خوشی اور غم میں طرز عمل کیسا ہونا چاہئیے؟

خوشی اور غم میں طرز عمل کیسا ہونا چاہئیے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ

اسلام میں داخل ہوتے ہی اس کا مطالبہ ایک ہی ہے ، ” ادخلوا فی السلم کافہ ” اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو ۔
یعنی مسلمان ہوکر عقیدہ ، عبادت معاملات ہر چیز اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس کو ایک اور آیت میں ” ان صلاتی و نسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمین” کہا گیا ۔ بے شک میری نماز ، میرے رسم و رواج ، میری زندگی ، میری موت سب اللہ دو جہانوں کے رب کے لیے ہے
باقی کیا رہ گیا؟؟؟؟
رسم و رواج یا طور طریقوں میں ہر چیز شامل ہے ، خواہ اس کا تعلق غمی سے ہو یا خوشی سے ۔!

غم اور خوشی دونوں دن رات کی طرح ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں . دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو یہ کہے کہ ساری زندگی مجھے کسی غم سے واسطہ نہیں پڑا یا کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میری زندگی میں سوائے غموں کے کچھ نہیں اور مجھے کبھی خوشی نہیں ملی ۔ یہ بالکل غلط ہے. اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا ” لقد خلقنا الانسان فی کبد ” ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ، ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شر اور خیر کی طرح ہر انسان کی زندگی میں غم اور خوشی کی مقدار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ۔

پھر یہ بھی کہ کوئی بڑی ساری خوشی پر بھی بے نیاز رہتا ہے ، اس کے حساب سے یہ نہیں ، خوشی اس سے بھی بڑی نعمت کو کہتے ہیں اور معمولی سی تکلیف یا دکھ پر اسے بہت بڑا سانحہ سمجھ لیتا ہے.

انسانوں کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ چھوٹی سی خوشی پر بھرپور شکرانہ ادا کرتے ہیں اور بڑے دکھوں پر صبر کا دامن نہیں چھوڑتے ۔ اس لیے کہ یا توان کا ایمان توانا ہوتا ہے اور ” ان مع العسر یسرا ” پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ بالعموم لوگ کہتے ہیں ہر غم کے بعد خوشی ہوتی ہے لیکن اس آیت میں اللہ رب العزت نے ایک تنگی کے ” ساتھ ” دو آسانیوں کا وعدہ کیا ہے

ایک مومن خوشی اور غمی ہر دو حالتوں میں اسلام کے دائرے میں رہتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام خوشی کے موقع پر بھی ‘ جو چاہے کرو ‘ کی چھٹی نہیں دیتا اور غم میں بھی اس کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہوتی ہے جس کے مطابق جتنی آزمائشیں اور تکلیفیں ان پر آئیں کسی اور ہر نہیں آئیں

فراغت میں سوچتے جائیے ، بن باپ کے پیدا ہوئے ، ماں کی ممتا بھی چھن گئی ، دادا نے شفقت سے رکھا تو وہ بھی گئے ، شادی کے بعد نبوت کا ملنا تھا کہ سوشل بائیکاٹ۔۔!!!

خاندان اور پوری برادری نے ایکا کر لیا کہ غمی ہو یا خوشی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو شرکت نہیں کرنے دینی ) پھر غربت ، برادری اور سگے چچا چچی کی حددرجہ دشمنی ، اذیتیں ، رکاوٹیں . بیوی اور پیارے چچا کا وصال ، اپنا جم پل مکہ چھوڑنا پڑا ، بیٹیوں کو اسلام دشمنی کی وجہ سے طلاق !!! قاتلانہ حملے کبھی زہر ، کبھی پتھر کی طاقت سے خاتمے کی کوشش ۔ آپ سے سیدہ عائشہ صدیقہ نے دریافت کیا آپ کی زندگی میں کون سا دن یا واقعہ سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا ؟؟ ان کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بس سیدہ خدیجہ کی وفات کا بتائیں گے لیکن آپ کے الفاظ میں طائف کا دن ۔۔ ! جب طائف والوں نے آوارہ لونڈے پیچھے لگا دئیے تھے ۔ اور پتھر مارے جس سے جوتے لہو لہان ہوگئے ۔
یہ چشم تصور سے دیکھیں پھر سمجھ میں آئے گا !!

ان سب کے علاوہ بھی دکھ ہیں ، امہات المومنین کے فرمان کے مطابق ہم پر دو دو تین تین چاند طلوع ہوجاتے اور گھر میں چولہا نہ جلتا ہمارا گزارہ دو کالی اور سفید چیزوں پر ہوتا . سفید سے مراد بکری کا دودھ اور کالی چیز سے مراد کھجور ۔ اس کو بھی سوچیے دو گھنٹے کے لیے گیس بند ہو جائے یا سلنڈر نہ ملے تو کیا حالات ہوتے ہیں ۔ پھر چار بیٹیوں کے بعد ملنے والا ، سیدہ ماریہ قبطیہ سے پیدا ہونے والا بیٹا ابراہیم ۔ باپ کو پہچاننے لگا ہے تو دینے والے نےامانت واپس لے لی !!!

بس زندگی میں جو بھی غم آئے ، سوچ لیجیے یہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والے غموں سے چھوٹا ہے اور غم تو اللہ سے ملاتا ہے ۔ غم کچھ لوگوں کے لیے خوش قسمتی لے کے آتا ہے ، انہیں معرفت ملتی ہے ، قرب الہی کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔

ایک فارمولا ذہن میں رکھیے جو احادیث میں موجود ہے کہ دنیا کے معاملات میں اپنے سے نیچے اور دین کے معاملےمیں اپنے سے برتر لوگوں کو دیکھیے ، آپ کو اطمینان میسر ہوجائے گا ۔ دنیا آپ سے زیادہ دکھی لوگوں سے بھری پڑی یے . ہاں ! اس شخص کا کوئی علاج نہیں جو یہ سمجھے کہ اس کا غم ہی سب سے بڑا ہے !!

غم میں سکینت کے لیے انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ بہت کارگر ہیں اور ارشاد ربانی ہے” واستعینو بالصبر والصلوات”
مشکل میں نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو

غم میں کون نماز پڑھتا ہے ، الا ماشاءاللہ اور رو دھو کے تھک گیے تو اسے صبر نہیں کہتے ،صبر تو وہ یے جو صدمے کی پہلی چوٹ پر کیا جاتا ہے.
خوشی اللہ کی توفیق سے ملتی ہے جب بندہ اپنی محنت اور کمائی کا صلہ سمجھتا ہے تو اس خوشی سے برکت اٹھ جاتی ہے . قارون کو یاد کرلیں دولت ملنے پر یہی کہا یہ تو میرے علم کی بناء پر عطا کی گئی!!

نہیں ! پہلے تصور درست کریں ” انہ اضحک و ابک ” بے شک وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے ۔ اچھے نمبر ملیں یا نوکری ،صاحب اولاد ہوئے یا گھر بار کی نعمت ۔ بھلے اپ کی محنتوں کا ثمر ہو لیکن مومن کی شان اسے اللہ سے منسوب کرنا ہی یے . بچوں میں یہ عادت پختہ کیجئیے
اللہ نے اتنے اچھے نمبر دلواے
اللہ نے فلاں جو بیٹی دی ، اس کے بعد خوشی میں اللہ رب العزت کا شکرانہ ہے ۔ بندہ معمولی سی خوشی پر اپنی اوقات بھول جاتا ہے ۔ شیخی خورہ بن جاتا ہے آپے سے باہر ہوجاتا ہے. یاد رکھیے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی سے بڑی نعمت عطا ہوئی ، تاریخ کے ہر شعبے میں ان سے بڑا نام ہوئی نہیں لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مطابق ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی ایسے ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کی داڑھیں بھی نظر انے لگیں .

جتنی بڑی خوشی اتنی ہی عاجزی ۔ ہم تو ایک ٹرافی لے کر دونوں ہاتھ فخریہ اوپر بلند کرتے ہیں . آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کا معرکہ ناقابل یقین حالات میں جیتا ، قرآن اسے فتح مبین قرار دیتا ہے ، مکہ فتح کیا ۔ بتا دیجیے کتنے نعرے لگوائے ، کتنے ڈھول ڈھمکے سے دنیا کو فاتح ہونے کا بتلایا ۔ اسوہ کاملہ یہی ہے کہ شکر ،خوشی کو بڑھانے والی چیز ہے اور ہم بقول مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم ، شادی بیاہ کے موقع پر اتنے خوش ہوتے ہیں کہ کسی کمی کمین کو بھی ناراض نہیں کرتے ۔ ہاں اللہ کی نافرمانی جتنی بھی ہوجائے اسے اس وقت اہمیت ہی نہیں دی جاتی ۔!

قابل رشک انسان وہ ہے جو خوشی میں بھی اللہ کی رضا کا خیال رکھتا ہے مگر ہم غموں کی طرح خوشیوں کو بھی گناہوں کے پہاڑ کمانے اور بنانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ۔ خوشی کی خبر ملتے ہی مسکرانا ، الحمد للّٰہ کہنا ، شکرانہ ادا کرنا سب مسنون اعمال ہیں ۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ انسان کی سب سے بڑی خوشی جنت کا حصول ہو سکتی ہے جنت میں داخل ہوتے وقت بھی وہ الحمدللہ کہہ رہا ہوگا !!

دنیا میں جس نے خوشیوں پر رب کو ناراض کیا ، الحمد للّٰہ کی عادت ہی نہ تھی ، روز حشر وہ جنت ملنے پر یہ الفاظ کیسے کہے گا؟؟؟

بچہ پیدا ہونے پر ، نکاح کے بابرکت موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے جو بھی دعائیں پتہ چلتی ہیں وہ برکت کی ہیں ۔ آپ کو دعائیں نہیں یاد ، کوئی ہرج نہیں ” بارک اللہ فیک ” کہہ دیجئیے ۔ برکت اللہ کی طرف سے تحفہ ہے

حسن بصری کے ہاں بیٹا پیدا ہوا . ایک شخص نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا
مبارک ہو شاہ سوار آگیا
فوری بولے : تمہیں کیا خبر یہ شاہسوار ہے یا گدھا سوار ، تم نے وہ الفاظ کیوں نہ کہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں . اس نے پوچھا تو نومولود کی پیدائش پر مسنون دعا بتائی۔
اس کے علاوہ دوسروں کی خوشی پر اظہار مسرت بھی کرنا چاہئیے ، یہ بھی مستحب ہے ( اب اظہار حسرت ہوتا ہے )

نکاح شادی پر بھی برکت اور خیر کی دعا دینا پسندیدہ عمل ہے . حضرت عقیل ابن عباس کی شادی پر کسی نے برسہا برس سے عربوں میں رائج دعا دی ۔۔” الرفآء والبنین ” گھلو ملو اور بیٹے پیدا ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہو ” بارک اللہ فیک و بارک لک فیھا”
یہ دعائیں الفاظ کے ردوبدل سے کئی طرح کی ملتی ہیں اس خوشی کے موقع پر سلامیاں دینے کے ساتھ دعاؤں کا بھی خوب اہتمام کیجئیے ۔ رب اوذعنی ان اشکر نعمتک التی ،کتنی خوبصورت دعا ہے کہ خوشی میں مجھے قابو رکھ ،،

حقیقت یہی ہے خوشی میں بندہ اللہ کی شکر گزاری کی بجائے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اور اپنے حق میں جواز ڈھونڈتا ہے . کیا نبی نے بیٹیوں کی شادیاں نہیں کی تھیں؟ یا اللہ نے آپ کو صاحب اولاد نہیں کیا؟ ورفعنا لک ذکرک کا تاج نہیں پہنایا ؟ خانہ کعبہ کی کنجیاں ان کے حوالے نہیں کیں ؟؟

ایک بندہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ دنیا کی شان وشوکت پر نہیں رہجھتا بلکہ اللھم لا عیش الا عیش الآخرہ ،سامنے رکھتا ہے ۔۔رب کا شکر گزار بندہ بنتا ہے تاکہ اس پر مزید خوشیوں کے در کھلیں ##


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “خوشی اور غم میں طرز عمل کیسا ہونا چاہئیے؟” جوابات

  1. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    جزاک اللہ قانتہ بہن
    واقعی ہمارا دین دینِ کامل ہے زندگی کے ہر معاملے کے متعلق راہنمائی موجود ہے
    ہم جاننے والے تو بنیں

    1. نبیلہ شہزاد Avatar
      نبیلہ شہزاد

      غم اور خوشی کی کفیت میں قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم بہت اچھی طرح سمجھایا۔
      جزاک اللّہ۔

  2. نبیلہ شہزاد Avatar
    نبیلہ شہزاد

    غم اور خوشی کی کفیت میں قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم بہت اچھی طرح سمجھایا۔
    جزاک اللّہ۔

  3. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    یہ بہت ہی اہم موضوع ھے ، ھمارے ہاں اس کی اہمیت کا احساس نہیں کیا گیا اسی لئے بحثیت قوم ھم خوشی اور غم کے اظہار میں کافی ناخواندہ ہیں۔ خوشی اور غم کے احساس اور اظہار میں شدت پسندی سے معاشرے اور خاندانوں میں کیا کیا مسائل پیدا ھوتے ہیں یہ بہت وسیع ٹاپک ھے جس کا مشاہدہ ہم میں سے اکثر اپنے ارد گرد کر سکتے ہیں۔۔۔ شکریہ قانتہ صاحبہ

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      آپ سب کا بھی بہت شکریہ

  4. ارم ظہیر Avatar
    ارم ظہیر

    باجی یہ ایک مکمل اور جامع مضمون ہے۔۔واقعی انسان آخرت میں بھی ویسا ہی عمل کرے گا جیسا وہ دنیا میں کرتا رہا۔۔اللہ ہمیں نیک راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین