ڈین کونٹز اور اس کے ناول کا ٹائٹل

کورونا:1981ء میں شائع ہونے والے ناول نے کیسے کی پیش گوئی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:

کورونا وائرس کہاں پیدا ہوا اور کیسے ساری دنیا تک پھیلا؟ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہورہی ہیں۔
کوئی کہتاہے کہ یہ چین کا  امریکا پر حملہ ہے، کوئی کہتاہے کہ امریکا نے چین پر بائیولوجیکل وار کیا، جسے چین نے واپس  امریکا  کی طرف پلٹ دیا۔  اسی طرح کچھ اور بھی باتیں پھیل رہی ہیں، جنھیں بعض لوگ ’سازشی تھیوریز‘ بھی قرار دیتے ہیں۔  میں آپ کو کچھ ایسی باتیں بتائوں گی، جنھیں پڑھنے کے بعد آپ بخوبی جان لیں گے کہ کیا یہ محض ایک بیماری ہے، یا کسی نے کسی پر حملہ کیا ہے، اگر حملہ کیا تھا تو پھر اس لڑائی میں کون کہاں کھڑا ہے؟

سب سے پہلے میں ایک ناول کا ذکر کرتی ہوں، سولہ فروری2020 کو ٹوئٹر پر ایک شخص’نِک ہنٹن‘(Nick Hinton) نے ٹویٹ کی۔ اس نے بتایا کہ  ڈین کونٹز(Dean Koontz) نام کے ایک  ناول نگار نے انیس سو اکیاسی(1981ء) میں ایک ناول لکھا، جس کانام تھا ’The Eyes Of Darkness‘، اس میں کورونا وائرس کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ یہ واقعی ایک حیران کن  بات ہے،  بھلا ایک ناول نگار کیسے جان سکتا ہے کہ  38 سال بعد دنیا میں ایک بڑی بیماری آئے گی اور بہت کچھ تہس نہس کردے گی۔

ٹویٹ کرنے والے شخص نک ہنٹن نے ناول کے صفحہ نمبرتین سو تینتیس(333) کا سکرین شارٹ بھی لگادیا جس کے مطابق، ناول میں ایک کردار ڈومبے ایک چینی سائنس دان ’لی چن‘ کا ذکر کرتاہے جو بھاگ کر امریکا پہنچ جاتا ہے۔

بظاہر ’لی چن‘ اپنے ملک چین کے نظام سے بے زار ہوکر امریکا پہنچتاہے لیکن حقیقت میں وہ شخص کچھ اور ہوتا ہے،اس کے پاس ایک انتہائی خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار ہوتا ہے۔ جس کا نام تھا’ووہان فور ہنڈرڈ(400)‘۔ یہ شہر سے باہر قائم’آر ڈی این اے‘ لیبارٹریوں میں تیار کیاگیاتھا۔

یہ ایک مکمل ہتھیار تھا جو صرف انسان کو بیمار کرتاہے، کوئی دوسری مخلوق اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ آتشک کی بیماری کی طرح ’ووہان فور ہنڈرڈ(400)‘ انسانی جسم کے باہر ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

’نِک ہنٹن‘(Nick Hinton) کی اس ٹویٹ کو 3600 سے زائد لوگوں نے ری ٹویٹ کیا۔

جب ڈین کونٹز(Dean Koontz) کے ناول میں لکھی گئی باتوں کا موازنہ کورونا وائرس سے کیا گیا تو ان میں سے بعض باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ مثلاً اب تک کہیں ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ وائرس کسی چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس خوراک کی ایک منڈی میں پیدا ہوا جہاں غیرقانونی طور پر شکار کیے جانے والے جنگلی جانوروں کا گوشت بیچا جاتا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے پیدا ہوا اور پھر مختلف جانوروں کے ذریعے ہوتا ہوا انسانوں کے اندر داخل ہوا۔

ووہان فورہنڈرڈ(400) اور کووڈنائنٹین(19)کے درمیان علامتوں میں کافی فرق پایاجاتا ہے۔ ناول کے مطابق وائرس کی افزائش کا عرصہ صرف چار گھنٹے ہے  جبکہ کووڈ نائنٹین(19)کی افزائش کا عرصہ ایک دن سے14دن تک ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کووڈ نائنٹین کا وائرس زیادہ تر پانچ دنوں میں نشوونما پاتا ہے۔

ناول نگارکونٹز لکھتا ہے کہ ووہان فورہنڈرڈ(400) ایک ایسی بیماری ہے جس میں شرح اموات100فیصد ہے۔ یعنی جو بھی اس سے متاثر ہوا، وہ اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ختم ہوگیا، زیادہ تر لوگ 12گھنٹوں کے اندر مرتے ہیں۔ دوسری طرف کووڈ19کے نتیجے میں شرح اموات بہت کم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کووڈ19کی شرح اموات صرف 2فیصد ہے۔ ووہان میں 4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7 فیصد تھی۔

ناول نگار کونٹز کے مطابق ووہان400 کے نتیجے میں ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے جو دماغ کے ٹشوز کو کھاجاتا ہے، اور جسم کے تمام سسٹم کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، سانس رک جاتی ہے اور پھر اچانک نبض بند ہوجاتی ہے۔

جبکہ کووڈ19میں مختلف علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ بخار ہوتا ہے، کھانسی شروع ہوجاتی ہے، سانس لینے میں بہت تنگی محسوس ہوتی ہے، اس بیماری کی عام حالت میں زکام جیسی کیفیت ہوتی ہے جبکہ شدید حالت میں نمونیے جیسی کیفیت ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماری کے بعد گردے فیل ہوجاتے ہیں اور پھر موت واقع ہوجاتی ہے۔

