ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر
گیارہ نومبر 2009 کی’ ٹھنڈی سانس‘ لیتی دوپہر تھی ۔ میں شعبہ اردو کشمیریونیورسٹی سے کلاسز دے کر نماز ظہر کے لئے کیمپس کی جامع مسجد کی طرف قدم رنجہ تھا ۔ قطرہ آب اعضاء کو تر کر ہی رہے تھے کہ ایک خبر گوش گزار ہوئی کہ مرحوم سید علی شاہ گیلانی جامع کشمیرپہنچے ہیں اور بابِ سر سید (Sir Syed Gate)پر اندر آنے کی تاک میں ہیں ۔ شوقِ دید تھا ، اس لئے سُرعت سے وضو کیا اور سر سید گیٹ کی طرف چل پڑا ۔ مرحوم تک پہنچنے کے لئے برق رفتاری سے طلباء مانو ’بہہ‘ رہے تھے۔ طالبات بھی تیز قدموں سے بزرگ رہنما کے دیدار کے لئے سب مصروفیتیں ترک کرکے جوق درجوق آرہی تھیں ۔
جونہی ہم گیٹ پرپہنچے تو خود کو ہم نے ’ حبسِ بے جا ‘میں پایا کیونکہ سرسید گیٹ پر تالا چڑھا دیا گیا تھا ۔ مرحوم اپنے چند رفقاء کی معیت میں دروازے کے دوسری جانب کھڑے تھے ۔ یونیورسٹی کے عہدیداران نے گیلانی صاحب کے داخلے پر پابندی لگائی تھی ۔ غم و غصہ فطری تھا ۔ آخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور طلباء کے غصّے کو دیکھ کر یونیورسٹی عملہ وہاں سے ’فرار‘ہوا اور طلباء نے بابِ سرسید کو بزور بازو ہلایا ۔ قدرت کا کرنا کہ تالا ٹوٹا اور مرحوم سیدعلی شاہ گیلانی کیمپس میں داخل ہوئے ۔
قائد کے قدم نے جونہی بابِ سرسید عبور کیا۔ طلباء کے مُرجھائے ہوئے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کوئی ہاتھوں کوچُوم رہا تھا اور کوئی ان شانوں پر بازو ڈال کے گلے مل رہا تھا جو کہ بازو ڈال کے گلے مل رہا تھا جوکہ بظاہر ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا لیکن بباطن عزم وہمت کا کوہِ گراں
جہان تازہ کي افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہيں جہاں پيدا
خودي ميں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے
اس آبجو سے کيے بحر بے کراں پيدا
طلباء و طالبات کاسیلِ رواں تھا ۔ نماز ظہر ادا ہو چکی تھی اس لئے وہاں موجود طلباء نے مسجد کے باہر ہی صحن (Lawn) میں مرحوم کی امامت میں نماز ظہر ادا کی ۔ نماز سے فارغ ہو کر’ اقبال لائبریری ‘کے سامنے ، ایک گاڑی کے اوپر چڑھ کر گیلانی صاحب نے تقریر کی ۔
تقریرکے دوران ہی گیلانی صاحب نے ریاستی سرکار کی اردو زبان کے حوالے سے بے توجہی کی طرف اشارہ کیا ۔ اقبال لائبریری کی بلند قامت عمارت پریونیورسٹی ’لوگو‘ (Logo) ’ مِنَ الظُّلُمٰتِ الیٰ النّور‘کی طرف انگشت نمائی کرکے کہا کہ لوگو (Logo) تین زبانوں میں ہے ( عربی ‘انگریزی اور دیوناگری ) سوائے اردو کے ©‘حالانکہ اردو ریاست میں سرکاری زبان ہے لیکن سرکاری دفاتر میں اس زبان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی وقت کی ضرورت ہے ، اس سے لا تعلقی کسی بھی درجہ میں قابل قبول نہیں لیکن ہماری تہذیب ہمارے دینی امور کی تشریح ، تعمیر اخلاق کے اسباق اور ہماری تاریخ اردو زبان میں ہی محفوظ ہیں ، لیکن حکمران طبقہ اردوزبان کے ساتھ سوتیلی ماں کاسلوک کر رہا ہے۔
