کورونا وائرس ، شوہر اور بیوی ماسک پہنے ہوئے

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط پنجم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط اول)

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط دوم )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط سوم )

محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط چہارم )

” امی جان! آپ کیوں رو رہی ہیں؟“ خنساء نے امی جان کو روتے دیکھا تو پریشانی سے پوچھا ۔
” میرے جدہ والے چچا جان فوت ہو گئے ہیں جو کورونا بیماری میں مبتلا تھے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔“ امی جان نے واٹس ایپ گروپ کے میسجز سے ملنے والی افسوس ناک اطلاع کے بارے میں بدقت بتایا ۔

” انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔“ خنساء کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے ۔
دوسرے بچے بھی رونے لگے ۔
” اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔“ امی جان نے بمشکل کہا ۔
” آمین ثم آمین۔“ بچوں نے باآواز بلند کہا۔

” اب تو فلائٹس بند ہونے کی وجہ سے نہ تو چچا جان کی فیملی ان کی میت لے کر پاکستان آسکتی ہے اور نہ ہی خاندان کا کوئی بھی فرد سعودیہ عرب جاسکتا ہے۔“ ابو جان نے تاسف سے کہا ۔

پھر بعد میں فیملی گروپ میں بھیجی جانے والی واٹس ایپ ویڈیو میں خنساء وغیرہ نے دیکھا کہ باہر سے نانا جان کی میت کو نہلا دھلا کر ،کفن پہنا کر جنازے کے لیے تیار کیا جا چکا تھا۔ اور اب میت کشادہ فلیٹ کے لاؤنج میں رکھ دی گئی ۔
گھر میں چند لوگوں کا آنا جانا جاری تھا۔

” امی جان! یہ سب کون لوگ ہیں؟“ خنساء نے پوچھا ۔
” یہ جدہ میں مقیم چند ایک قریب دورکے رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آجا رہے ہیں۔“ امی جان نے بتایا ۔
ساتھ انگلی کے اشارے سے مختلف لوگوں کا تعارف کروایا ۔

” دیکھیں! سب لوگوں نے ماسک لگائے ہوئے ہیں۔ گھر کے مین دروازے کے ساتھ رکھی سینیٹائزر کی بوتل سے سب لوگ ہاتھ دھو کر آ جارہے ہیں۔ لوگ نہ تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں اور نہ ہی گلے مل رہے ہیں۔ اور بیٹھے بھی فاصلے سے ہیں ۔“ عابد نے توجہ دلائی۔

ویڈیو میں منظر بدلا تو انہوں نے دیکھا کہ چند مرد وسیع ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔
چند ایک گنے چنے پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی اور عرب ہمسایوں کے ماسک لگے چہرے بھی کبھی کبھار دکھائی دیتے تھے لیکن وہ بہت کم وقت کے لیے ٹھہرتے تھے اور جلدی واپس چلے جاتے تھے۔

نانا جان کی میت کے پلنگ کے گردا گرد خواتین جمع تھیں۔ سعودیہ عرب میں مقیم ان کی بیوہ (امی کی چچی)، بیٹیاں، بہوویں، پوتیاں، نواسیاں وغیرہ تقریباً سبھی قریبی لوگ میت کے پلنگ کے قریب موجود تھے۔

بیٹیاں باپ کی پلنگ کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔ اور بہتے آنسوؤں سے رو رہی تھیں۔ قریب محتاط بیٹھی ایس او پیز پر کافی حد تک عمل پیرا چند خواتین آہستہ آہستہ عربی میں باتیں کر رہی تھیں۔
” امی جان! یہ عربی میں کیا باتیں کر رہی ہیں؟“ شمسہ نے تجسس سے پوچھا ۔

” یہ مرحوم کی زندگی کی مختلف باتیں و یادیں، حالات و واقعات، ان کے نیک اعمال وغیرہ بیان کر رہی تھیں۔“ امی جان نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا تھا۔
” آپ کو ان کی عربی میں کی گئی باتوں کی پوری طرح سمجھ آرہی ہے؟“ خالد نے پوچھا ۔
” نہیں بیٹا! پوری طرح نہیں لیکن کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے۔ ویسے بھی وفات کے موقع پر لوگ اسی طرح میت کی خوبیوں، نیکیوں اور اس کے اہل خانہ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔“ امی جان بولیں۔

