نصرت یوسف………..
"ملکہ! مچھلی تلنی شروع کرو، صاحب جی بس گھر پہنچتے ہی ہونگے”، تابندہ شفیع نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے سے پہلے سلاد بناتی نوکرانی کو ہدایات دیں۔
کچھ لمحے خشوع و خضوع سے رب سے مناجات کرکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے انہیں اپنا آپ بڑا آسودہ لگا، رب اغفر ورحم و انت خیر الراحمین، دھیمی سی تکرار کرتے وہ باورچی خانہ میں آگئیں۔
نومبر کی خاموش شام کے آٹھ بج رہے تھے، ماحول پر خاموشی چھائی تھی،
” کچھ ہی دیر کا سکون ہے، جلدی ہاتھ چلاؤ ملکہ!” ایک بار پھر ہدایات دیتی وہ خود بھی ایپرن باندھتی کام میں لگ گئیں.
تلی ہوئ مچھلی کے قتلے سلاد کے ساتھ رکھے بھلے لگ رہے تھے، عمدہ چاول کل ہی ان کے میاں کے کاروباری مراسم دار نے تحفتاً بھیجا تھا جس کی خوشبو سے کچن مہک رہا تھا۔ ملکہ نے ایک لمبی سانس لے کر بھات کی مہک کو اندر کھینچا، اور کھولتے تیل میں گھومتے مچھلی کے ٹکڑے پر نگاہیں جمادیں. اتنے میں اوون کا ٹائمر بول اٹھا۔
بیک ہوئ مچھلی بھی تیار تھی. ناز بھابھی کے لیے ہر وہ چیز جو تلی جاتی تھی، ملکہ کو بیک کرنی ہوتی تھی۔ کھانے کا مینو حسب منشا نہ ہوتا تو وہ سرد تاثرات کے ساتھ کھانا کھا کر فورا ہی میز سے اٹھ جاتیں، ماحول بوجھل ہو جاتا. بچے بھی ماں کے پیچھے روانہ ہو جاتے اور پھر محمد شفیع اور تابندہ کا بیٹا شان بھی زیادہ نہ ٹکتا.
کھانا میز پر چنتے سب کی آمد شروع ہو چکی تھی، آج کا طعام سب کا ہی پسندیدہ تھا. خوشگوار ماحول میں کھانا کھاتے شفیع صاحب نے آئندہ ہفتہ پوری فیملی کے عمرہ سفر کنفرم ہونے کی اطلاع دی تو مسرت سب کے ہی انداز میں چمک اٹھی.
"دادا جان اس بار آپ نے میری پسندیدہ ائیر لائن کے ٹکٹ لیے ہیں نا؟؟ "
"پچھلے سال بہت بیکار ائیر بس تھی اور ہوٹل بھی اچھا ویو نہ دیتا تھا”
تیرہ سال کا پوتا اور پندرہ سال کی لاڈلی پوتی دادا کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے ای ٹکٹ دکھانے کے لیے موبائل فون اٹھایا کہ بیل بج اٹھی، اسکرین پر نظر ڈالتے استعجابی لہر انکی پیشانی پر آئ اور” دائمی ضرورت مند” کے نام سے چمکتی اسکرین پر منقطع کا بٹن دباتے وہ بچوں کے ساتھ مصروف ہوگئے.
زندگی مسکرا رہی تھی، تابندہ شفیع نے اپنے خوش باش کنبے کو دیکھا اور آنے والے سفر سے متعلق بہو، بیٹے سے گفتگو کرنے لگیں.
"امی ڈیزائن پسند کرلیں، میں کپڑے آن لائن آڈر کر رہی ہوں ، وقت نہیں ہے بازار خواری کا”۔ ناز نے موبائل اسکرین آگے کرتے ساس کو کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی متوجہ ہوگئیں.
اس رات سب بہت ہی اچھے موڈ میں کھانے کی میز سے اٹھے، ناز بات بات پر ہنس رہی تھی، شان بھی مطمئن تھا کہ ابو نے کوئی کام اس پر ڈالے بغیر سب انتظامات خود کر لیۓ تھے، وہ اپنے زیر تعمیر ریسٹورنٹ کے ساتھ آج کل دن رات مصروف تھا،کاروبار اس خاندان کا معاش بھی تھا اور فخر بھی.
مصروفیت کے اس عالم میں بھی عمرہ بے حد ضروری تھا.
ابو نے اوائل عمر سے ہی حدیث خوب ذہن نشین کرا رکھی تھی.
"حج، عمرہ بار بار کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں فقر(غربت)اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے اور سونے اور چاندی کے میل کچیل اور زنگ کو صاف کرتی ہے‘(ترمذی:۷۳۸)
اور واقعی فقر تو کسی بھی قسم کا شان نے دیکھا ہی نہ تھا. اعتقاد پختہ ہوتا گیا اور ہر سال کے حج اور عمرہ سے لگاؤ بڑھتا ہی گیا۔
چند برس قبل مقامی خیراتی اسپتال کے لیے معالجی مشینری کا ٹھیکہ ملنا بڑا مبارک ہوا، مشینری کا معیار اور کارگردگی کسی نے جانچی یا نہیں لیکن شان کی شان بڑھ گئی. اس سال اس نے کسی مستحق کو کمال فیاضی دکھاتے عمرہ پر بھیجا جس کے پیر کا زخم اسی خیراتی اسپتال کی آۓ دن کی خراب مشینری کے باعث بگڑ کر گمبھیر بن چکا تھا.