انہوںنے کہا ’ اردو زبان کے ساتھ ان کایہ رویہ کوئی حیران کن عمل نہیں ہے ۔ لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ میر کی جگر سوزی ، غالب کے کلام کی رعنائی ، سرسید کی مساعی ، اقبال کا پیغام ، جوش کا ولولہ ، فیض کی خامہ فرسائی اور مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کا قلم اردوزبان کی پشت پر ہے ۔ یہ زبان سازشوں کی نظر ہو گی اور نہ اسے مٹانا آسان ہے ۔ ‘محبان اردو کی روش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے تعلیمی اداروں میں اردو کی تدریس کو یقینی بنائیں۔
سماج میں اردو کی تعلیم کی بیداری مہم کو تحریکی شکل دی جائے اور اس کے ساتھ ہی نئی نسل کے والدین کو تیار کیا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم لازمی طور پر دیں۔ دستوری طور پر ہی اردو کو ریاست جموں و کشمیر میں صحیح مقام مل سکتا ہے۔ دانشوروں اور اہل علم کو اس مقصد کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ اردو کے حق کو بحال کرنے کے لئے فی الفور سنجیدہ کوششوں کاآغاز ہو اور لائحہ عمل تیار کر کے اخلاص کے ساتھ اردو کے حق کی بحالی کی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے اور اردو کے ساتھ روزگار کو جوڑنے کی پر زور تلقین کی جائے ۔
اردو غیر منقسم ہندوستان کی واحد ایسی زبان رہی ہے جس میں قانون ، فلسفہ ، سماجی علوم ، سائنس کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔آج دنیابھر میں اردو کی نئی نئی بستیاں آبادہو رہی ہیں۔ UNESCO کے ایک جائزے کے مطابق اردو دنیا میں بولی جانے والی دوسری اورپڑھی جانے والی تیسری زبان ہے ۔ پروفیسر آل احمدسرور نے کشمیر کو اردو کی آخری آماجگاہ قرار دیا تھا ۔ لیکن واقع یہ ہے کہ اردو کے تحفظ اور فروغ کی ضرورت اور اس کے آئینی حق کے بارے میں حکومتیں غیرسنجیدہ ثابت ہوتی رہی ہیں۔
سرکاری زبان کادرجہ جس زبان کو ملتا ہے ، اس کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر بھرپور کوشش ہوتی ہے ، جامع حکمت عملی مرتب ہوتی ہے ، رقوم مختص کی جاتی ہیں ۔ ثقافتی ، تعلیمی اور دیگر اداروں میں اس کے عمل درآمد کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں لیکن ریاست جموں و کشمیر میں اردو کی آئینی حیثیت اب ایک عرصہ سے بعض حلقوں کے لئے محض خوش فہمی کاسامان ہے اور بعض کے لئے واویلا مچانے کا بہانہ۔ اس پر مستزاد یہ کہ اربابِ’ حل وعقد‘ اردو کی ٹانگ کچھائی کے مذموم ایجنڈے پر مصروف عمل ہیں!
