نمازتراویح، فیصل مسجد اسلام آباد

کیا نماز تراویح آن لائن ہوسکتی ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شریعہ کونسل
جماعت اسلامی ہند
جوں جوں ماہ رمضان المبارک قریب آرہا ہے، لوگوں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ نمازیں گھر پر پڑھ رہے ہیں۔ اب انھیں فکر لاحق ہورہی ہے کہ رمضان میں تراویح کا کیا ہوگا؟ اب تک وہ ہرسال تراویح مسجد میں پڑھتے تھے۔ کوئی حافظِ قرآن خوش الحانی کے ساتھ قرات کرتا تھا اور وہ اس کی اقتدا میں رمضان میں کم از کم ایک مرتبہ پورا قرآن نماز میں سن لیتے تھے۔

الگ سے بھی حسبِ توفیق تلاوت کرتے تھے۔ پورا قرآن ہر ایک کو یاد نہیں۔ اب یا تو روزانہ آخری 10 سورتیں دو مرتبہ پڑھ لی جائیں گی ، یا جتنا قرآن یاد ہو اسی پر اکتفا کیا جائے گا ۔ یوں تو تراویح میں پورا قرآن ایک مرتبہ ختم کرنا ضروری نہیں، لیکن اب تک کے معمول پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے لوگوں کو محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی تلافی کی مختلف تدبیریں سوچ رہے ہیں۔

اسی دوران پڑوسی ملک کے ایک دانش ور(جاوید غامدی) نے اجتہاد کرکے ایک صورت تجویز کی، وہ یہ کہ قصرِ صدارت میں جماعت سے تراویح کی نماز پڑھی جائی اور آن لائن ٹیلی ویژن کی مدد سے اس کی اقتدا میں ہر گھر میں باجماعت نماز ادا کی جائے۔ آج کے دور میں ، جب پوری دنیا آن لائن ہے، یہ تجویز خاص طور سے نوجوانوں کو بہت پسند آرہی ہے

چنانچہ میرے بہت سے احباب نے خواہش کی ہے کہ اس تجویز پر میں اپنی رائے دوں۔ وہ دریافت کر رہے ہیں کہ اگر محلے کی مسجد میں حافظ صاحب چند لوگوں کو مائک سے تراویح پڑھائیں تو کیا اطراف کے گھروں میں ، جہاں تک مائک کی آواز جائے، ان کی اقتدا کی جاسکتی ہے؟ یا کیا کوئی ایسی صورت جائز ہے کہ کیبل ٹی وی کی طرح مسجد سے آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں امامِ مسجد کی تلاوت نشر کی جائے اور گھروں میں لوگ ان کی اقتدا میں تراویح پڑھ لیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ دانش ور نے آن لائن اقتدا کے جواز کے کیا دلائل دیے ہیں؟ ویسے امید ہے کہ انہوں نے معمول کے حالات میں اس صورت کا جواز نہیں بتایا ہوگا، بلکہ اضطراری حالت ہی میں اس کے جواز کی بات کہی ہوگی لیکن میری نظر میں اضطراری حالت میں بھی یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

1 ۔ فقہاء نے اقتدا کی درستگی کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ امام اور مقتدی ایک جگہ پر ہوں اور مقتدی کو امام کی حرکات و سکنات کا علم ہوتا رہے۔ وہ امام کی آواز سنے، یا اسے یا دیگر مقتدیوں کو دیکھے ، تاکہ اسے امام کے حال کے بارے میں کوئی شبہ نہ ہو۔ آن لائن اقتدا میں یہ شرط مفقود ہوگی۔

2 ۔ فقہاء یہ شرط بھی عائد کرتے ہیں کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ چنانچہ فقہ کہ قدیم کتابوں میں ملتا ہے کہ اگر مقتدیوں کی صفوں کے درمیان کوئی اونچی دیوار یا نہر یا بند دروازہ ہو تو بعد کے مقتدیوں کی نماز اس امام کے پیچھے درست نہ ہوگی۔

3۔ نماز کے معاملے میں الیکٹرانک آلات پر اس حد تک انحصار درست نہیں ، اس لیے کہ وہ کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں۔ دورانِ نماز مسجد کا مائک خراب ہوجائے ، یا مسجد یا گھر کی بجلی چلی جائے ، یا ٹی وی میں کوئی خرابی آجائے ، یا اس کے ماہانہ کنکشن کی فیس ختم ہوجانے کی وجہ سے ٹرانسمیشن بند ہوجائے، بہت سی صورتیں ممکن ہیں۔ اس طرح مسجد کے امام اور گھر کے مقتدیوں کا رابطہ منقطع ہوجائے گا۔

4 ۔ اس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بعد میں لوگوں کے دلوں سے مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت کم یا ختم ہوجائے اور اضطرار رفع ہوجانے کے بعد بھی وہ آن لائن نماز کے عادی ہوجائیں اور اپنے گھروں میں رہتے ہوئے پنج وقتہ نمازیں یا جمعہ کی نماز مسجد کے مائک پر امامِ مسجد کی اقتدا میں پڑھنے لگیں۔

5۔ اس کا بھی اندیشہ ہے کہ کچھ منچلے ٹیلی ویژن پر دیکھ کر امامِ حرم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگیں۔

ان وجوہ سے فقہاء کی رائے ہے کہ آن لائن نمازِ تراویح جائز نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں ہر گھر میں نماز تراویح ادا کرنی چاہیے۔ اس کی ادائیگی انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ اجتماعی تراویح کی صورت میں گھر ہی میں کسی کو امام بنایا جائے اور اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے۔

یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ موجودہ دور میں عالمِ اسلام کے متعدد بڑے فقہاء ، مثلاً ابن باز ، ابن عثیمین ، ابو زھرہ ،حسنین مخلوف ، جاد الحق ، مصطفیٰ زرقاء رحمہم اللہ وغیرہ اور فتویٰ صادر کرنے والے اداروں نے بھی یہی رائے دی ہے اور آن لائن نماز کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کے فتاویٰ انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں