” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات
انور جاوید ڈوگر :
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط اول)
” شاہ جی! نگینہ سے میری ملاقات آج سے چند سال قبل داتا دربار پر ہوئی تھی ، وہ مری سے بھاگ کر آئی تھی ، اس کا آشنا اسے داتا دربار کے خواتین والے حصے میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ یہاں دربار میں کئی عورتیں سالہا سال سے موجود ہیں۔ نگینہ ان عورتوں کے ہتھے چڑھ گئی ۔ اس زمانے میں داتا دربار کے ساتھ ہی جوتوں کے ایک کارخانہ کا مالک تھا ۔ ایک بار میں نے نگینہ کو دیکھا تو بس سب کچھ ہار گیا۔
” شاہ جی ! “ وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں نے اب نگینہ سے ملاقاتوں کے لئے مسلسل داتا دربار آنا شروع کر دیا۔ دربار پر حاضری تو محض ایک بہانہ تھا، اصل مقصد تو نگینہ سے ملاقات ہوتا تھا۔ میں نے نگینہ کو کئی بار شادی کرنے اور مکان لے کر دینے کی پیشکش کی مگر وہ ہر بار ٹال جاتی۔
کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اب میں نگینہ کی تلاش میں داتا دربار آتا تو مجھے یہ منحوس خبر ملتی کہ وہ تو اپنی ساتھی عورتوں کے ہمراہ بری امام، بلھے شاہ یا سلطان باہو کے میلے پر گئی ہوئی ہے۔ میں اس پر اس قدر فریفتہ تھا کہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس دربار تک جا پہنچتا جہاں نگینہ ہوتی تھی۔ ان چکروں میں کاروبار تباہ ہو گیا اور میں درباروں کا ہو کر رہ گیا۔
نگینہ ابتدا میں تو مجھ سے بہت محبت جتایا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ محبت کم ہوتی گئی۔ کئی سرکاری درباری بندے اور گدی نشین تک اس کی زلفوں کے اسیر ہو چکے تھے ، پھر بھلا وہ مجھ جیسے بھوکے سے تعلقات کیوں رکھتی۔ نگینہ کے عشق میں میرا خاندان بکھر گیا۔ اب میں ایک بالٹی ، بستر اور چند برتن اٹھائے پھرتا ہوں۔ مختلف درباروں میری رہائش گاہیں ہیں ،
ہر جمعرات کو داتا دربر آجاتا ہوں ۔ یہاں پر کئی لوگ آتے ہیں ، ایسے کئی لوگ کہ سو سو روپے خیرات دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مجھے پہچانتے ہیں اور میرے حصے کی خیرات خود آکر دے جاتے ہیں۔ جمعرات کو آمدنی سات آٹھ سو روپے ہو جاتی ہے جسے اگر کوئی سادہ لوح عقیدت مند مل جائے تو اوپر سے بھی آمدنی ہو جاتی ہے۔ “
میں نے سائیں نذر کی بات کاٹ کر کہا کہ ”یار ! نگینہ کہاں گئی؟“ تم نے اس کی بات تو درمیان میں ہی چھوڑ دی۔ “
” ہاں جی! شاہ جی! وہ جو نگینہ تھی وہ واقعی نگینہ بن گئی۔ درباروں کے گدی نشینوں اور افسروں سے لے کر تھانیداروں اور ملنگوں تک اس کے مرید بنتے چلے گئے ۔ داتا دربار کی چوکی کا ایک انچارج اس پر مرتا تھا ، جب نگینہ نے اسے گھاس نہ ڈالی تو وہ انتقام لینے پر اتر آیا اور اس نے نگینہ کے خلاف ایک لڑکی کو فروخت کرنے کا مقدمہ بنوا دیا۔ اب سنا ہے اسے دس سال سزا ہو گئی ہے اور وہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہی ہے۔ “
” سائیں جی! آپ تو یہ کہتے تھے کہ نگینہ ہوتی تو وہ آپ کی بڑی خدمت کرتی۔ بھلا ! وہ تمہارے کہنے سے میری خدمت کیوں کرتی تم تو اب اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ “
” واہ جی ! شاہ جی !! تسیں بڑے بھولے بادشاہ او۔ بادشاہو تسیں مالدار لوگ او تہاڈی گدی دا سن کے نگینہ نے تہانوں چمبڑ جانا سی“ (واہ جی شاہ جی! آپ بھی بھولے ہیں۔ آپ تو مالدار ہیں۔ آپ کی گدی کا سن کر اس نے آپ سے چمٹ جانا تھا)
میں نے سائیں سے دریافت کیا کہ یار ! یہ بتاﺅ کہ کیا واقعی نگینہ نے لڑکی فروخت کی تھی؟ سائیں نے بے ساختہ کہا۔ ”شاہ جی! آپ نگینہ کی بات کرتے ہیں یہاں پر تو آج بھی آٹھ دس عورتیں یہی دھندہ کرتی ہیں۔ گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیاں یہاں آتی ہیں ، انہیں چند دنوں تک یہ عورتیں اپنے کوارٹروں میں رکھتی ہیں ، وہ یہاں دربار پر سوتی ہیں۔ پھر یہ لڑکیاں اچانک غائب ہو جاتی ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہاں سے بھاگ گئی ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں فروخت کر دی گئی ہیں۔
سائیں نذر نے ایسی جن عورتوں کی نشاندہی کی تھی انہیں میں نے 24 گھنٹے داتا دربار میں موجود پایا اور ان کی حرکات انتہائی قابل اعتراض تھیں۔ میں نے سائیں نذر کی باتوں کی صداقت معلوم کرنے کے لئے اپنی ایک عزیزہ سے یہ کہا کہ وہ خواتین کے حصے میں جا کر یہ کہہ دے کہ وہ جہلم سے بھاگ کر آئی ہے اور اب لاہور میں اس کا کوئی نہیں۔
میری عزیزہ امبر تعلیم یافتہ اور خوبصورت لڑکی ہے جب میں نے جا کرعورتوں والے حصے میں اپنی فرضی داستان سنائی تو اس کے اردگرد شکاری عورتوں کا ہجوم جمع ہو گیا۔ چند گھنٹوں کے دوران یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ چکر باز عورتیں میری عزیزہ امبر کو اپنے گھر لے جانے کے لئے آپس میں جھگڑنے لگیں۔ یہ جھگڑا مار کٹائی تک پہنچ گیا تو امبر نے پریشان ہو کر بتایا کہ وہ تو گھر سے بھاگ کر نہیں آئی۔ اس کے والدین یہاں رہتے ہیں اور وہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے کی فرد ہے۔
امبر بتاتی ہے کہ ان عورتوں کو میری بات کا اس وقت تک یقین نہیں آیا جب تک میں نے ایک جریدہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا ثبوت انہیں فراہم نہیں کیا ۔ جس وقت ان چکر باز عورتوں کو امبر کی اصل حقیقت کا علم ہو گیا تو پھر وہ دربار سے غائب ہو گئیں اور کئی گھنٹے تک غائب رہنے کے بعد دوبارہ شاید اس لئے آگئیں کہ اب تو امبر یا اس کا کوئی عزیز دربار پر انہیں نہیں پکڑے گا۔
ان عورتوں کو کیا معلوم تھا کہ امبر کا انکل ” شاہ جی “ کے روپ میں دربار پر ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پیر کے روز تین اگست کو دربار میں داخل ہوا تھا۔ چار اگست کو مجھے اس امر کا اندازہ ہو چکا تھا کہ یہاں ہر کام کرنے والے ہر قسم کے گروہوں میں سے تمام حقائق اگلوانے کے لئے مجھے اپنے مطلب کے بندے قابو کرنا ہوں گے۔
دربار پر ملنگوں ، ناجائز فروشوں، جیب تراشوں، نعت خوانوں اسلحہ فروشوں، وار دھندہ کرنے والی ایک عورت کے علاوہ بردہ فروشوں کا شکار بننے والے دو بچوں کو اپنے بہت قریب کر لیا تھا۔ یہ تمام لوگ لالچ پیر پرستی کی بیماری کے باعث میرے اشاروں پر کام کرتے تھے۔ اس دوران دربار کی انتظامیہ اور پولیس چوکی کے اہلکاروں کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ میں کوئی پراسرار کردار ہوں۔ ان لوگوں نے اپنے طور پر میری نگرانی شروع کر دی تھی۔
ان میں سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ میں اخبار نویسوں کے ساتھ تعلق بنا کر اپنی پیری مریدی کا جال پھیلانے کے چکر میں ہوں جبکہ کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ میں کسی خفیہ ایجنسی کی طرف سے خصوصی مشن پر ہوں اور ڈرامے بازی کر رہا ہوں۔ ایک روز ایک حوالدار نے ایک زائر کی مرمت کی ، میں بھی پاس کھڑا تھا اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:
” تم پریس رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کو اپنی ” پیری مریدی“ چمکانے کے چکر میں دربار کے اندر بلاتے ہو اگر تم باز نہیں آئے تو میں تمہیں اندر کر دوں گا۔ “ میں نے فوراً اسے کہا کہ یار ! تم مجھے ابھی اندر کر دو۔ اس نے کہا : نہیں ابھی ٹھہرو، میں تمہیں دیگر تمام جعلی پیروں کے ہمراہ پکڑوں گا۔ اس حوالدار نے تو مجھے گرفتار نہیں کیا لیکن میں پھر بھی مختلف اوقات کے اندر تھانے میں کئی گھنٹے گزارنے میں کامیاب رہا۔
پولیس کے اہلکار مجھ سے اپنی قسمت کا حال دریافت کرتے رہے اور کئی ترقی اور تبادلے کے لئے دعائیں کرواتے رہے۔ چار اگست کو میں نے خواتین کے حصہ میں عورت بن کر خود بھی دورہ کیا۔ لیڈیز پولیس نے میرا قیمتی پرس اور امیرانہ ٹھاٹھ دیکھ کر آڑے ہاتھوں لیا۔ اس طرح مجھے یہ معلوم ہوا کہ لیڈیز پولیس اہلکارائیں ”چراگی“ کے نام پر روزانہ ہزاروں روپے کماتی ہیں۔ جو عورت چراغی نہیں دے پاتی اس کے لئے زیارت کرنا عذاب بن جاتا ہے اور داتا دربار تک جاتے جاتے اسے کئی بار سوٹیوں سے مرمت کرانی پڑتی ہے۔ پولیس کا کردار چونکہ بہت شرمناک ہے اس لئے اسے پھر کسی نشست میں بیان کریں گے۔
چار دسمبر کو دوپہر کے وقت میری ملاقات ایک دس گیارہ سالہ بچے عمران کے ساتھ ہوئی۔ عمران نے بتایا کہ وہ اور اس کی والدہ شہناز کوئی ایک ماہ قبل ملتان سے آئے تھے۔ رات کو کسی نے ہمارا بیگ چوری کر لیا جس میں نقدی اور کپڑے تھے۔ اب ہم واپس نہیں جا سکتے۔
عمران نے بتایا کہ کوئی ایک سال قبل میری والدہ نے داتا دربار پر آکر منت مانی تھی کہ اگر لڑکی اغوا کرنے والے میرے بیٹے کامران کی ضمانت پر رہائی ہو جائے تو وہ داتا دربار آکر 10 دیگیں دے گی۔ سات ماہ تک میرا بھائی جیل میں رہا اور اس کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔ میری ماں نے دس دیگوں کےلئے رقم ساتھ لی اور مجھے لے کر داتا دربار پہنچ گئی۔
ہم نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق یہاں نو دن اور نو راتیں قیام کرنا تھا ، میری امی نے پانچ دیگیں تو دے دیں مگر اب پانچ باقی تھیں۔ چھٹے دن رات کے وقت ہمارا بیگ چوری ہو گیا۔ اب کھانے کو بھی پیسے نہیں تھے۔ لنگر یہاں خاص لوگوں کو ملتا ہے ۔ میں آج بھی صبح سے بھوکا ہوں اور میری ماں کچھ عورتوں کے ہمراہ بی بی پاک دامناں کے مزار پر حاضری کے لئے گئی ہوئی ہیں۔
واقعہ بتاتے ہوئے عمران نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ میں نے اس کے کھانے کا بندوبست کیا اور اسے کرایہ دیا کہ وہ جا کر بی بی پاکدامناں سے اپنی والدہ کو لے آئے ۔ میں انہیں ملتان پہنچانے کا بندوبست کر دوں گا۔ عمران کھانا کھانے کے بعد چلا گیا ۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد وہ واپس آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری والدہ نہ جانے کہاں گم ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب مجھ سے ماں بھی چھن گئی ہے۔
عمران نے کہا کہ میں نے دربار پر ہی اپنی امی کی سہیلی بن جانے والی ایک عورت سے اپنی امی کے بارے میں پوچھا تھا ۔ اس نے بتایا ہے کہ وہ رشیداں کے ساتھ اس کے کوارٹر پر آرام کے لئے چلی گئی ہے۔ میں اپنی امی کی سہیلی کو یہ پیغام دے کر آیا ہوں کہ وہ داتا دربار پہنچ جائے کیونکہ ایک اللہ کے بندے نے ہمارے ملتان جانے کا بندوبست کر دیا ہے۔ عمران کی امی شام تک واپس نہیں آئی تو وہ پریشان ہو گیا۔
عمران کا ایک دوست شہباز تھا ، وہ لڑکا بھی گھر سے بھاگ کر ہی آیا تھا۔ ان دونوں بچوں نے جنسی تشدد اور معصومیت کی بے حرمتی کے ایسے ایسے واقعات بیان کیے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ان معصوم بچوں نے ہمدرد جان کر مجھے یہ بتایا کہ ہمارے جیسے درجنوں بچے گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہاں آئے ہیں ۔ ان پر پہلے جنسی تشدد کیا گیا اور پھر نہ جانے وہ کہاں غائب کر دئیے گئے۔
داتا دربار کے اردگرد ہوٹلوں میں ایسے درجنوں بچے قبر نما ہوٹلوں میں پائی جانے والی چارپائیوں پر درندوں کے ساتھ رات کو سوتے ہیں۔ ایسے سراغ چلانے والے لوگ صرف بیس روپے کے لالچ میں ان بچوں کے ساتھیوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ ان بچوں کو کہاں سے لائے ہیں۔ ایسے ہی دو بچوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے میں نے انہیں اپنے ہوٹل کے کمرے میں بلایا تو میں نے ہوٹل کے کارندوں کی گفتگو سے یہ محسوس کیا کہ وہ ان بچوں کو جانتے ہیں اور یہ بچے جنسی وحشیوں کی درندگی کا شکار بننے کے لئے پہلے کئی بار اس ہوٹل میں آچکے ہیں۔
مجرمانہ وارداتوں کی وجہ سے داتا دربار کے اردگرد واقع ہوٹلوں کے کرائے بھی آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ یہ معصوم بچے کئی راتوں سے جاگے ہوئے تھے، ان کے چہرے سے تھکن نمایاں تھی۔ وہ اس قدر ٹوٹے ہوئے تھے کہ باتیں کرتے کرتے میرے بیڈ پر سو گئے اور میں گھنٹوں تک بے بسی کی تصویر بنا ہوا انہیں دیکھتا رہا ۔ میں نے چونکہ مسلسل سات روز تک داتا دربار پر ہی رہتا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے بیٹے کو کسی کام کی غرض سے گھر سے بلوایا ۔ جب میرا بیٹا سبط حسن آیا تو اس نے ان بچوں کو دیکھ کر کہا
” ابو! اگر کل کلاں خدانخواستہ میں اس قسم کے حالات سے دوچار ہو جاﺅں تو آپ کی حالت کیا ہو گی؟ “
میرے پاس اس معصوم کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ شام کو عمران کی ماں شہناز آگئی۔ شہناز مجھے ملی تو کہانی قدرے مختلف تھی۔ اس نے باقی تمام باتوں کا تو اقرار کیا اور کہا کہ عمران نے آپ کو جو کچھ بتایا وہ درست ہے ۔ اس نے ان باتوں میں یہ اضافہ کیا کہ میں نے جس بیٹے کی منت مان کر اسے ضمانت پر رہا کرایا تھا اس نے رہائی کے بعد ہمارا شکریہ تک ادا نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ میری رہائی تو میری بیوی کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔
شہناز نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا اس لئے اب وہ ملتان کس کے پاس جائے گی۔ میں نے اسے کرائے کی رقم دی تو اس نے روپے پکڑ کر کہا : بابا جی ! دسو ہن کتھے چلئے ، تہاڈے کول بندوبست ہے یا میں کسے دے کمرے دی چابی لواں۔
(بابا جی اب بتائیے کہاں چلنا ہے۔ آپ کے پاس اپنی جگہ ہے یا میں پھر کسی کمرے کی چابی حاصل کروں)
شہناز بی بی کی یہ بات سن کر میرے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس قصے میں خود اپنے ضمیر کا مجرم بنا کھڑا تھا۔ میں نے اس سے اس رقم کی واپسی کا تقاضا نہیں کیا جو میں نے ملتان جانے کے لئے کرایہ کی شکل میں اسے دی تھی ۔ میں تو اس سوچ میں غرق ہو گیا کہ میں کس مقدس جگہ پر کھڑا ہوں اور یہاں یہ کس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔
یہ ایک شہناز کی بات نہیں یہاں پر تو کئی شہنازائیں معاشرے کی بے رحمی اور ستم ظریفی یا اپنی جہالت کے باعث بربادی کی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔ ( جاری ہے )