احسان مند اس "عطا” پر غلاف کعبہ سے لپٹ کر اپنے لیے صحت اور "مکرم جی اور ان کے خاندان” کے لیے عزت مانگتا رہا.
اسکو رب نے کتنی شفا دی یہ شان کیا جانتا لیکن کاروبار کی وسعت سے شان نے سمجھ لیا، رب نے اسکی "نیکی” کو خوب قبول کیا ہے، ایک اور اسپتال کی مشینری خریداری کے لئے اس سے رابطہ کیا گیا تھا.
اور اب شہر کا بہترین ریسٹورنٹ تعمیر کے آخری مراحل میں تھا.
خطیر رقومات کے بل شان پر واجب الادا تھے لیکن مروجہ کاروباری انداز نے سرمایہ دار کے لیے ہر زیادتی طیب کر رکھی تھی، سو وہ بھی ان واجب الادا رقوم سے بے نیاز رب کے در حاضری کی تیاری میں منہمک ہو چلا.
"رب رحمن کی چوکھٹ چوم آؤں، پھر تمہارا حساب کرتا ہوں!!”
دھوپ کا چشمہ آنکھوں پر ٹکاتے سکون شان کے ہر انداز میں تھا، ساتھ کھڑے ٹھیکیدار نے "جی شان بھائی” کہہ کر کاروباری مسکراہٹ دکھاتے گنگناتا موبائل کانوں سے لگا لیا، دوسری جانب کوئی سرکاری صاحب تھے جن کے توسط سے ملے ٹھیکہ کی رقم آج ملنی تھی، لیکن سرکاری خرچ پر ہر سال کی طرح وہ اس سال بھی اپنے پورے کنبہ سمیت ” سرکاری کام” کے لیے ولایت جا رہے تھے ، گویا رقم یہاں سے بھی فی الحال نہیں مل سکتی تھی.
ٹھیکیدار کی مسکراہٹ شکن میں تبدیل ہو گئی …
"بے فکر رہ بس آتے ہی تیرا حساب کرواتا ہوں، بس نوکری کے کام تو ایسے ہی، اچانک آڈر آجاتے ہیں”
"کب واپسی ہے سر جی؟ "ٹھیکیدار کی آواز میں بے بسی کا رنگ ابھر آیا، اس نے گردن گھما کر شان پر نگاہ ڈالی جو اپنی نئ گاڑی چھوڑ کر آج پرانی میں آیا تھا.
” مہینہ لگ جائے گا کام میں، آتے ہوئے سرکار کے روضہ پر حاضری بھی ”
"اوہ خیر نال جائیں، خیر نال آئیں، نبی کومیرا سلام بھی دیجئے گا سر جی”
"وہ مجھے چار، چھ فوری…. "
کہہ تو رہا ہوں آکر تیرا حساب صاف کردوں گا لیکن فقیر بننے والی عادت نہیں جانی تیری”
اور لائن کٹ گئی.
رکی رکی سانس لیتے ٹھیکیدار نے اپنی بیٹی کی جامعہ میں داخلہ فیس کے لیے ڈیڑھ لاکھ کی ادائیگی کا سوچتے سر چکراتا محسوس کیا اور رب سے ان تمام” نیکو کاروں ” کی خاموشی سے شکایت درج کرادی.
اگلی صبح نحیف اجسام اور کمزور چہرے والے تمام مزدوروں کے پیسوں کی ادائیگی کے معاملے پر ٹھیکیدار گرج رہا تھا،
"میں کہیں بھاگا جا رہا ہوں، صبر نہیں ہوتا تم لوگوں سے، مل جائیں گے پیسے بھی، کل پرسوں تک!! "
پچکے اور زرد چہرے والے نے شعلہ بار آنکھوں سے "صبر "کا جملہ سنا اور سامنے سے آنے والے خوش پوش آدمی کی جانب بڑھ گیا.
خوش پوش نے اس کو اپنے اتنے قریب آتے دیکھ کر بیزاری محسوس کی لیکن جتنی دیر میں وہ اس کے پسینہ کی بساند سے سانس اندر کھینچتا وہ اسکو ہکا بکا کرتا موبائل چھین کر جست لگاتا گلیوں میں غائب ہوگیا.
وہ سب جو ٹھیکیدار کو سن کر سر جھکاۓ تھے،انہوں نے خوشبو لگے آدمی کو چلاتے سن کر خوشی سے ساتھی کی "جی داری” سنی اور سر جوڑ کر بیٹھ گئے.
آسمان پر پرندوں کی اضطراری پھڑ پھڑاہٹ واضح تھی، کہنے والے اسے بھی سبحان اللہ کہہ رہے تھے.