عبدالقدیر
گرمی کے موسم میں جس چیز کا بڑی شدت اور بے چینی سے انتظار رہتاتھا ،وہ سکول سے موسم گرما کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ کیونکہ موسم گرما کی تعطیلات کے ہوتے ہی ہمارا پہلا کام ہوتا تھا سامان باندھنا اور اپنے ماموں کے آنے کا انتظار کرنا کہ وہ آئیں اور ہمیں اپنے ساتھ گاﺅں لے کر جائیں۔ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتے تھے لہذا ہمارے ساتھ جانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ماموں ہی ہماری واحد امید ہوا کرتے تھے کیونکہ ہمارے دونوں چچا بھی اپنی نوکری کے سلسلہ میں مصروف رہتے تھے۔
ماموں کے آنے پر ہماری سب بھائیوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ اللہ نے ہمیں بہن جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے ہمارا گھر ہر وقت ایک اکھاڑے کا منظر پیش کرتا تھا (بھائیوں کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے) ۔ خیر اس موضوع پر پھر کبھی اظہار خیال ہوگا ۔ ہمارا گاﺅں جس کا نام پوٹھ ہے، مانسہرہ کے مضافات میں واقع ہے۔ مانسہرہ پہاڑی علاقہ ہے اور اپنی خوبصورتی اور صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے بہت مشہور و مصروف ہے۔ کاغان اور ناران کا سفر کرنے والے اپنا پہلا پڑاﺅ مانسہرہ ہی میں ڈالتے ہیں اور مانسہرہ کی آب و ہوا انھیں اپنے دامن میں لے کر لوریاں سناتی اور مسحور کردیتی ہے۔
گاﺅں پہنچ کر ہم بالکل ہلکا پھلکا اور اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ۔ ماموں، نانا ، نانی اور دوسرے عزیزوں کی محبت، مہمان نوازی کا خوب لطف اٹھاتے۔ ہرکوئی ہمیں اپنے گھربلانے کے لئے بے چین رہتا تھا لیکن ہماری اولین ترجیح ہماری گاﺅں سے گزرنے والی ایک بہت چھوٹی سی قدرتی نہر ہوا کرتی تھی، جسے ہم اپنی ’ ہندکو‘ زبان میں ” کٹھا “ کہتے ہیں۔ ’ ہندکو ‘ بولنے اور سمجھنے والے اس لفظ سے بخوبی آشنا ہیں۔
جب میں نے ذرا ہوش سنبھالا تو میں نے ایک آدمی کو گاﺅں کے گھروں میں پانی دیتے ہوئے دیکھا۔ پینے کے پانی کا واحد ذریعہ ایک قدرتی چشمہ تھا جو اب بھی موجود ہے اور وہ اس کٹھے کے پاس ہی تھا جس کا میں ذکر کرچکا ہوں۔ وہ صاحب پانی کا بھرا ہوا کنستر اپنے سر پر لاد کر لاتے اور گاﺅں کے کسی بھی گھر میں جاکر پوچھتے کہ پانی چاہئے۔ اگر گھر والوں کو ضرورت نہ ہوتی تو وہ کہتے ”نہیں“ ، یوں وہ صاحب کسی دوسرے گھر میں پانی دے دیتے۔ ان صاحب کو ’ باجی جی ‘ کہا جاتا تھا۔ ان کا تعلق سواتی قوم سے تھا۔
وہ گاﺅں والوں سے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ اگر کوئی زبردستی کچھ پیسے دے دیتا تو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے اور جو بھی پہلا شخص سامنے آتا تو اسے وہ پیسے دے دیتے۔ گاﺅں کے لوگ ان کے دیے ہوئے پیسے خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پاس سنبھال کر رکھتے۔ پیسے کیا بلکہ ’ باجی جی ‘ کوئی بھی چیز کسی کو دیتے تو وہ اسے تبرک سمجھتا اور اسے سنبھال کر رکھتا تھا۔ کبھی کبھار کوئی کھانے کے لئے کچھ دیتا ، طبعیت ہوتی تو وہیں بیٹھ کر کھالیتے یا روٹی ہاتھ میں پکڑ کر لے جاتے تو اس گھر والوں کی خوشی دیدنی ہوتی کہ ’باجی جی‘ ہمارے گھر سے کچھ لے کر گئے ہیں۔
گاﺅں سے وہ ’ کٹھا ‘ تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ برسوں پہلے راستہ بھی کافی دشوار تھا لیکن ’ باجی جی‘ صبح ’ اللہ اکبر‘ کی صدا کے ساتھ ہی اس کام پر لگ جاتے ار مغرب تک مصروف رہتے۔ لوگ انھیں’ باجی جی‘ کے نام سے کیوں پکارتے تھے؟ ہمارے علاقے میں ”باجی“ کا لفظ عزت و توقیر کی علامت ہے اور لوگ صرف سید برادری کے لئے یہ لفظ استعمال کرتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سید حضرات کی توقیر کی جارہی ہے۔
’ باجی جی ‘ کا اصل نام عبدالقیوم تھا تاہم وہ سید نہیں تھے مگر انھیں عزت دینے کے لئے لوگ ’ باجی جی‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ان کی پیدائش1921ءمیں ہوئی تھی۔پرانے دور کے گریجویٹ تھے۔ ان کے ہم عصر لوگ کہتے ہیں کہ وہ انگریزی زبان بھی فر فر بولا کرتے تھے لیکن پھر ایک وقت آیا جب وہ تصوف کا مطالعہ کرنے لگے اور پھر ایک نئی دنیا میں داخل ہوگئے۔
عبدالقیوم باجی جی خود کسی سے بات بہت کم کرتے تھے ۔ کوئی مخاطب کرتا تو اپنی مرضی کا جواب دیتے۔ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ جواب کا بات کرنے والے کی بات سے کوئی ربط بھی ہو۔ ’ باجی جی ‘ کے بارے میں مختلف باتیں مشہورتھیں۔ کوئی کہتا کہ بزرگ ہیں، اللہ والے ہیں، اس لئے اس حال میں رہتے ہیں۔ کوئی کہتا کہ ملنگ اور مجذوب ہیں۔ اصل حال اللہ ہی جانتاہے لیکن ایک بات جو سب کو معلوم تھی کہ چلہ کاٹنے کے بعد وہ اللہ والے یا مجذوب ہوگئے تھے۔
لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ چلہ کے دوران ’ باجی جی ‘ شاید ڈر گئے تھے کیونکہ کٹھا گاﺅں سے باہر ایک ویران جگہ پر تھا اور گاﺅں کے لوگ مغرب کے وقت وہاں نہیں جاتے تھے۔ باجی جی کو چلہ کرنے کے لئے وہاں چالیس دن مسلسل بیٹھنا تھا یا وہ بیٹھے تھے۔ دن رات وہیں بسر کرتے تھے۔ جب مجھے یہ باتیں پتہ چلیں تو ’ باجی جی‘ کے لئے میرے دل میں عقیدت کے جذبات ابھرے۔ میری بھی یہ خواہش رہنے لگی کہ جب بھی ان سے ملاقات ہو ، میں بھی ان سے دعا کی درخواست کروں گا۔
جب کوئی ان سے دعا کی درخواست کرتا تو وہ عموماً زمین پر بیٹھ جاتے اور زمین پر ہاتھ لگا کر اپنے ماتھے کو لگاتے ۔ یہ عمل وہ کئی دفعہ دوہراتے یا کھڑے کھڑے کچھ پڑھنا شروع کردیتے ، جس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ دعا کر رہے ہیں۔ اکثر ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلتے جو کم ہی سمجھ میں آتے تھے یا جو بے ربط ہوتے تھے لیکن گاﺅں کے لوگوں کا یہ ماننا تھاکہ وہ بات اشاروں کنایوں میں کرتے ہیں ۔ اور یہ بات آزمائی ہوئی تھی ۔ یعنی ان کی بات کسی واقعہ کی طرف کوئی اشارہ ہوتی تھی۔
جو لوگ مانسہرہ کے موسم کوجانتے ہیں، انھیں پتہ ہے کہ مانسہرہ میں شدید سردی پڑتی ہے لیکن ’ باجی جی ‘ سردی کے موسم میں بھی صرف ایک شلوار قمیص میں نظر آتے تھے۔ اگر کوئی کچھ اوپر پہنا دیتا تو وہ لے لیتے مگر پھرکسی کو دے دیتے تھے۔ میں جب بھی گاﺅں جاتا تو میری خواہش ہوتی تھی کہ جلد ازجلد ’ باجی جی ‘ سے ملاقات ہو اور میں ان سے دعا کی گزارش کروں۔ پھرمیرے ساتھ دو واقعات رونما ہوئے ، چنانچہ میں سمجھ گیا کہ ’ باجی جی ‘ واقعی اللہ والے ہیں۔
پہلا واقعہ یوں ہوا کہ میرے ماموں زاد کی شادی تھی۔ میرے ایک خالہ زاد جو پی او ایف واہ میں ملازمت کرتے تھے اور واہ کے علاقہ میں ہی رہائش پذیر تھے، اپنے گھر کو تالا لگا کر اس شادی میں شرکت کے لئے گاﺅں آئے ہوئے تھے۔ ’ باجی جی ‘ سے ملاقات ہونے پر میری خالہ نے ان سے حسب معمول دعا کی درخواست کی تو ’ باجی جی ‘ نے دعا کرنے کے بجائے جواب دیا:
” آدمی چاہے جتنا بندوبست کرے ِ چاہے جتنے بھی تالے لگائے، لوگ اپنا کام کرجاتے ہیں“۔
اتنا کہہ کر وہ چلے گئے ۔ اگلی صبح میرے خالہ زاد کو فون موصول ہوا کہ واہ میں تمہارے گھر چوری ہوگئی ہے، تم فوراً پہنچو۔
اب دوسرا واقعہ جان لیجئے۔ میری والدہ ایک دفعہ گاﺅں گئیں تو ان کی ’ باجی جی ‘ سے ملاقات ہوئی ۔ میری والدہ نے اپنے بچوں یعنی ہم سب کے لئے دعا کی درخواست کی تو ’ باجی جی ‘ نے جواب دیا :
” دعا کریں اللہ والدین کو جنت الفردوس میں جگہ دے ۔“ یہ کہہ کر چلے گئے۔ ٹھیک 15روز میری نانی اماں کا انتقال ہوگیا۔ حالانکہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں۔
اب میں مزید دو واقعات کا ذکر کرتا ہوں جو دیگر لوگوں کے ساتھ پیش آئے۔ ایک دن قیوم باجی ایک گھر میں گئے، انھوں نے گھر والوں سے پوچھا:
” کیا پکا ہوا ہے؟“
پھر کہنے لگے:” مجھے جلدی جلدی سالن روٹی دے دو، آپ کے گھر کوئی مہمان آنے والا ہے۔“
وہ کھانا کھا کر چلے گئے، قریباً گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایک آدمی آیا ، اس نے کہا کہ ” واہ فیکٹری میں جو آپ کی بھانجی تھی، اس کا انتقال ہوگیا ہے۔“
ہمارے گاﺅں میں میرے ایک کزن ہیں جو ریٹائرڈ سب انسپکٹر ہیں۔ ایک دن میرے کزن پاﺅں لٹکا کر چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ’ قیوم باجی ‘ آگئے اور میرے کزن کے قدموں کے قریب زمین پر ہی بیٹھ گئے۔ میرے کزن فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے کہ
” قیوم باجی ! یہ آپ کیا کررہے ہیں، کیوں مجھے گنہ گار کررہے ہیں؟ “
قیوم باجی کہنے لگے: ” تمھیں نہیں پتہ کہ تمھارے ان قدموں نے کہاں جانا ہے۔“
میرے کزن نے کافی پہلے سے خدام الحجاج میں درخواست دی ہوئی تھی، قیوم باجی نے جب یہ بات کہی تو اگلے ہی دنوں ان کی درخواست منظور ہوگئی۔ قیوم باجی مبارکباد دینے گھر آئے اور میرے کزن کو ایک کپڑا دے کر کہا کہ جب خانہ کعبہ پر نظر پڑے تو یہ کپڑا وہاں ہی زمین پر گرا دینا۔ میرے کزن نے بالکل اسی طرح کیا اور کپڑا گرا دیا ۔ پتہ نہیں کہ اس میں کیا اسرار چھپا ہوا تھا۔
جیسا کہ سابقہ سطور میں لکھ چکا ہوں کہ ’ باجی جی ‘ کو ملنے کا اشتیاق میرے دل میں ہروقت رہتا تھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی میں دعا کی درخواست کرتا تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بولتے ہوئے چلے جاتے۔
ملازمت اور دیگر گھریلو ذمہ د اریوں کی وجہ سے گاﺅں کے چکر لگنے کم ہوگئے مگر کوئی بھی گاﺅں سے آتا تو میں ’ باجی جی ‘ کا ضرور پوچھتا۔ وہ کافی بوڑھے ہوگئے تھے اور گاﺅں کے گھروں میں پانی دینا بھی انھوں نے چھوڑ دیا تھا۔ کبھی دل کرتا تو گھر سے نکلتے ( اپنے بھتیجوں کے پاس رہتے تھے) اور گاﺅں کی گلیوں کا چکر لگا کر واپس چلے جاتے۔
گاﺅں ایک شادی پر جانا ہوا تو ’ باجی جی ‘سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت کمزور ہوچکے تھے، حسب معمول دعا کی درخواست کی۔ کھڑے کھڑے انھوں نے دعا کی۔ میں نے کچھ پیش کیا تو مجھ سے لے لیا اور تھوڑی دیر بعد کسی اور کو دے دیا۔ کچھ باتیں کیں پھر روانہ ہوگئے۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ ایک دن اتوار کو میں اپنے گھر واقع اسلام آباد میں تھا کہ ان کی فوتیدگی کی خبر ملی۔ 9ستمبر2018 کو ان کا انتقال ہوا۔ دفتری مصروفیت کی وجہ سے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ اس کے بعد جب گاﺅں گیا تو تو فوراً ان کی قبر پر حاضری دی۔ گاﺅں میں ہی ان کی قبر مبارک ہے۔ وفات کے وقت اس صاحبِ کشف بزرگکی عمر 96 برس تھی۔ گاﺅں والے اب بھی اسی طرح ادب کے ساتھ ان کی قبر پر حاضری دیتے ہیں جس طرح ان کی زندگی میں ان سے ملا کرتے تھے۔
2 پر “مانسہرہ کے صاحب کشف ’ باجی جی‘ کا حیرت انگیز تذکرہ” جوابات
بہت دلچسپ تحریر ہے اور تصاویر نے تو ہمیں بھی ” باجی جی ” کے دیدار کروا دیئے ۔۔۔بے شک سچے اللہ والے مادہ پرست نہیں ھوتے۔
بہت شکریہ زبیدہ رٶف صاحبہ آپ نے حوصلہ افزاٸ کی۔ اگر آپ نے باجی جی سے ملاقات کی ہوتی تو آپ بھی ان کے نیاز مندوں میں شامل ہوتیں۔