خنساء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کے وہ الفاظ یاد آگئے جو انہوں نے اپنے ننھے منے بیٹے ابراہیم کی وفات پرارشاد فرمائے تھے۔ اور جو اس کی امی ہر صدمہ، ہر غم والم کے موقع پر سناتی تھیں
ترجمہ: ” بے شک آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمزدہ ہوتا ہے، مگر ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوگا۔“(صحیح بخارى: 1303)

” نانا جان کے گھر کا ماحول اس وقت ’ صبر جمیل ‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔“ خنساء نے دل میں سوچا اور زبان سے بولا ۔

” یہ منظر دیکھ کر ایک طمانیت سی رگ و پے میں اتر آئی ہے۔“ امی جان نے بھی دلی خیالات کو زبان دی ۔
” کیا نانا جان ہسپتال میں فوت ہوئے تھے؟“ شمسہ نے پوچھا ۔
” نہیں۔ پہلے وہ کافی بہتر ہوگئے تھے اور ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال سے فارغ (discharge) کردیا تھا۔ گھر آکر بھی وہ ایک دن ٹھیک رہے تھے لیکن پھر ان کی طبیعت بگڑ گئی ۔

ان کی بیماری کے آخری دو تین ایام بہت دشوار تھے۔ آخری رات وہ شدید تکلیف میں تھے اور ان کی بیماری بہت بڑھ گئی تھی۔ لیکن وہ دوبارہ ہسپتال جانے کے لیے رضامند نہیں ہوئے تھے۔ سخت تکلیف میں بھی انہوں نے شکوہ شکایت، ناشکری یا تکلیف کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے ان کا نزع کا وقت بہت آسان کردیا تھا اور ان کا حسن خاتمہ فرمایا تھا۔
نماز فجر کی ادائیگی کے بعد انہوں نے نماز کے بعد کے اذکار کے علاوہ صبح کے اذکار بھی کیے تھے۔ آخر وقت تک وہ ہوش و حواس میں تھے۔ انہوں نے وفات سے پہلے کلمہ طیبہ بھی پڑھا تھا۔“ابو جان نے بتایا ۔

” ابو جان! آپ کو یہ ساری باتیں کس نے بتائی ہیں؟“ انیسہ نے پوچھا ۔
” کچھ معلومات ہمیں واٹس ایپ گروپ سے ملی تھیں۔ پھر جب ہم نے تعزیت کے لیے کال کی تھی تو میں نے اور آپ کی امی نے باری باری بات کی تھی۔ تب باقی باتیں اہل خانہ سے معلوم ہوئی تھیں۔“ ابو جان نے بتایا۔

” نانا جان کا چہرہ کتنا پرسکون ہے ! ان کے ہونٹوں پر جیسے مسکراہٹ ہے۔“ عابد بغور ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
” مجھے تو ان کا پر سکون نورانی چہرہ اور مسکراہٹ دیکھ کر ان پر بہت رشک آ رہا ہے۔“ امی جان نے آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے کہا۔
” واقعی! ان کی موت قابل رشک ہے!“
ویڈیو دیکھتے ہوئے خنساء کے امی ابو، خنساء اور اس کے بہن بھائی سبھی لوگ رو پڑے ۔

” میرے چچا جان بہت شفیق و حلیم، ملنسار اور محبت کرنے والے تھے۔
وقت کے پابند تھے۔ اور نماز کے تو اتنے پابند تھے کہ خوشی و غمی، دعوت، ضیافت، گھر میں یا باہر کسی قسم کا اجتماع ہوتا تو نماز کے وقت پر نماز باجماعت کی نہ صرف خود ادائیگی کرتے تھے۔بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دلا کر انہیں نماز کے لیے ہمراہ لے کر جاتے تھے۔“ امی جان نے رک کر گہرا سانس لیا۔

” وہ طبیعت کے سادہ مزاج اور صاف گو تھے۔ حلال و حرام کا مکمل دھیان رکھنے والے اور حساب کتاب کے صاف اور کھرے تھے۔
کفایت شعار تھے لیکن مہمان نوازی کے لیے اور دوسروں پر کھلے دل سے خرچ کرتے تھے۔“ امی جان نے ان کی خوبیاں بیان کیں۔

” جی بالکل! بلکہ وہ نمود و نمائش، بناوٹ اور تکلفات سے بے نیاز تھے۔
مختصر اور جامع گفتگو کرتے تھے لیکن طبیعت میں مزاح بہت تھا۔ ان کی حس مزاح بہت تیز تھی۔ لیکن وہ اچھا، صاف ستھرا اور جھوٹ سے پاک مزاح کرتے تھے۔ جس محفل میں موجود ہوتے تھے، اسے اپنے چٹکلوں اور دلچسپ گفتگو سے گل و گلزار بنا دیتے تھے۔ بات کم اور مختصر کرتے تھے لیکن دلچسپ رائے میں کرتے تھے۔“ ابو جان نے ان کی طبیعت کے دیگر مختلف پہلو بیان کیے۔

” اپنے سگے والد کی وفات کے بعد میرے چچا جان مجھے باپ کی طرح لگتے تھے۔ وہ بھی میرا اور میرے اہل خانہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی بھتیجی ہونے کی وجہ سے مجھے ان کی شفقت و محبت نصیب ہوتی رہی۔ میری خوشی و غمی میں عموماً وہ شریک رہتے تھے۔ اور موبائل فون پر اور واٹس ایپ کے ذریعے میرے حالات سے باخبر رہتے تھے۔
اسی لیے میں بھی ان کی ہر وقت خبر گیری کرتی رہتی تھی۔ آج ان کی وفات پر مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے والد فوت ہوئے ہوں۔“ امی جان نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بتایا ۔

” چچا جان حقیقتاً بہت نیک انسان تھے۔ میرے ساتھ بھی ان کابہت اچھا رویہ ہوتا تھا۔ وہ سب کے ساتھ ہی بہت اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے۔ ان کے نیک اعمال بہت زیادہ تھے۔ ماشاء اللہ۔ “
اب خنساء وغیرہ بہانے بہانے سے نانا جان، ان کی خوبیوں اور ان کے نیک اعمال کو یاد کرتے رہتے تھے۔

” انہوں نے ساری زندگی صلہ رحمی کا بہت خیال رکھا تھا۔ سعودی عرب میں سیٹ ہونے کے بعد انہوں نےخاندان کے کئی لوگوں کو پاکستان سے بلایا ، اپنے ساتھ کاروبار میں سیٹ کیا یا انہیں وہاں ملازمت دلوائی تھی۔ غریب رشتہ داروں کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔“ ابو جان نے کہا ۔

” وہ رشتہ داروں کی خوشی و غمی میں شامل ہوتے تھے۔ سعودیہ میں رہتے ہوئے بھی سب سے موبائل فون پر رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب پاکستان آتے تھے تو سب رشتہ داروں سے ملتے تھے اور سب کے خصوصاً غریب رشتہ داروں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔“ امی جان نے ان کی چند مزید نیکیاں بیان کیں۔ اور صلہ رحمی کے پہلو کو اجاگر کیا۔

” یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ فی زمانہ اس طرح صلہ رحمی کرنے والے لوگ خال خال نظر آتے ہیں۔“ ابو جان نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
” وہ بہت اچھی صحت کے مالک تھے۔ لیکن کیسے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا حکم غالب آجاتا ہے۔“ امی جان نے کہا۔

” اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔“ عابد بولا۔
” درحقیقت نانا جان کی وفات نے ہم سب پر گہرے غمناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس لیے ہم ان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔“ خنساء دھیرے سے بولی ۔
” ان کو یاد رکھنے کا صحیح اور سود مند طریقہ یہ ہے کہ ان کے لیے بہت زیادہ دعائیں کی جائیں اور ان کو دعاؤں میں مستقل یاد رکھا جائے۔“ امی جان نے توجہ دلائی ۔

” اگر کوئی شخص کورونا سے صحت یاب ہو جائے تو اس میں اس کا کمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کا فضل وکرم ہوتا ہے کہ اس نے اس بندے کی زندگی اور صحت مزید لکھی ہوئی تھی۔ کورونا سےصحت یابی کے لیے نہ عمر اور نہ صحت انسان کو بچا سکتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی تقدیر اس کو موت کے منہ سے نکال لاتی ہے۔“ ابو جان نے کہا ۔

” انڈیا میں کووڈ 19 کی وجہ سے تقریباً تین ماہ تک بیمار رہنے والی ایک ہندو مریضہ نے ڈاکٹر سے مِنت سماجت کی تھی کہ ’ ڈاکٹر صاحب! آپ میرا وینٹیلیٹر ہٹا دیں کیونکہ میں اب مزید زندہ رہنا نہیں چاہتی۔“ ابو جان نے نئی خبر سنائی ۔

” کیوں؟ وہ اس طرح کیوں کہتی تھی؟“ خالد نے عالم حیرت میں گم استفسار کیا تھا۔ باقی سب بھی حیران و پریشان نظر آرہے تھے۔
” وہ مریضہ اپنی کورونا بیماری سے بہت بد دل ہو گئی تھی۔ اس نے ڈاکٹر کو کئی دفعہ اسی قسم کے نوٹس لکھے تھے۔ مثلاً
” میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے ان نلیوں سے نجات دے دیں۔“
” جب گرمیوں میں مجھے کووڈ ہوا تھا تو آپ کو مجھے بچانا نہیں چاہیے تھا۔“

اس کے بعد ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کورونا مریضہ کی موت واقع ہوگئی تھی۔“ ابو جان نے پوری بات بتائی ۔

” یہ مومن اور کافر کا فرق ہوتا ہے۔ مومن اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان و توکل رکھتا ہے جبکہ کافر ان سے محروم ہوتے ہیں۔“ امی جان نے بچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” سعودیہ عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے صورت حال بڑی نازک اور حساس رہی تھی۔
ابتدا میں خانہ کعبہ میں زمینی منزل پر مطاف کو طواف کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

پھر بعد میں اوپر والی منزلوں پر ایس او پیز کے ساتھ طواف کی اجازت دی گئی تھی۔ ملک کی تمام مساجد بند کردی گئی تھیں۔ ماسوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے۔ نماز جماعت پر پابندی لگادی گئی تھی۔ عمرہ پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اور عمرہ فلائٹس کے علاوہ بیرونی دیگر تمام فلائٹس بھی بند کر دی گئی تھیں۔“ ابو جان نے سعودیہ عرب کے حالات بیان کیے تھے۔

بچے بڑے سب یہ باتیں جانتے تھے لیکن ابو جان سے سن کر مزا آتا تھا اور ان باتوں کی مزید سمجھ لگتی تھی یا کچھ نیا فہم حاصل ہوجاتا تھا۔
” سعودیہ عرب میں تو بڑا سخت لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا۔ وہاں پاکستان جیسی صورتحال تو نہیں تھی۔“ خنساء بولی۔

” سعودی عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے علاوہ دوسرے سب شہروں میں جزوی کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ کچھ شہروں کے چند حصوں میں مکمل کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ پھر رمضان المبارک میں مساجد میں تراویح کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔“ امی جان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

” کووڈ 19 کی عالمی وبائی بیماری کے پیش نظر یہ خدشہ تک لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں فریضہ حج کی ادائیگی میں تعطل (gap) نہ آجائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ الحمد للّٰہ۔“ابو جان نے ٹھنڈی سانس بھر کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
” الحمد للّٰہ۔“ بچوں نے بھی شکر ادا کیا۔

” اس سال 2020ء میں صرف سعودی عرب میں رہائش پذیر 20 سال تا 50 سال کی عمر کے پہلی دفہ حج کرنے والے کل 10,000 خوش نصیب لوگوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ جن میں سے 3000 مقامی سعودی لوگ تھے۔ جبکہ باقی 7000 حاجیوں کا تعلق دیگر مختلف اسلامی ممالک سے تھا اور وہ اپنے ممالک کے نمائندہ عازمین حج منتخب ہوئے تھے۔“ ابو جان نے سلسلہ کلام جاری رکھا ۔

” ان کا انتخاب کس طرح ہوا تھا؟“ خالد نے پوچھا ۔
"سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے الیکٹرانک قرعہ اندازی کے ذریعے ان کا انتخاب کیا تھا۔ اور احتیاطی تدابیر کے پیش نظر ان سب لوگوں کا باقاعدہ میڈیکل چیک اپ کیا تھا اور ان کا صحت مند ثابت ہونے کے بعد ان کا انتخاب فائنل ہوا تھا۔“ ابو جان نے بتایا ۔
"وہ کتنے خوش قسمت لوگ تھے!“ خنساء نے ان کی قسمت پر رشک کیا۔
"بالکل! ان کی خوش قسمتی کے کیا کہنے!“ ابو جان نے بھی تائید کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” میرے سسر برطانیہ میں ویسے تو آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں لیکن کورونا بیماری کی ایمرجنسی میں ان کی ڈیوٹی آئی سی یو وارڈ میں لگ گئی تھی۔ جہاں کورونا وائرس کے انتہائی نگہداشت والے مریضوں کو رکھا اور ان کا علاج کیا جاتا تھا۔“ برطانیہ میں مقیم خنساء کی ایک کزن نے واٹس ایپ گروپ میں بتایا ۔

” پہلے میرے سسر جب بھی ہمارے گھر آتے تھے تو میرے چند ماہ کے چھوٹے چھوٹے جڑواں بچوں سے کھیلتے تھے، ان کو ہنساتے اور ان سے باتیں کرتے تھے۔ بچے بھی اپنے دادا جان کو دیکھ کر، انہیں پہچان کر ہنستے تھے، کلکاریاں مارتے تھے، ہاتھ پیر مارتے تھے اور خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ یہ میرے سسر کی ایک بڑی اور مستقل انجوائے منٹ تھی۔ ان کے لیے یہ خوشی و مسرت کا ایک باقاعدہ وقت تھا۔ وہ بچوں کو دیکھ کر اور ان سے کھیل کر تازہ دم ہو جاتے تھے اور بچے بھی جواباً اپنی عمر کے حساب سے انہیں ریسپانس دیتے تھے۔“ آپی نے بتایا ۔

” واہ بھئی واہ! چھوٹے چھوٹے بچے بھی ریسپانس دیتے تھے۔“ خنساء نے خوشی سے کہا۔
” جی ہاں! کیونکہ وہ بھی محبت اور شفقت کو پہچانتے ہیں۔“ آپی بولیں۔
” لیکن جب سے ان کی ڈیوٹی کورونا مریضوں کے آئی۔ سی۔ یو وارڈ میں لگی تھی، وہ بے چارے جب بھی ہمارے گھر آتے تھے تو بچوں سے کم ازکم تین چار فٹ دور کھڑے ہوکر کچھ دیر ان کو دیکھتے رہتے تھے، ان کو دور دور سے ہنسانے اور ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے۔“آپی نے کہا ۔

” اچھاااا۔“ خنساء نے دلچسپی سے لمبا سا ” اچھا “ کیا ۔
” مجھے ان پر بہت ترس آتا تھا کہ وہ احتیاط کی وجہ سے بچوں کو اب ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے۔ دیکھیں اب کب وہ سہانا وقت لوٹ کر آتا ہے جب حالات پہلے جیسے ہو جائیں گے!!!“ آپی نے حسرت سے کہا ۔
” وہ وقت جلد آجائے گا۔ ان شاءاللہ۔“ خنساء نے امید سے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “محکم ہے تیری تدبیر بہت یارب! ( قسط پنجم )”

  1. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    ماشاءاللہ۔ بہت خوب۔ بہت اچھی طرح تحریر جاری ہے۔ پڑھ کر مزہ آتا ہے۔