دعا عظیمی:
اس کے ہاتھ میں موٹی سی کتاب تھی، جسے وہ دیدے گھما گھما کے دیکھ رہی تھی۔” کیا پڑھ رہی ہو“
”کچھ نہیں“
”یہ کتاب ہے؟“
”ہاں“
”یہ کیسی کتاب ہے؟“
”یہ ارتقاء کے بارے میں کتاب ہے.“
اس نے کتاب کو چاروں طرف سے گھما کے ناپ کے اور تول کے دیکھا۔
”خاصی ضحیم ہے“
”تمہیں کہاں سے ملی“
”ملنی کہاں سے
اپنے چشمش چچا پڑھ رہے تھے۔“
”ہممم“
”میں سوچ رہی ہوں،“
اس سمے تفکر کے اعلیٰ درجے پہ کھڑی تھی.
تارا شیشے میں کھڑی اپنے ہونٹوں کو ٹشو سے صاف کر رہی تھی. اس کے فارغ وقت کا مشغلہ تھا۔ جب فارغ ہوتی پہلے ایک رنگ کی لپ سٹک لگاتی، ہر زاویے سے ہونٹوں کو گھماتی پھر تسلی نہ ہوتی تو ٹشو سے صاف کر کے دوسری پھر تیسری چوتھی لپ سٹک سے ہونٹوں کو رنگ لیتی۔ رنگ رنگ کے جدا جدا انداز سے خود کو دیکھتی، ابا کو اس کی اس عادت سے خاصی چڑ تھی پر وہ من کی پکی تھی۔
اور یہ دوسری بیگم صاحبہ نت نئی کتابوں کے ذائقے چکھتیں اور بڑی بہن سے کتابوں کے بارے میں عمدہ تبصرے فرماتیں کہ کہیں وہ علم و فضل کے بیش بہا خزانے سے محروم نہ رہ جائیں۔
”تارا ! اس کتاب کو دیکھ کے مجھ پہ ایک بات منکشف ہوئی ہے“
”کیا“….؟
تارا نے شیشے میں سے نظر ترچھی کر کے سارا کو دیکھا جو کتاب کو جانچ رہی تھی۔
”میں سوچتی ہوں،“ وہ گہری سوچ میں تھی۔
”کیا پتہ چلا ہے پہیلیاں نہ بجھوا
جلدی بتا“
بتا تو خیر اس نے ویسے بھی دینا تھا پر بے تابی ظاہر کرنا سامع کا کام ہوتا ہے خاص طور پہ دو صنف نازک تھیں، بھلا ایک دوسرے کی طبیعت کو نہ سمجھیں گی آخر دن رات کا ساتھ تھا.
”سمجھ آئی کہ مردوں کے چہرے اتنے خشک کیوں ہوتے ہیں…“
”بھئی وہ کریم بھی تو نہیں لگاتے“
”نہیں پگلی! یہ بات نہیں ہے“..
”وہ ایسی کتابیں جو پڑھتے ہیں،“
دیکھ نہ کیسے کیسے فلاسفر ہو گزرے ہیں، تشویش اس کے چہرے سے مترشح تھی۔
اس بے چاری نے پہلی بار فلسفے اور ارتقا کی کتاب کھولی تھی۔
ویسے تم نے عموماً مردوں کی شکلوں پہ کبھی غور کیا ہے ؟
بےچارے کیسے ہو جاتے ہیں ؟
مطلب کیسے؟
” یہ دیکھو نہ
کچھ بھالو سے ہو جاتے ہیں“.
