جویریہ خان:
پہلے یہ پڑھیے:
کورونا:1981ء میں شائع ہونے والے ناول نے کیسے کی پیش گوئی؟
بوڑھی اماں نے11 سال پہلے کیسے کی پیش گوئی کورونا وائرس کی؟
آج کے بلاگ میں میں ایک فلم، ایک ڈرامہ اور ایک کارٹون سیریز کا ذکر کروں گی جن میں کورونا وائرس کا ذکر کسی نہ کسی اندازمیں کیا گیا۔
2011ء میں ہالی ووڈ کی ریلیز ہونے والی فلم’کونٹیجن‘(contagion) میں بہت سے معروف اداکاروں، اداکاراؤں نے کام کیا لیکن اس کے باوجود یہ فلم مقبول فلموں کی فہرست کی نچلی سطح پر ہی رہی۔ کورونا وائرس پھوٹا تو ’کونٹیجن‘ کی کہانی لوگوں کو یاد آگئی۔اور لوگ یہ فلم دیکھنے کے لئے ڈھونڈنے لگے۔
اس فلم میں ایک کاروباری خاتون چین جاتی ہے، وہاں ایک شیف سے ہاتھ ملاتی ہے جس کے نتیجے میں ’ایم ای وی ون‘ نامی ایک وائرس اسے شکار کرلیتا ہے۔ شیف کو یہ وائرس ایک ذبح شدہ سور سے لگتا ہے اور سور کو ایک چمگاڈر سے۔
خاتون چین کے دورے سے واپس گھر پہنچتی ہے تو بیمار پڑجاتی ہے۔ اسے سانس لینے میں شدید تنگی محسوس ہوتی ہے۔ بیماری شدت اختیار کرلیتی ہے، اور چند دن بعد وہ ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی اثنا میں اس کا بیٹا بھی وائرس سے متاثر ہوتاہے، وہ بھی ہلاک ہوجاتاہے، شوہر بھی متاثر ہوتاہے لیکن وہ اپنی مضبوط قوت مدافعت کی وجہ سے بچ جاتاہے۔ بعدازاں پتہ چلتاہے کہ یہ وائرس اس گھرانے سے دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو شکار کرلیتاہے، اور پھر پوری دنیا میں پھیل جاتاہے۔
ڈائریکٹر سٹیون سودربرگ (Steven Soderbergh) کی اس فلم میں جب وبا پھیلنے کا شبہ ہوتا ہے تو ایک اصلی ادارے ’ایپی ڈیمک انٹیلی جنس سروس‘ کے عملے کو روانہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ متاثرہ لوگوں کی شناخت کرے اور انھیں الگ تھلگ کرے۔ نتیجتاً فلم میں امریکی شہر شکاگو کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔
فلم میں دکھایاجاتاہے کہ وائرس کے سبب ایک ماہ کے اندر پوری دنیا میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ فلم میں دنیا کا منظرنامہ دیکھ کردل دہل جاتا ہے، ہرطرف افواہوں اور تشویش کا راج ہوتاہے۔ معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
فلم میں دکھایاجاتاہے کہ جب لوگ قرنطینہ میں جاتے ہیں تومعاشروں میں لوٹ مار کے واقعات شروع ہوجاتے ہیں۔ ائیر پورٹ خالی ہوجاتے ہیں۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی تو اس کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی لوری جیرٹ نے کہا تھا کہ ”اس کا پلاٹ کچھ افسانوی ہے اور کچھ حقیقی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ ساری کی ساری حقیقت ہو“۔
لوری جیرٹ کی یہ بات یاد رکھئے گا کیونکہ یہ آپ کو صورت حال سمجھنے میں اس وقت مدد دے گی جب میں ان بلاگز کے سلسلہ کی آخری قسط تحریر کروں گی اور آپ کو ایک نتیجے پر پہنچنے میں مدد دوں گی۔
فلم میں پھوٹنے والے ’ایم ای وی ون‘ نامی وائرس اور کورونا وائرس کے مابین کئی مشابہتیں ہیں۔ فلم میں یہ وائرس ایک چمگادڑ سے ایک چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانور میں منتقل ہوا، پھر امریکی خاتون تک پہنچا۔
دوسری طرف کورونا وائرس کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ یہ چمگادڑ سے ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ’سور‘ کے ذریعے ایک شخص میں منتقل ہوا، وہ شخص ہاتھ نہیں دھوتا تھا، اور اسی طرح لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا، یوں بیماری آگے مزید انسانوں میں منتقل ہوئی۔
فلم میں اس بیماری کے پھیلاؤ کا وقت 72 گھنٹے بتایاگیا جبکہ کورونا کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس کی افزائش کا وقت ایک دن سے 14دن تک ہوتاہے۔
فلم میں دکھائی جانے والی بیماری اور کورونا وائرس میں فرق یہ ہے کہ فلم میں پھوٹنے والی وبا سے29 دنوں میں دنیا بھر میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں 29 دنوں میں 210 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔
اب آئیے! ایک ڈرامہ کی بات کرتے ہیں۔ یہ جنوبی کوریا کی ایک ڈرامہ سیریل My Secret Terrius ہے، یہ ڈرامہ 2018ء میں دکھایا گیا، آج بھی لوگ اسے نیٹفلیکس(netflix) سے دیکھتے ہیں، اس کی دسویں قسط میں بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو کورونا وائرس سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یہ واقعی حیران کن ہے۔