کونٹز نے اپنے ناول میں ووہان400کو ایبولا سے زیادہ سنگین بیماری قرار دیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایبولا سے مرنے والوں کی شرح50 فیصد تھی۔اسی طرح ماضی کی دوسری وباؤں میں شرح اموات 25سے90 فیصد دیکھی گئی۔ کووڈ19کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی شرح  ووہان میں 2سے  4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7فیصد۔

اب ایک اور دلچسپ بات بھی جان لیں، ڈین کونٹز کا ناول The Eyes Of Darkness  جب انیس سو اکیاسی(1981) میں شائع ہوا تو اس کے پہلے ایڈیشن میں  چینی شہر ووہان کے بجائے سوویت یونین کے ایک مقام ’گورکی‘ کانام لکھا ہوا تھا۔

اس وقت ناول کے اس مقام پر  بیماری کو ’گورکی 400‘کانام دیاگیا۔ یعنی اس وقت ناول نگار کے مطابق  خطرناک ترین بائیالوجیکل ہتھیار سوویت یونین کے شہر میں پیدا ہوا تھا، لیکن جب سوویت یونین ختم ہوگیا تو ناول نگار نے  بیماری کا نام تبدیل کردیا۔

اس بات کی تصدیق کے لئے گوگل بُکس(Google Books) سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔ انیس سو اکیاسی(1981ء) میں شائع ہونے والے ناول کے پہلے ایڈیشن میں، اگر آپ ’ووہان400‘ کا نام تلاش کریں گے توآپ کو کہیں نہیں ملے گا۔

چینی اخبار ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کے مطابق انیس سو نواسی (1989ء) میں ’کورگی 400‘ ختم کرکے ’ووہان400‘ کا نام لکھا گیا۔ یہ وہی سال ہے جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالی تھیں، اس کے بعد وہ مختلف ملکوں کی شکل میں ٹوٹ گیا تھا ۔ ایک اور اہم بات، 1981 میں The Eyes Of Darkness کا مصنف ”ڈین کونٹز“ تھا لیکن جب انیس سو نواسی (1989ء) میں یہ ناول شائع ہوا تواس کا مصنف ’لی نکوس‘ تھا۔ واضح رہے کہ  ڈین کونٹز قلمی نام اور لی نکوس اصلی نام ہے۔

اس سال فروری میں  کونٹز کے ناول میں بتائی گئی بیماری کو کووڈ19سے جوڑنے کی مہم شروع ہوئی، تو  بعض اخبارات  اور خبر رساں اداروں نے ناول کے مصنف  اور پبلشر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ چھپتے رہے۔  شاید انھیں ڈر تھا کہ وہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکیں گے۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بہت کوششیں کیں لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ بڑے برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے بھی رابطہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن نہ مصنف سے بات ہوسکی نہ ہی پبلشر سے۔

یہ تو تھا ناول اور اس کے ایک مخصوص حصے کا تجزیہ۔
اب اگر ہم اس ناول میں لکھی گئی باتوں کو اور  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے حالیہ بیانات کو ایک جگہ پر رکھ کر دیکھیں تو کہانی یوں بنتی ہے کہ پہلے یہ وائرس سوویت یونین کے مقام ’گورگی‘ سے پھوٹنا تھا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد وہاں اسے پھوڑنے کی ضرورت نہ رہی، پھر اگلے بڑے دشمن کی طرف توجہ دی گئی، وہ تھا: چین۔

جب چین عالمی معیشت، تجارت اور سیاست بلکہ سب شعبوں کا لیڈر بننے لگا، تو وہی فکشنل (Fictional) بیماری ’ووہان‘ سے پھوٹ پڑی۔ میرا خیال ہے کہ اب اس سوال کا جواب لوگوں کو خود ہی مل جانا چاہئے کہ یہ وائرس محض ایک بیماری تھا یا پھر بائیولوجیکل ہتھیار۔ ویسے آپ کو آنے والے دنوں میں اس کا جواب ضرور ملے گا کیونکہ کہانی سکرپٹ کے مطابق ہی آگے بڑھ رہی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کورونا وائرس کو امریکا پر بدترین حملہ قرار دیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب وہ اس سے اگلی بات بھی کریں گے، اور براہ راست چین کا نام لیں گے۔

اسی عرصہ میں ایک کتاب کا صفحہ بھی سوشل میڈیا میں گردش کرتا رہا جس میں 2020ء میں نمونیا جیسی بیماری پھوٹنے کی بات کی گئی، وہ صفحہ  ناول’The Eyes Of Darkness‘  کا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسری کتاب کا ہے، اگلا مضمون میں اسی کتاب پر بات کریں گے۔

اس کتاب کی بہت سی باتیں درست ثابت ہوئیں، حیرانی کی بات یہ ہے کہ چند سال پہلے مرنے والی ایک بوڑھی اماں کو کیسے پتہ چلا کہ نمونیا جیسی ایک بیماری 2020میں پھوٹے گی، وہ بوڑھی اماں اپنے آپ کو ماہر نفسیات کہتی تھی، ساری زندگی اس نے بہت سی پیش گوئیاں کیں لیکن تقریباً سب کی سب غلط ثابت ہوئیں۔ پھر یہ پیش گوئی کیسے ٹھیک نکلی؟ یہ بات ہے نا سوچنے والی!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں