سعودی عرب ، کنسرٹ میں سعودی جوان خواتین

سعودی عرب وہابیت سے تعلق توڑ رہا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں انتہائی ڈرامائی قسم کی تبدیلیاں کی ہیں ، بنیادی طور پر یہ تبدیلی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔ جنھیں ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے ۔ ملک کو جدید بنانے کی خاطر مطلوبہ اصلاحات کی راہ میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ وہابیت تھا ، بہ الفاظ دیگر امام محمد بن عبدالوہاب کے نظریات جن پر اب تک سعودی عرب چلتا آ رہا ہے۔

اب یہ سوال بہت گرم ہے کہ کیا سعودی عرب نے وہابیت سے تعلقات توڑنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ترک صحافی عمر کبلان نے . واضح رہے کہ امام محمد بن عبدالوہاب اور ان کے پیروکار اسلام کی سخت ترین تشریح کے قائل ہیں ، اور اسی پر عشروں سے سعودی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ استوار ہے۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کا ایک نیا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، وہ ماڈریٹ اسلام کی بات کر رہے ہیں ، وہ سعودی معاشرے کو تمام مذاہب کے لئے کھولنے کی بات کر رہے ہیں .محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کے اعتدال پسندانہ نہج اور فکر پر عمل پیرا ہیں۔ انتہا پسندی کی بیخ کنی سے دنیاوی مفادات کے حصول میں مدد ملے گی۔ اس فکری انتہا پسندی کے نتیجے میں مملکت کی ترقی کا سفرمتاثر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ دینی فتاویٰ زمان ومکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔

سعودی عرب ، کنسرٹ میں سعودی خواتین

ان کا کہنا ہے کہ ہم سخت نظریات کی بنیاد پر اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتے ۔ چھتیس سالہ یہ شہزادہ اپنے آپ کو اصلاحات کرنے والا اور جدت پسند رہنما ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ سعودی عرب کا ایک نیا امیج دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے ۔ اب تک وہ بہت سے ایسے کام کرچکا ہے جو سعودی عرب کے سابقہ حکمران کر نہیں سکے تھے یا کرنا نہیں چاہتے تھے۔

محمد بن سلمان نے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ہٹا دی ہے۔ مرد کی سرہرستی سے متعلق قوانین نرم کئے جاچکے ہیں۔ ایم بی ایس نے انٹر ٹینمنٹ سیکٹر میں بھاری سرمایہ کی ہے ، کوڑوں کی سزائیں اور نو عمروں کے لئے سزائے موت ختم کر دی ہے ۔ ولی عہد نے اپنے والد کی حمایت سے مذہبی پولیس کے اختیارات کم کر دئیے ہیں ۔ شہزادے کے پاس تبدیلی کا اچھا جواز موجود ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی آبادی میں 60فیصد حصہ 35سال تک کی عمر کے لوگوں کا ہے۔ ایم بی ایس کے بقول ان کے ہم عمروں کی اکثریت ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں برداشت ہو۔

محمد بن سلمان نے سعودی معیشت کو جدید بنانے کے لئے ، بالآخر تیل پر انحصار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے لیے انھیں اپنی ہم عمر آبادی کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ان کے وژن 2030 کا حصہ ہے جو معاشی و سماجی اصلاحات کا ایک پیکیج ہے۔ وہ اپنی تمام تر اصلاحات کے لئے مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لئے ہوئے ہے جو تبدیلی کے سامنے مزاحمت کر رہی ہے۔

اب ہمیں جاننا ہوگا کہ وہابیت کیا ہے ؟ 1744 میں امام عبد الوہاب نے محمد بن سعود المقرن ، جو آل سعود خاندان کے بانی تھے ، کے ساتھ اتحاد کیا ۔دونوں کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ سیاسی معاملات ابن سعود دیکھیں گے جبکہ مذہبی معاملات محمد بن عبدالوہاب ۔اسی بنیاد پر محمد بن عبدالوہاب کے پیرو کار آل سعود کی حکمرانی کو جائز قرار دیتے رہے۔ وہ آل سعود کے بادشاہوں کے فیصلوں کی توثیق بھی کرتے رہے۔ اب ایم بی ایس اس سب کچھ میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں ، وہ ماڈریٹ اسلام کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں۔

