عمران خان ، وزیر اعظم پاکستان ، پنڈورا پیپرز

پینڈورا پیپرز انکشافات : عمران خان کے لئے ایک مشکل امتحان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہارون جنجوعہ

تین اکتوبر کو عام کیے جانے والے پینڈورا پیپرز میں پاکستان کے سات سو اہم اور نمایاں افراد کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا نام شامل نہیں ہے۔

پینڈورا پیپرز میں قریب بارہ لاکھ فائلیں موجود ہیں۔ ان پیپرز میں پاکستان کی طاقتور فوج کے جرنیلوں، کاروباری حضرات، سیاستدانوں اور میڈیا مالکان کے نام شامل ہیں، جنہوں نے آف شور کمپنیوں میں لاکھوں ڈالر جمع کرا رکھے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم کی کابینہ کے اراکین
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ ان کے علاوہ صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور صوبے کی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے چوہدری پرویز الہی کے بیٹے چوہدری مونس الہی کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ مونس الہی بھی عمران خان کی کابینہ کے رکن ہیں اور پانی کی محکمے کے نگران وزیر ہیں۔

پینڈورا پیپرز کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ اس مناسبت سے بھرپور اور مکمل انکوائری مکمل کی جائے گی اور غلط کام کرنے والوں کے خلاف مناسب ایکشن لیا جائے گا۔

ہر ایک کی تفتیش ہو گی، فواد چوہدری
پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان نے وزیر اعظم معائنہ کمیشن کے زیر نگرانی ایک اعلیٰ سطحٰ سیل قائم کر دیا ہے اور پینڈورا پیپرز میں جن کے نام سامنے آئے ہیں، ان کے بارے میں جامع تفتیش کی جائے گی۔ چوہدری نے مزید بتایا کہ جو بھی ملوث ہوا، اس کے خلاف تفتیشی عمل کے بعد سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

فواد چوہدری کے مطابق تفتیشی عمل قومی احتساب کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی مکمل کرے گی اور تمام افراد کو دستور پاکستان کی شق باسٹھ کے تحت بھی پرکھا جائے گا۔ اسی شق کے تحت ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے گئے تھے۔

حزب اختلاف کی جانب سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ پینڈورا پیپرز میں جن حکومتی وزراء اور ان سے ملحقہ اہلکاروں کے نام سامنے آئے ہیں، وہ فوری طور پر اپنے اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔

ممکنہ اثرات کے حوالے سے شکوک و شبہات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل کے واضح اثرات کا موجودہ سیاسی عمل پر مرتب ہونا ممکن نہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹرز فار اسکالرز سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ انہیں اس تفتیشی عمل کے پاکستانی سیاست پر بڑے اثرات ظاہر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور اس کی وجہ عمران خان بھی ہیں کیونکہ ان کا نام اس میں شامل نہیں اور انہوں نے فوری طور پر تفتیشی عمل شروع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ کوگلمین کے مطابق بدعنوانی کے انکشافات ان کی پارٹی کے لیے یقینی طور پر اہم ہیں۔

ایک اور سیاسی تجزیہ کار محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ بظاہر کسی بڑی کارروائی کا امکان موجود نہیں اور کابینہ میں شامل جن افراد کے نام سامنے آئے ہیں انہیں اپنے اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تا وقتیکہ تفتیش انہیں معصوم قرار نہیں دیتی۔

سعودی عرب سے شائع ہونے والے جریدی عرب نیوز کی پاکستان کے لیے ایڈیٹر مہرین زہرا ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پینڈورا لیکس سے خان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی حکومت کو کسی بحران کا سامنا ہو گا اور صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ عمران کو مونس الہی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

مہرین ملک کا خیال ہے کہ پینڈورا پیپرز میں جن حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے نام شامل ہیں ان سے تفتیش کیے جانے کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں،” فوجی حکام کے خلاف کوئی تفتیش نہیں ہو گی، تفتیش کا وہم ہو سکتا ہے، احتساب کا وہم ہو سکتا ہے لیکن ہو گا کچھ نہیں۔‘‘

اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ سے تفتیش کرنا وزیر اعظم عمران خان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہو گا۔

( بشکریہ ڈی ڈبلیو )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں