نگہت حسین
گرما گرم مزیدار کڑک چائے سامنے آئی تو سموسوں کے ساتھ ساتھ چائے کا لطف لیتے ہوئے نئی پرانی بہت سی یادیں باتوں کی صورت دہرائی جانے لگیں ۔
دو پرانی سہیلیاں مدت بعد ملیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔کہیں مسکراہٹیں بکھریں تو کہیں آنسو بھر آئیں۔
ایک دم سے ہی سہیلی کو خیال آیا تو مصنوعی غصے سے کہنے لگی کہ چائے پی گئی لیکن اتنے پیارے کپ تھے ان کی ذرا جو تعریف کی ہو ۔
چائے کے کپ کی جانب توجہ کی تو وہ واقعی بہت خوبصورت تھے قابل تعریف ۔۔۔۔۔لیکن میں چپ رہیں۔۔۔۔سوچا آج وہی بتانا چاہیے جس کو کہنے کو ایک زمانہ ہمت جمع کرتی رہی ہیں۔۔۔
سوچتی ہوں کہ اب کچھ تبدیلی کی سوچنی چاہیے ۔۔۔۔اظہار کرکے کہیں کوئی کنکری ایسی پڑ جائے جس سے سوچ کی لہریں جنم لے لیں ۔۔۔۔۔۔۔تو کتنا اچھا ہوگا ۔
محبت اور خلوص سے کہا کہ مزیدار کڑک چائے اتنی محبت سے پیش کی گئی کہ کپ کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔ کپ سے زیادہ چائے اور چائے بنانے والی ، پیش کرنے والی اور اس میں محبت گھولنے میری پیاری سہیلی کی چائے نے بس کپ کو ایک طرف ہی کردیا ۔ اب کپ کو تو میں پی نہیں سکتی تھیں ، چاہے کتنا بھی خوب صورت ہوتا لیکن ایسی چائے تو کسی بھی کپ میں پیش کی جائے ضرور پینے کا دل چاہے گا ۔
سہیلی کھلکھکا کر ہنس پڑی ۔ اس کو اچھا لگا تعریف کا یہ انداز ۔۔۔
عرصہ ہوا چیزوں کی تعریف کرنی چھوڑ دی ہے ۔ چیزوں پر توجہ کرنی چھوڑی تو خود بہ خود قابل توجہ چیزوں پر ارتکاز ہوگیا ۔
دیکھیں تو میں نے کتنے پیارے کپڑے پہنے ہیں ۔۔۔؟ بیٹی اٹھلا کر جب سامنے آتی ہے تو گلے لگا کر پیار کرتے ہوئے دھیرے سے سرگوشی کی کہ اس کو پہننے والی شہزادی اس سے زیادہ پیاری ہے ۔ اس کی وجہ سے یہ کپڑے بھی خوب صورت ہیں ۔ خوشی سے گلنار چہرے کے ساتھ حیرت سے پوچھتی ہے:
اچھا واقعی ۔۔۔! ہاں بالکل ۔۔۔! الماری تمھارے کپڑوں سے بھری ہوگی لیکن تم نہ ہوگی تو میں کتنی اداس ہو جائوں گی ۔۔۔۔۔
ھمھم اصل اہمیت میری ہے اماں ۔۔۔! واہ کتنا خوب صورت خیال ہے ۔۔۔اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتی ہیں ۔اپنی اہمیت کا احساس ہونا اور کوئی دلا دے تو واقعی انوکھا سا احساس ہوتا ہے ۔
جوتے کیسے ہیں ؟ زیادہ اہم نہیں ان کو پہننے والے پاؤں کو اللہ سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔
مکان کیسا ہے؟ اس سے زیادہ اہم اس کے مکین ہیں ۔۔۔۔
صوفے، برتن ، ۔۔۔۔۔۔۔الا بلا ۔۔۔۔کیوں اہم ہیں ۔۔۔؟پھر ان کی بھی ایک کلاس ہے ۔۔۔جیسی حیثیت کا مہمان ہے ویسے برتن ، ویسا ہی برتاؤ۔
آہ ! ۔۔۔۔۔یہ انسان کی عزت نہیں اس کی تذلیل ہے۔مادیت کے رگ و پے میں بس جانے کی دلیل ہے ۔
چیزوں کی اہمیت بڑھتی ہے تو انسانوں اور اس سے منسلک جذبوں کی گھٹتی جاتی ہے ۔
چیزوں کے جذبات واحساسات نہیں ہوتے لیکن انسان جذبات احساسات سے گندھی مخلوق ہے ۔
چیزیں ٹوٹ جائیں گی تو ان کی جگہ نئی آجائیں گی ۔ انسان ٹوٹ جائیں تو پھر جوڑنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
یہ جو کسی بھی نئے رشتے کی بنیاد پڑتے وقت اور کسی سے بھی ملاقات میں ظاہری اور مادی چیزوں کی ایک لمبی فہرست کے بعد جب اخلاق و کردار پر اہمیت دینے کی باری آتی ہے ، کافی وقت نکل جاتا ہے انسان کو سمجھنے کا اور اس کی قدر کا ۔
پھر چیزیں جیت جاتی ہیں، انسانی جذبے مات کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کہ محبتوں کا ہر انداز کسی نہ کسی مادی مظاہر سے منسلک کردیا گیا ہے ۔۔۔۔ہائے خالی خالی محبت ۔۔۔۔۔۔کیسی عجیب ہوتی ہے ۔۔۔۔
ایسا دور ہے کہ ہر چیز کی قیمت لگائی جارہی ہے
تحفے ، گھروں کے سامان، در دیوار پر لگی چیزیں اور روزمرہ کی اشیاء بہت مہنگی ہیں بس ! انسان سستے ہیں ۔۔۔۔۔کیا کسی کو خیال ہے کہ چیزیں محبت کرنے کے لئے تخلیق نہیں ہوئیں ۔۔۔۔۔۔
انسان استعمال ہونے کے لئے تخلیق نہیں ہوئے ۔۔۔۔
کچھ درست ہو جائے تو بہت کچھ بہتر ہوجایے کہ
چیزوں کو استعمال کریں ۔۔۔۔انسانوں سے محبت کریں ۔۔۔۔۔