محمد بن عبدالوہاب

محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہابیت کے سخت نظریات غیر موثر ہوچکے ہیں ، جو کہ انیس سو اناسی کے بعد فروغ پائے تھے۔ یہ وہ سال تھا جب ایران میں انقلاب آیا اور انتہا پسندوں نے بیت اللہ پر قبضہ کی کوشش کی تھی۔ ان واقعات کے بعد آل سعود نے وہابیوں کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا۔اس کے نتیجے میں مذہبی علما کو ملک کے نظام تعلیم اور روزمرہ کی زندگی میں میں غیرمعمولی اختیارات عطا کردئیے۔ نتیجتا حکمران آل سعود کو دنیا میں وہابیت پھیلانے کے حوالے سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے لئے خوب ریال فراہم کئے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر سے مطالبات سامنے آنے لگے کہ سعودی عرب انتہا پسندی کی مالی معاونت نہ کرے۔

مغرب کی طرف سے مسلسل تنقید کے بعد اب محمدبن سلمان نے براہ راست مذہبی گارڈز سے ٹکر لے لی ہے، ولی عہد نے سب سے پہلے سخت گیر سعودی علما کو ہٹایا ۔ تاہم اب بعض مغربی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان علما کو وہابیت کی بنا پر نہیں ہٹایا گیا بلکہ وجہ کچھ اور ہے۔ امریکا کے فارن پالیسی میگزین نے لکھا ہے کہ زیادہ تر سخت علما کو انتہا پسندی کی وجہ سے نہیں ہٹایا گیا بلکہ ایم بی ایس کو خطرہ تھا کہ یہ علما اصلاحاتی پالیسیوں کی مخالفت اور ان کے اقتدار کے خلاف قوم کو متحرک کر سکتے ہیں۔

اصلاحات پر کروڑوں خرچ کرنے کے باوجود محمد بن سلمان تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یمن پر چڑھائی کا فیصلہ محمد بن سلمان ہی کا تھا جس کے نتیجے میں وہاں دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوا۔ یہ ایم بی ایس ہی تھے جنھوں نے دو ہزار سترہ میں قطر کا محاصرہ کیا ، انھیں امید تھی کہ وہ اس چھوٹی سی خلیجی ریاست کی معیشت کا ستیاناس کر دیں گے ، انھوں نے اپنے خاندان کے متعدد اہم افراد کو گرفتار کیا اور کاروباری شخصیات کو بھی ۔ ان کی بہت سی دولت ضبط کر لی ۔ اگرچہ محمد بن سلمان اسے کرپشن کے خلاف مہم قرار دیتے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حریفوں کو خاموش کرانے کی چال ہے۔ سی آئی اے نے جمال خشوگی کے قتل کا تعلق ایم بی ایس کے ساتھ جوڑا ہے۔ جس کا وہ انکار کرچکا ہیں۔

عشروں تک سخت گیر علما کے ساتھ آل سعود نے اپنی بقا کے لئے معاہدے کئے اور جاری رکھے ، تاہم آج یوں محسوس ہو رہا ہے ، ایم بی ایس مستقبل کے معاشی بحران کو ٹالنے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں ( وہابیوں ) سے منہ موڑ لیں کیونکہ مستقبل کا یہ بادشاہ جانتا ہے کہ ایک دن تیل کی دولت ختم ہوجائے گی ، اگر اس کے نتیجے میں معاشی بحران سے بچنا ہے تو مملکت کو جدید بنانا ہوگا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “سعودی عرب وہابیت سے تعلق توڑ رہا ہے؟”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    A Very Informative article
    People around the world already noticing some changes in K S A
    your detailed analysis is is a stamp on what we heard.
    Moreover , جو لوگ کسی بھی تحریر پر ” نہیں اچھی ” کو کلک کرتے ہیں وہ وجہ بھی بتا دیا کریں تو دوسروں کے علم میں اضافہ ھو جائے۔۔۔۔خیر ہر کوئی اپنی رائے رکھنے میں آزاد ھے۔۔۔