”کچھ کم بھا لو کچھ تھوڑے زیادہ بھالو
کچھ پورے بھالو کچھ پونے بھالو“
”تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“
تارا نے اب مسکارا لگانا شروع کر دیاتھا اور اپنی آنکھ کا ایک کونا پکڑ کے اوپر کی طرف کھینچ رہی تھی۔
”خاصی مشکل ریاضت کر رہی ہو“اس نے گہرے فلسفے سے باہر غوطہ لگایا۔
”یار! یہ ایک طرف لگ جاتا ہے دوسری طرف لگتا ہی نہیں ایک جیسا“ وہ شاکی تھی۔
”اور اوپر سے تم بھالوئی فلسفے پیش کر رہی ہو “
اس نے بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
”یہ پونے بھالو کیا ہوتا ہے“
”وہ خالو تجمل ہیں نا خالہ اماں نے ان کی پوری مت مار دی ہے وہ پونے بھا لو ہیں…“
”اللہ !تم سے خدا پوچھے …“
ہنس ہنس کے اس نے پیٹ پکڑ لیا۔
”کیا اس کتاب میں یہ لکھا ہے..“
”نہیں… بھئی“
”میں تو اچھے خاصے انسانوں کے بھالو نما ہونے پہ تحقیق کر رہی ہوں۔
کہ وہ کون کون سی وجوہات ہیں جس کے بعد ان سے مرتبہ مردم چھین کر مرتبہ بھالوئت عطا کر دیا جاتا ہے۔
”باز آ جا..“۔ اس نے چھوٹی کو دیکھا عجیب حلیے میں بیٹھی فلسفے بگھار رہی تھی.
”بےفکری "
”افطاری کا سامان بنانا ہے تو چاٹ بنا لے میں پکوڑے بناتی ہوں“
ایک اور تحقیق بھی باقی ہے۔۔۔۔
کون سی؟؟؟؟
”یہ کہ عورتیں اکثر بوری بند جیسی کیسے ہو جاتی ہیں؟؟“
”اللہ روزہ لگتا ہے تمہارے دماغ کو چڑھ گیا ہے۔۔ بی بی!!“
”پہلے ایک تحقیق مکمل کرو پھر دوسری کرنا“
”یہ جو چشمش چچا ہیں
کیسے کھنکتے پھرتے ہیں “
”شادی نہ کرنے کا یہی فائدہ ہے“
ابھی تک آنکھوں میں چمک ہے، لہجے میں کھنک ہے اور بھالو پنا پاس سے بھی نہیں گزرا!!!!
”میں تو سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔“
”کیا…..؟؟؟“
”خالہ اماں کو منع کر دوں تیری شادی نصیر بھیا سے نہیں کرتے بے چارے بھالو بن کے کیسے لگیں گے …؟؟؟؟
”تو یہ سوچ جب تیرے بچے ہوں گے وہ خالو بن کے کیسے لگیں گے؟؟؟“
”لڑکیو……. پانچ منٹ رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔“
”جلدی میز لگا دو“
”دونوں ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔“
”کتاب پڑھ لی“
چشمش آنکھیں چمکاتے ہشاش بشاش ہر شے سے بے نیاز نئی کتاب بغل میں دابے کچن میں آ موجود ہوئے..
اللہ چچو آپ تو نا خانہ داری والی ٹیچر بن جائیں
پکوڑوں میں نمک تیکھا ہے آتے ہی اعلان فرمایا
اور مرچی کم یہ کس نے بنائے؟؟؟
”چھوڑیں چچا !آج ہم آپ کو ایک نئی تھیوری بتائیں گے کہ آپ ابھی تک بھالو کیوں نہیں بنے“
”مجھے معلوم ہے“
وہ ایک آنکھ میچ کے شرارت سے بولے۔
انہیں یاد تھا، یہ فلسفہ ان ہی کی اختراع تھا جسے وہ اپنا سمجھ رہی تھی…!!!
اتنے میں ابا میاں اپنی چھڑی گھماتے اور ترچھی ٹوپی سر پہ سجائے، گلا کھنکارتے میز کے قریب تشریف لے آئے تھے… سب کیموفلاج ہو گئے..کیمو فلاج یا ہائبر نیٹ۔
وہ دوبارہ نئی فکر سلجھانے میں مگن ہو گئی… تارا بھی سوچنے لگی یہ بوری بند عورتیں کون سی ہوتی ہیں؟؟؟؟ افطاری کے بعد اس کی خبر لیتی ہوں….
سائرن بجا تو میدان جنگ سجا….
(دعا کا نیا افسانہ جس کا اختتام اور نام بھالوءانہ ہے)