں گئے اور ہر ہر بات کو نوٹ کیا کہ تجارت کیسے کی جاتی ہے اور پھر نبوت ملنے سے قبل ہی اپنے اخلاقِ کریمانہ کی چاشنی تجارت میں ملا کر اپنا بلند مقام بنالیا۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سامان دے کر بھیجا کرتے انہیں بھی فائدہ ہوتا اور اطمینان بھی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی نفع پوری امانت داری کے ساتھ صاحبِ مال کو واپس کرتے اور صرف طے شدہ اجرت لیا کرتے تھے۔ آپﷺ لوگوں میں صادق و امین کے نام سے مشہور ہوگئے ۔ ہر آدمی کی خواہش ہونے لگی کہ وہ محمد بن عبداللہ کے ہاتھوں اپنا سامانِ تجارت بھیج دے۔ یہ بات زبانِ عام ہوگئی کہ “محمد بن عبداللہ دیانت داری اور راست بازی میں بے مثال ہیں”۔
اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رشتے کی بنیاد بھی سچی تجارت بنی۔ شادی سے پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کا مالِ تجارت لے گئے تو ساتھ میں حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی ساتھ تھا۔ اس نے ایک ایک چیز کا جائزہ لیا کہ کیسے سچ بولتے ہیں ، اور سچائی کا معاملہ کرتے ہیں ، کسی کو دھوکہ نہیں دیتے ۔ سفر سے واپس آکر میسرہ نے ساری رپورٹ پیش کردی۔ اور جب حضورﷺ نے پورے سفر کا مکمل حساب پیش کیا تو خدیجۃ الکبریٰ بڑی خوش ہوئیں۔ بعد میں انہوں نے پیامِ نکاح بھی بھیج دیا، اور پھر وہ اُمّ المؤمنین (یعنی ایمان والوں کی ماں) بن گئیں۔
دیکھیے! اعتماد کیسے قائم ہوتا ہے
جب معاملات میں سچائی سے کام لیتے ہیں تو اعتماد ، بھروسا قائم ہونے لگتا ہے ۔ چاہے کوئی ملازمت کرتا ہے ، اپنا کاروبار کرتا ہے۔ دوسرے کے ساتھ کبھی دغابازی نہ کرے ۔ اگر چھپ چھپا کرلی ، سامنے والے کو کچھ بھی معلوم نہیں ہوا اور کچھ عرصہ بعد معلوم ہو جاتا ہے تو کیا پھر وہ اعتماد کرے گا؟
ایک مرتبہ پیارے نبیﷺ نے گندم بیچنے والے کو دیکھا۔ اس کے پاس ڈھیر جمع تھا۔ آپﷺ رکے اور اس کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا۔ وہ اندر سے گیلی تھی۔ پوچھا کہ اے فلاں! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ رات بارش ہوئی تو اسے لگ گئی تھی۔ فرمایا کہ تم اسے اوپر رکھ کر دکھاتے کیوں نہیں ہو تاکہ لوگ دیکھ سکیں ، انہیں دھوکہ نہ ہو؟ مزید رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو دھوکہ کرتا ہے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (صحیح مسلم)
آج کہا جاتا ہے کہ مارکیٹ دھوکہ دیے بغیر چل نہیں سکتی ۔ کیا ہی غلط نظریہ اس قوم کا بن چکا ہے۔ جہاز میں فیول کی جگہ پانی بھر بھر کر ڈال دیں تو کیا جہاز اُڑنے لگے گا؟ ایسے ہی مارکیٹ کو دھوکہ دے کر دھکے دے کر چلانے سے مارکیٹ نہیں چلتی، مارکیٹ تو نبی کریمﷺ والی دیانت داری سے چلتی ہے۔ اس سے برکتیں آتی ہیں۔ پھر کمایا ہوا ہسپتالوں میں نہیں لگانا پڑتا، عدالتوں میں نہیں لگانا پڑتا۔
آج آن لائن مارکیٹ میں تو بڑا ہی جدید دھوکہ دینے کا سسٹم آگیا ہے۔ تصویر میں کچھ دکھایا جاتا ہے اور سامان کچھ اور بھیج دیتے ہیں۔ اسے مارکیٹ کی اصطلاح میں False Advertisement کہتے ہیں۔ ہمارے نبیﷺ نے تو اس سے صدیوں پہلے منع کر دیا تھا اور دنیا والے آج اس کے قوانین بنا رہے ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق غلط بیانی سے چیز بیچنے پر پانچ سے دس ہزار ڈالر تک کا جرمانہ اور چھ مہینے سے ایک سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔ انگلینڈ کی ایک عدالت نے 2011ء میں دو بھائیوں کو غلط اشتہار بازی پر 13 سال قید کی سزا سنائی۔
اسی طرح معاملات کرنے میں نرمی کے پہلو کو اختیار کرنا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خریدنے ، بیچنے اور پیسوں کا تقاضا کرنے میں آسانی کرنے والے شخص پر رحم فرمائے۔ (صحیح بخاری) کتنا بہترین بھائی چارہ قائم فرمایا اور آج ایک دکان میں دو بھائی مشکل سے بیٹھ پاتے ہیں۔ جہاں مارکیٹ والے رعایت دیتے ہیں ، لوگوں کو سہولیات دیتے ہیں اُن کی مارکیٹ دوسروں کے مقابلے میں اچھی چلتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسوہ رسول اکرمﷺ کو اختیار کریں اور اپنی معیشت کو آپﷺ کے بنیادفراہم کیے ہوئے طریقے کے مطابق بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت کے ساتھ اسوہ رسول اکرم ﷺ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ایک تبصرہ برائے “کامیاب تجارت اسوۂ رسولﷺ کی روشنی میں”
ماشاءاللہ جامع تحریر