بنیادی طور پر اس ڈرامہ سیریل میں ایک خفیہ ایجنسی کا اہلکار ایک پراسرار ہلاکت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس میں ناکام رہتاہے، ناکامی کا اس پر اس قدر گہرا اثر پڑتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا جہان سے الگ تھلگ کرلیتاہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ کہانی ہے۔
پہلے سیزن کی دسویں قسط میں ایک ڈاکٹر ایک کردار سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہے:
”کورونا وائرس نظام تنفس پر حملہ کرتاہے، زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ یہ وائرس دو سے14دن کے اندر نشوونما پاتاہے۔ جب یہ وائرس پھٹتا ہے تو اگلے پانچ منٹ کے اندر اندر پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوجاتاہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی شرح 90 فیصد ہوتی ہے۔
باقی بات تو ٹھیک ہے لیکن آخری بات غلط ثابت ہورہی ہے کیونکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں شرح اموات کئی گنا کم ہے۔
ڈاکٹربتاتی ہے کہ میرس(MERS)، سارس(SARS) اور کورونا وائرس کا ایک ہی خاندان ہے۔2015ء میں جب میرس وائرس پھوٹا تو اس کے نتیجے میں شرح اموات 20فیصد تھی۔ پھر اس سین میں دو جملے بولے جاتے ہیں جو کورونا وائرس کے بائیالوجیکل ہتھیار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ایجنٹ نے کورونا وائرس کے بارے میں سن کر کہا کہ کیا یہ وائرس اس قدرخطرناک نہیں ہے کہ وہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہو؟ تب ڈاکٹر کہتی ہے کہ کورونا وائرس میں کسی نے شدت پیدا کی ہے اور اس کی ہلاکت خیزی کو 90 فیصدتک بڑھا دیاہے۔
جب اس سے پوچھا جاتاہے کہ کیا اس کا یعنی کورونا وائرس کا کوئی علاج ہے؟ اس نے کہا کہ”نہیں، اس وقت تک اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔“ ڈرامے میں ایک دوسری جگہ پر بچوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ وائرس سے بچاؤ کے لئے اپنے ہاتھ دھوئیں۔
مارچ2020کے وسط میں لوگوں کو اس ڈرامہ سیریل کے بارے میں پتہ چلا تو اگلے دوہفتوں تک لوگ دیوانوں کی طرح اس قسط کو تلاش کرتے رہے۔
اب آئیے! ہم بات کرتے ہیں مشہور امریکی کارٹون سیریز ’دی سمپسن‘((The Simpsons)) کی،اس کی ایک قسط کو بھی کورونا وائرس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ سمیت بعض اخبارات نے لکھاکہ 1993ء میں The Simpsons نامی ایک کارٹون سیریز میں بھی کورونا وائرس کے آنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
دی سمپسن کے چوتھے سیزن کی اکیسویں قسط میں دکھایاگیا ہے کہ براعظم ایشیا سے ایک پراسرار قسم کا وائرس سپرنگ فیلڈ نامی ایک شہر میں داخل ہوتاہے۔ اس ڈرامہ کے مطابق یہ بیماری جاپان سے پیدا ہوتی ہے، اسے ’اوساکا فلو‘ کا نام دیاگیا۔
ایک سین میں ایک جاپانی فیکٹری دکھائی جاتی ہے جہاں ایک ورکر ایک ڈبہ پیک کرتے ہوئے کھانستاہے، اس کی کھانسی کے ذریعے جراثیم اس ڈبے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہ پیک امریکا جاتا ہے، وہاں یہ پیکٹ کھلتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وائرس کے جراثیم بھی پھیل جاتے ہیں، بعدازاں اسی طرح دوسرے کئی کارٹن بھی مختلف گھروں میں کھلتے ہیں، جس کے نتیجے میں سپرنگ فیلڈ میں ہر طرف وائرس کے جراثیم پھیل جاتے ہیں۔
وائرس جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتاہے۔ پھرایک سین میں غصے سے بھرے ہوئے مریضوں کو دکھایاجاتاہے جو علاج کے لئے ایک ہسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر انھیں کہتاہے کہ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے بستر پر لیٹ جاؤ۔ تاہم انھوں نے ڈاکٹر کی بات ماننے کے بجائے قریب کھڑے ایک کنٹینر کو الٹ دیا۔ اسی اثنا میں کنٹینر کا دروازہ کھلتا ہے اور اس میں سے قید بھڑیں احتجاج کرنے والوں سے چمٹ جاتی ہیں اور انھیں کاٹنا شروع کردیتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے بھی ان مناظر کو کورونا وائرس سے جوڑنے کی کوشش کی۔ چونکہ ان مناظر میں وائرس کی جائے پیدائش اوساکا، جاپان بتائی گئی تھی اس لئے امریکا کے اتحادی ملک جاپان کی طرف سے شدید ردعمل کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ نتیجتاً ’سمپسن‘ کی اس قسط کے شریک مصنف بل اوکلے کو کہنا پڑا کہ یہ مناظر تو محض ایک مذاق تھے۔
کورونا وائرس صرف ایک بیماری ہے یا بائیالوجیکل ہتھیار ہے، ہم یہ جاننے کے لئے مختلف کڑیاں جوڑ رہے ہیں، اگلے بلاگ میں ہم آپ کو ایسے ماہرین کی باتیں سنائیں گے، جو سب کے سب امریکی ہیں، انھوں نے بھی برسوں پہلے کورونا وائرس جیسی وبا کے پھوٹنے کی پیش گوئی تھی۔