ڈاکٹر میمونہ حمزہ۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ہولے ہولے سرک رہی تھی، اس رات کا کیا کہنا!!
ہم حاجی کیمپ میں بیٹھے تھے، یہاں سے بسوں میں سوار ہو کر ائر پورٹ پہنچنا تھا، ان انتظار کے لمحوں میں کئی لوگ کھانا کھول کر بیٹھے تھے، کوئی پھل کھا رہا تھا اور کوئی مٹھائی اور حلوہ۔ فراخ دلی سے ایک دوسرے کو دعوت طعام دی جا رہی تھی،
روح کی غذا کا بھی پورا اہتمام ہو رہا تھا، معلمین حج کے مختلف ایام کے بارے میں ٹریننگ دے رہے تھے، واپس جاتے ہوئے انہوں نے خواتین کو آخری نصیحت کی:
“۔۔ اور خواتین بار بار مسجد ِ عائشہ (تنعیم) سے احرام باندھ کر عمرے نہ کریں ، ایسی تکرار سنت سے ثابت نہیں، ایسا نہ ہو کہ بال کاٹ کاٹ کر گنجی ہو جائیں واپسی تک!! ہاں طواف کریں جس قدر ممکن ہو“۔
بسیں آئیں تو لوگ بھاگ بھاگ کر ان میں سوار ہو گئے، سول ایوی ایشن کا ایک اہلکار پڑتال بندی کے لئے آگیا، اور لگا سب کے پاسپورٹ چیک کرنے، بزرگو، پاسپورٹ؟
اس نے سب سے اگلی سیٹ پر بیٹھے شخص کو متوجہ کرنے کے لئے آواز لگائی، مگر بوڑھے بابا جی ٹس سے مس نہ ہوئے، دوسری اور تیسری بار متوجہ کرنے پر بھی وہ کھڑکی سے افق کے پار ہی دیکھتے رہے، پیچھے سے ایک مسافر نے کہا:
” بابا جی کے گلے میں لٹکے بیگ میں چیک کر لیں“۔
”نہیں جی، ہم بیگ کو ہاتھ نہیں لگاتے“۔
اہلکار نے روکھا سا جواب دیا۔
کئی لوگوں کے متوجہ کرنے، اور کان کے قریب آکر بولنے پر بھی بابا جی نے کوئی جنبش نہ کی تو اہلکار نے بے دلی سے بیگ کی زپ کھول کر پاسپورٹ نکال لیا، یک نہ شد دو شد، بابا جی کے ساتھ ایک خاتون کا بھی پاسپورٹ تھا، جو بس میں نہ تھی، اتنی دیر میں دوسری بس کا اہلکار آواز لگاتا ہوا نکل آیا: ”غلام رسول ۔۔ غلام رسول“، اب غلام رسول صاحب کو بس سے اتار کر ان کی بیگم صاحبہ کے پاس بھیجا گیا، اور بس چل پڑی۔
اسلام آباد ائر پورٹ کے لائونج میں (جو ابھی تک بے نظیر ائر پورٹ نہیں بنا تھا، بی بی ابھی بقید حیات تھیں) میں حاجیوں کے اعزاز میں چائے سینڈوچز کا اہتمام تھا، چیک ان سے پہلے حاجیوں نے احرام پہن لئے اور دو رکعت نفل ادا کئے، اسی دوران لائونج میں کچھ ہل چل دکھائی دی،
پتا چلا کہ ایک بزرگ خاتون اپنے شوہر یعنی غلام رسول صاحب کو احرام پہننے کے لئے اصرار کر رہی ہیں، اور انہوں نے انکار کر دیا ہے کہ میں یہ نہیں پہنتا، میرا سفید جوڑا ہی ٹھیک ہے۔ آخر دو حاجی اٹھے اور بابا جی کو واش روم میں لے گئے، کچھ دیر بعد بابا جی جھنجھلائے ہوئے احرام پہن کر آگئے،
انہیں صاحبان نے اپنے ساتھ دو نفل بھی پڑھوا دیے، خاتون نے اطمینان کا سانس لیا اور ان دونوں کا شکریہ ادا کیا، ہم جہاز کے لئے لائنوں میں کھڑے تھے جب ایک مرتبہ پھر ایک ہنگامہ سنائی دیا، معلوم ہوا خاتون کی نظر بچا کر بزرگ غلام رسول دوبارہ سفید جوڑا پہن آئے ہیں اور احرام بغل میں دبا رکھا ہے،
پی آئی اے اہلکاروں نے بھی انہیں منایا مگر بابا جی اسی لباس کو پہنے رکھنے پر مصر رہے، ایک صاحب نے ذمہ لیا کہ میقات سے گزرنے سے پہلے میں انہیں پہنوا دوں گا، یوں بابا جی جہاز میں سوار ہو گئے،
ان صاحب نے نہ صرف احرام پہنوایا بلکہ ان کا سفید جوڑا بیگ میں رکھ کر اسے تالا لگا کر چابی ان کی بیگم کو دے دی، اتنے پکے کام کے بعد بابا جی آرام سے بیٹھ گئے، اور حاجی بھی ان سے توجہ ہٹا کر لبیک اللہم لبیک کی تلبیہ میں مشغول ہو گئے۔
جہاز جدہ ائر پورٹ پر اترا، امیگریشن کی لمبی قطار ختم ہوئی تو معلمین کی بسوں کا انتظار شروع ہو گیا، ائر پورٹ پر گاہے گاہے اعلانات بھی ہو رہے تھے، غلام رسول نامی مسافر کے لئے پیغام کہ ان کا بیٹا ساجد انہیں لینے آنے والا ہے، یہیں مسافروں نے وضو کر کے نمازِ ظہر ادا کی،
مسافر نماز سے فارغ ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک بزرگ حاجی سفید قمیض شلوار میں ملبوس نماز ادا کر رہے ہیں، اور دوسری جانب خواتین کے گروپ میں اماں جی سر پیٹ رہی ہیں کہ:
”باوے میرے کولوں چابی منگی سی کہ بھوکھ لگی ہے میں حلوہ کھاساں“۔(بابے نے مجھ سے چابی مانگی تھی کہ بھوک لگی ہے، میں حلوہ کھائوں گا)۔
اور اماں جی نے بے دھیانی میں انہیں بیگ کی چابی دے دی اور انہوں نے موقع غنیمت جان کر احرام اتارا اور قمیض شلوار زیب تن کرلیا، اب خواتین اماں جی کو سرزنش کر رہی تھیں کہ چابی دی کیوں؟ اور ان کے ساتھ آئی ہوئی گائوں کی خاتون الگ ناراض ہو رہی تھی کہ یہ دونوں ہمارا بھی حج خراب کرائیں گے۔
مردوں کی جانب معرکہ کچھ زیادہ ہی گرم تھا، کچھ لوگوں نے بابا جی کی منتیں کیں کہ احرام پہن لیں، مگر بابا جی بار بار کی اس دھینگا مشتی سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ انہوں نے نہ صرف صاف انکار کردیا، بلکہ کہا میں یہ بے پردہ کپڑے نہیں پہنتا،
جب ان سے کہا گیا کہ یہ اﷲ کا حکم ہے، اسے پسند ہے کہ حاجی یہ لباس پہنے تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے، اور بیوی سے کہا: ”مجھے میرے پیسے دے دو، میں سڑک پار سے ویگن لے کر گائوں جا رہا ہوں، میں نے اور کہیں نہیں جانا، صاف ظاہر تھا۔
بابا جی کی ذہنی حالت تسلی بخش نہیں تھی، مگر باقی حاجی کبھی بابا جی کو کوستے اور کبھی ان کی بیگم کو جو کچھ دیر بھی چابی کی حفاظت نہیں کر سکی، ایک صاحب نے کہا:
”ان پر دم لگے گا“۔
دوسرا بولا: ”کون پاگل ہے جو ان کو یہاں لے آیا ہے، جس کو رب کا نہیں پتا وہ کیا حج کرے گا“۔
تیسرا بولا: ”بیٹے کو نہیں پتا تھا کہ باپ کی کیا حالت ہے، خوامخواہ گناہگار بنا رہا ہے، ان کو بھی اور خود کو بھی ۔۔ “، کچھ اور لوگوں نے بھی بیٹے کو بے نقط سنائیں، ایک حاجی صاحب اپنی ہی لے میں بولے:
”میں تو سوچتا ہوں کیا ہے وہ بیٹا جو جانتا بھی ہے کہ اس کے ماں باپ بوڑھے ہیں ، ارزل العمر میں ہیں، بہت سمجھدار بھی نہیں ہیں ، پھر بھی وہ انہیں حج کی سعادت دینا چاہتا ہے، وہ انہیں یہاں کی پرنور فضائیں دکھانا چاہتا ہے، ان کی آخرت بنانا چاہتا ہے، کیا سعادت مند ہے وہ بیٹا، اور کیا خوش نصیب ہے یہ بابا “۔
اتنی دیر میں ذرا ہلچل ہوئی، پتا چلا کہ ساجد صاحب پہنچ گئے ہیں، کئی لوگوں نے ساجد کی طرف رخ کیا، وہ بڑے اطمینان سے بولا:
”میں نے دار الافتاءسے پتا کر لیا ہے، ان پر دم لگے گا، بس ایک جانور قربان کر دوں گا، اور انہیں دوبارہ میقات لے جائوں گا، ٹیکسی لے کر آیا ہوں، فکر کی کوئی بات نہیں“۔
اب سب سوچ رہے تھے کہ بیٹا باپ سے کیا کہے گا، ساجد مجمع چیر کر آگے بڑھا اور باپ کو گلے لگا لیا، ماں نے بھی آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لیں، ساجد نے بڑے پیار سے بابا جی سے کہا:
”تساں احرام وی لوائی چھوڑیا اے، ہن تساں کی میقات کھڑساں، فیر اﷲ سوہنے نے گھار جاسا“۔ (آپ نے احرام بھی اتار دیاہے، اب آپ کو میقات لے کر جائوں گا، پھر سوہنے ﷲ کے گھر جائیں گے)۔
باباجی اس طرح سر ہلا رہے تھے جیسے طفل ِ مکتب ہوں:
۔ ”ہوں، ماڑا بچہ آئی گیا اے،ماڑا شیر دل بچہ، بچہ جس طرح کیسو اسے طرح کرساں“۔ (ہوں، میرا بیٹا آ گیا ہے، میرا شیر دل بیٹا، بیٹا جیسے کہو گے ویسے ہی کروں گا)۔
کچھ لمحے بعد ہی بابا جی اس طرح باتیں کر رہے تھے اور ساجد کے قصّے سنا رہے تھے کہ کوئی نہ جان سکتا تھا کہ کچھ دیر پہلے تک وہ کیا کر رہے تھے، ایک حاجی نے آگے بڑھ کر کہا:
”ان کا جنون شاید بیٹے کا فراق ہی تھا“ ۔
(تیرہ سال پرانا قصّہ)۔