انصار عباسی:
وزیراعظم عمران خان محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے انتہائی قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے ان کے ساتھ بے وفائی کی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے باوجود کارکردگی دکھانے کیلئے انہیں پی ٹی آئی حکومت میں نائب وزیراعظم کا غیر رسمی کردار دیدیا گیا تھا۔ جہانگیر ترین کو غیر رسمی طور پر بہت زیادہ اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ زرعی شعبے میں اصلاحات لائیں، کابینہ میں اور وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی سطح پر بیوروکریسی میں اپنی پسند کے لوگ بھرتی کریں لیکن نتیجہ نہ صرف ناکامیوں کی صورت میں سامنے آیا بلکہ گندم اور چینی کے بڑے اسکینڈل بھی سامنے آئے۔
وزیراعظم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے مکمل طور پر عمران خان کو مایوس کیا ہے، اب وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے غلط گھوڑے پر دائو کھیلا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ اور بیوروکریسی میں حالیہ رد و بدل پی ٹی آئی اور حکومت میں موجود ہر شخص کیلئے مکمل طور پر ایک پیغام ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کا اثر رسوخ آئوٹ ہو چکا ہے۔
ان تبدیلیوں سے، پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کا گروپ اپنے انجام کو پہنچا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو جہانگیر ترین کا آدمی ہونے کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔ رزاق دائود کو ’’گینگ کا حصہ‘‘ نہیں سمجھا جاتا لیکن وزیراعظم کی رائے ہے کہ انہوں نے چینی مافیا کے فائدے کیلئے یہ سب کچھ ہونے دیا۔
خسرو بختیار اور ان کے چھوٹے بھائی، جو پنجاب میں وزیر خزانہ ہیں، کا چینی اسکینڈل میں کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔ جس وقت خسرو بختیار چینی کے معاملے پر ہونے والے ای سی سی اور کابینہ کے اجلاس سے چلے جاتے تھے، اسی وقت ان کے بھائی پنجاب کے وزیر خزانہ نے چینی مل مالکان کو تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تحریری مخالفت کی تھی۔ اس مخالفت کے باوجود، پنجاب کے وزیراعلیٰ نے چینی پیدا کرنے والوں کیلئے سبسڈی کی منظوری دی۔
کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی پیر کے دن ہوا وہ حالات کا نقطہ عروج تھا لیکن ذرائع نے بتایا ہے کہ 25؍ اپریل کے بعد بہت کچھ ہونا باقی ہے کیونکہ شوگر کمیشن اُس دن شوگر مافیا کے کام کرنے کے انداز کے متعلق اپنی رپورٹ جمع کرائے گا۔ فوجداری کارروائیاں ہوں گی، ممکنہ طور پر گرفتاریاں بھی اور ساتھ میں ایف بی آر، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان وغیرہ جیسے اداروں کی کارروائیاں بھی۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کو شوگر مافیا کی طرف سے پیغام دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے شوگر کمیشن کی جاری تحقیقات کا سلسلہ فوری طور پر نہ روکا تو ملک میں چینی کا بحران آ سکتا ہے۔ تاہم وزیراعظم نے شوگر مافیا کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ’’بیل کو سینگوں سے پکڑنے‘‘ (صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے) کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
سب بوجھ ہٹانے کا فیصلہ،عمران خان کا آپریشن کلین اپ شروع
گزشتہ سال 7؍ مئی کو دی نیوز نے خبر شائع کی تھی کہ جہانگیر ترین بربنائے عہدہ ڈپٹی پرائم منسٹر بن کر سامنے آئے ہیں۔ خبر میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کس طرح جہانگیر ترین وزیراعظم سیکریٹریٹ میں روزانہ نظر آنے والی شخصیت بن گئے ہیں۔ صرف یہی نہیں وہ پس منظر میں کام کرنے والی ماہرین کی ٹیم کی بھی قیادت کر رہے تھے اور ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان کو معیشت اور اصلاحات کے حوالے سے بڑے معاملات پر مشورے بھی دے رہے تھے، وہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ارباب شہزاد کے ساتھ کئی اجلاسوں میں شریک صدارت بھی کرتے رہے۔
وزیراعظم کی اصلاحاتی ٹیم اور شہزاد ارباب کے ساتھ اجلاسوں میں جہانگیر ترین کی شرکت کا عالم یہ تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ فیصلے وہ کر رہے ہیں لیکن عہدہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ یعنی یہ Decoy جیسا تھا۔ اگرچہ جہانگیر ترین زرعی شعبے کے مکمل انچارج کی طرح کام کر رہے تھے لیکن ساتھ ہی وہ ماہرین کی ایک مخفی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، یہ ٹیم غیر رسمی طور معیشت کے حوالے سے وزیراعظم کے تھنک ٹینک کے طور پر کام کر رہی تھی۔
یہ اسی ٹیم کی سفارشات تھی کہ وزیراعظم نے اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ساتھ ہی شبر زیدی (چیئرمین ایف بی آر کے عہدے کیلئے)، دونوں جہانگیر ترین کی پسند تھے۔ وزیراعظم کی جانب سے اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے اچانک ہٹائے جانے سے چند روز قبل، جہانگیر ترین نے ٹیلی ویژن پر ایک ٹاک شو کے دوران حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور فیصلہ سازی کی صلاحیت نہ ہونے پر اسد عمر کو واضح طور پر ہدف بنایا تھا۔
جہانگیر ترین کے بیان سے پی ٹی آئی کے اندر اور باہر کے کئی لوگ حیران رہ گئے تھے۔ زراعت کا ماہر ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے انہیں زراعت کے شعبے میں اصلاحات اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کی اجازت دی۔ انہیں نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی کھلی چھوٹ دیدی گئی تھی۔ دونوں جگہوں پر جہانگیر ترین زرعی شعبے کے کرتا دھرتا تھے؛ اس میں خوراک، لائیو اسٹاک اور آبپاشی کے شعبہ جات شامل تھے۔
یہ وزیراعظم عمران خان کا بھروسہ ہی تھا جس کی وجہ سے جہانگیر ترین کو انہوں نے ایک مرتبہ کابینہ کے اجلاس میں مدعو کرکے زراعت کے شعبے کے حوالے سے بریفنگ دینے کیلئے کہا۔ یہ عمران خان کا جہانگیر ترین پر بھروسہ ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ترین کو پی ٹی آئی حکومت کے 309؍ ارب روپے مالیت کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا منصوبہ بنانے اور اسے شروع کرنے کا کام دیا تاکہ مقامی سطح پر پیداوار بڑھائی جا سکے، درآمدات پر انحصار کم کیا جا سکے اور غریب کسانوں کی زندگیاں بہتر کرنے کے ساتھ پائیدار ترقی کی بنیاد ڈال کر آگے بڑھا جا سکے۔
گزشتہ سال اس پروگرام کا افتتاح مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا جس میں جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ صاحبزاد محمد محبوب سلطان موجود تھے۔ صوبائی وزیر زراعت پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر خوراک نے اس پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے واضح طور پر زرعی ایمرجنسی پروگرام تشکیل دینے میں زبردست کوشش کی ہے جس میں توجہ بڑی فصلوں (گندم، چاول، کپاس، گنا اور آئل سیڈ) کی پیداوار بڑھانے پر دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین نے تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا ہے اور ان کے ساتھ کئی اجلاس بھی کیے ہیں اور پروگرام کو حتمی شکل دینے کیلئے ورکنگ گروپس بھی قائم کیے ہیں۔