جو رستوں سے ہیں واقف اور نہ منزل کا پتہ جن کو
عجب عالم ہے‘شامل ہیں ہمارے سربراہوں میں
(ساغر)
تقسیم ہند کے بعد اردو کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اور تعصب و تنگ نظری کے باوجود لسانی آداب ، تہذیب و شائستگی ، اورمعیار و وقارکے اعتبار سے اردو کی ہردل عزیزی ملک گیر سطح پر ظاہر ہے۔
ذرائع ابلاغ ، میڈیا اور فلموں کے ذریعے آج بھی اردو ہی کابول بالا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستان کے قومی ترانوں میں آج بھی ’سارے جہاں سے اچھا ، ہندوستان ہمارا‘ سے زیادہ مقبول کوئی ترانہ نہیں ۔ آنجہانی گاندھی جی بھی اس ترانے کوبہت پسند کرتے تھے ۔ پنڈت نہرو جی آزادی کے بعد اس کو قومی ترانہ (National Anthem) بنانے کا عندیہ دے چکے تھے لیکن بعدمیں تعصب اور تنگ نظری و عدم برداشت آڑے آیا۔
بات سیدعلی گیلانی کی یونیورسٹی آمد کی ہو رہی تھی۔ پُر سوز اور موثر خطاب کے بعد موصوف اپنی کار میں بیٹھ کر’ اقبال لائبریری‘ کے گیٹ تک گئے۔ منظر قابل دید تھا ۔ یونیورسٹی میں بتائے دس سالوں میں یہ پہلی گاڑی ہے ، جوراقم نے لائبریری کے گیٹ تک جاتے ہوئے دیکھی ہے ۔ طلباء و اسکالرز لائبریری سڑک کے اطراف میں ہر دل عزیز قائد کے حق میں قصیدے گا رہے تھے ۔ پُرجوش منظر ، آبدیدہ چشم ، ایساسماں کہ قلم عکس بندی سے قاصر!
لائبریری میں موجود عملہ اور طلباء سات منزلوں تک کھڑکیوں سے جھانک کر محظوظ ہو رہے تھے اور یہ یادگار لمحہ اپنی آنکھوں میں محفوظ کر رہے تھے۔ گیلانی صاحب لائبریری میں داخل ہوئے ۔ لائبریرین سے مختصر گفت وشنید کے بعد اپنی تحریر کردہ چندتصانیف لائبریری کو وقف کیں۔ طلباءکاجم غفیر لائبریری کے باہر لان (Lawn)میں چشم براہ مرحوم کے منتظر تھے۔۔۔۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ سیدعلی شاہ گیلانی اپنی چندتصانیف وقف کرنے یونیورسٹی آئے تھے ۔ مرحوم کثیر الجہات شخصیت تھے ۔تحریک اسلامی کے صف اول کے رہنما ، برصغیر کے موثر خطیب و شعلہ بیان مقرر ، قائد بے بدل ، تاریخ کشمیر کے امین ۔ علاوہ ازیں موصوف فارسی و اردو ادب کے شناسا بھی تھے۔ اردو زبان میں ہی فصیح و بلیغ تقریریں کرتے تھے۔ فارسی و اردو اشعار ازبر تھے اور موقع و محل دیکھ کر ’بزم سخن‘ سجاتے تھے۔ ان کے کلام کی چاشنی اردوزبان کی حلاوت سامعین و ناظرین کے دلوں کومحظوظ کرتی تھی۔
مرحوم نے اردوزبان میں کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ رودادِ قفس ( دوجلد ) ، مقتل سے واپسی ، مقدمہ الحاق ، ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا ، صدائے درد (اول تا سوم ) ، سفر محمود میں ذکرمظلوم ، رسول رحمت عصر حاضر میں ، پس چہ بایدکرد ، امیدبہار ، اقبال ۔روح دین کاشناسا (دو جلد) اور ولر کنارے ( تین جلد) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اپنی کتابوں میں اردو ادب کی مختلف اصناف کو ان کے قلم نے محفوظ کیا ہے ؛ جن میں آپ بیتی ، خاکہ ، سوانح حیات ، خودنوشت ، انشائیہ ، مضمون نگاری ، مکتوب نگاری اور سفرنامہ غرض کہ غیر افسانوی ادب کے نقوش ان کی تصانیف میں پائے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال سے گیلانی صاحب کی دلی وابستگی تھی ۔ وہ انہیں روحانی مرشد تصور کرتے تھے ۔ مرحوم کی فکری و نظریاتی اڑان میں مولانامودودی کے نثر اور علامہ اقبال کی ’نظم‘ کا بڑا حصہ ہے ۔ علامہ کے فارسی کلام کے چنندہ حصوں کی تشریح اردو زبان میں گیلانی صاحب نے اپنی کتاب ’اقبال ۔روحِ دین کاشناسا‘میں کیا ہے ۔ کشمیر کا عوامی حلقہ اقبال کو زیادہ تر اُن کے اردو کلام سے جانتا ہے۔ حالانکہ فکرِ اقبال اصل میں ان کے فارسی کلام میں پوشیدہ ہے۔ مرحوم گیلانی صاحب نے فارسی کلام کو اردو میں منتقل کر کے کشمیری قارئین کے لئے اقبالیات کوسمجھنے کی ایک نئی راہ وا کی۔
’ولر کنارے ‘ سیدعلی گیلانی کی آپ بیتی یا خودنوشت سوانح حیات ہے ۔ مرحوم نے سادہ و حسین نثر میں اپنے احساسات قرطاسِ ابیض پر بکھیر دیے ہیں ۔ اپنے آبائی گاﺅں کی منظر کشی بڑے دل نشین پیرائے میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’زوری منزکی بستی ؛ بائیں طرف نہر’زینہ گیر‘ کے بہاﺅ کی طرف رہتی ہے ۔جہاں سے کوئی سڑک ’زوری منز‘ کی طرف نہیں جاتی ہے بلکہ نہر زینہ گیر پر بنے ہوئے بنڈ پر سے ہی پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔ یہ نہر پہاڑ کے دامن میں بہہ رہی ہے ۔ اس پربنے بنڈ سے جب آپ زوری منز کی طرف جائیں گے ، دائیں طرف پہاڑی اور بائیں جانب وُلر کا آسمانی رنگ کا چمکتا ہوا پانی بار بار آپ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کراتا رہے گا ۔ وُلر کوگھیرے ہوئے تحصیل بانڈی پورہ ، تحصیل سونا واری کے دامنِ وُلر میں واقع بستیاں ہیں ۔ آپ کو سر سبز و شاداب درختوں کے جھرمٹ کی شکل میں آنکھوں میں طراوت و ٹھنڈک پیدا کرتے ہوئے خراماں خراماں سفر میں ساتھ رہیں گی۔اگر سینچائی کے موسم میں آپ یہ سفر کریں گے تو نہر زینہ گیر کا برفیلا پانی دھیرے دھیرے بہتے ہوئے آپ کے قدموں کی چاپ کے ساتھ ہمقدم رہے گا ۔‘(وُلرکنارے ۔جلد1،ص37)
ادب فنون لطیفہ کی اہم ترین شاخ ہے۔ حسن خیال ، مواد کی ترتیب اور الفاظ کے موزوں و حسین استعمال کے ذریعے ادب وجود میں آتا ہے ۔ غیرافسانوی ادب کی بنیاد حقیقت اور واقفیت پسندی پر رکھی جاتی ہے ۔ دنیا کی حقیقتوں ، مسائل ، تجربات ، مشاہدات اور احساسات کو کہانی کے رنگ کے بغیر پیش کرنا غیر افسانوی ادب کی علامت ہے اور سیدعلی گیلانی کی تحریرات بھی ان اصولوں پرکسی حدتک پورا اترتی ہیں۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیدعلی گیلانی مستقل طور پر ایک منجھے ہوئے ادیب نہیں تھے ۔ اس لئے ان کی تحریروں میں ادب کی وہ چاشنی اور کلام کی رعنائی نہیں ملتی لیکن بہرحال اتنی مصروفیات کے بعد بھی اردو زبان و ادب کے ساتھ اتنی دلچسپی کہ ان کی یہ بساط بھر کوشش قابل اعتناء ہے ۔ ناسازی صحت ، قیدو بندکی صعوبتیں ، شورشوں کی اضطراب انگیز فضامیں رہ کر اتنی تصانیف چھوڑ جانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ زندانی ادب پر کام ہونا چاہیے ۔ بیشتر شعراء‘ مشاہیر اور سیاستدانوں نے زندانی ادب (جیل ڈائری )ترتیب دی ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اس صنف کو ادب میںمستقل طور پر متعارف کرایا جائے
بہ منزل کوش ، مانندمَہ نَو دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو
مقامِ خویش اگرخواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفےٰ رُو! (اقبال)