مارموٹ

رٹو سے آگے (9)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ

ابن فاضل :

رٹو سے آگے ( 1 )

رٹو سے آگے ( 2 )

رٹو سے آگے ( 3 )

رٹو سے آگے ( 4 )

رٹو سے آگے ( 5 )

رٹو سے آگے ( 6 )

رٹو سے آگے ( 7 )

رٹو سے آگے ( 8 )

یہ تو طے تھا کہ ہم نے ہرگز واپس نہیں جانا، سو ان امکانات پر غور کر رہے تھے جس سے ہم بالکل محفوظ طریقے سے شنٹر کے پار اتر جائیں. سب سے پہلا خیال یہی آیا کہ کوئی گائیڈ اور پورٹر مل جائیں تو ہم بھٹکے بغیر شنٹر پہنچ سکتے ہیں. نیز یہ کہ ساڑھے پانچ ہزار فٹ عمودی چڑھائی پندرہ کلوگرام کا رک سیک اٹھا کر کم ازکم ہمارے لیے تو ناممکن ہی تھی. سو ہم نے مقامی لوگوں سے مدعا ظاہر کیا. انہوں نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور ایک آدمی کو بلا بھیجا. کچھ دیر میں ایک درمیانی عمر، مضبوط جسم کا دراز قد باریش شخص ہمارے درمیان تھا. اسے بتایا گیا کہ انہیں پورٹر گائیڈ کی ضرورت ہے.

اس نے ہامی بھر لی کہ میں گھوڑا لے کر آجاؤں گا. سامان گھوڑے پر لاد لیا جائے گا اور آپ ساتھ ساتھ چلتے رہنا. لیکن میں ایک ہزار روپیہ مشاہرہ لوں گا. ایک ہزار روپے کا مطلب آج کے حساب سے بارہ ، پندرہ ہزار سمجھ لیں، کیونکہ اس وقت پٹرول سات روپے لیٹر تھا. اور ستر سی سی موٹر سائیکل کے اشتہار پر دس پیسے کی شبیہ بنی ہوتی تھی کہ دس پیسہ فی کلومیٹر.

ہم نے تھوڑی سی بحث کی، ان علاقوں کے لوگوں کی عمومی مہمان نوازی کا قصیدہ پڑھا. اپنی غریب الوطنی کا نوحہ سنایا. نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سات سو تک آگیا. یہ اس کی آخری حد تھی. اور ہماری پہلی اور آخری خواہش شنٹر کے پار اترنا تھا. سو سات سو پر ایم او یو سائن کردیا گیا.

اب مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ وہ صاحب کہیں کہ وہ آج نہیں آسکتے، آپ جائیں اور پہاڑ کے بیس پر جاکر خیمہ زن ہوجائیں، وہ صبح پانچ بجے ہمارے پاس پہنچ جائیں گے. شنٹر کا بیس کیمپ ابھی یہاں سے دس بارہ کلومیٹر دور تھا. اور گیارہ پہلے ہی بج چکے تھے.

مزید گفت وشنید میں وقت بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ہمارے ذہنوں میں کئی وسوسے بھی سر اٹھا رہے تھے. اگر یہ نہ آیا. اگر ہم اسے نہ مل سکے. اگر ہم شنٹر کی جگہ کسی اور پہاڑ کے چرنوں میں تشریف لے گئے وغیرہ وغیرہ. ہم نے اپنے خدشات کا اظہار انتہائی محتاط الفاظ میں کیا. لوگوں نے کہا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ نہ آئے. ایک تو مشاہرہ طے ہوچکا ہے اور دوسرا ہمیں اندازہ ہے کہ آپ لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے.

پھر بھی ہم نے اچھی طرح شنٹر کا محل وقوع سمجھا. جی میں یہی خیال تھا کہ اگر یہ نہ بھی آیا تو ہمیں اتنی اچھی پہچان ہوکہ خود سے اسے پہچان پائیں. تاکہ بخیریت آگے چلے جائیں. انہوں نے سمجھایا کہ یہاں سے نالے کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں. آگے جاکر راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا وہاں سے آپ نے دائیں ہاتھ والے راستہ پر سفر جاری رکھنا ہے یہاں تک کہ آپ پہاڑ کے دامن پہنچ جائیں گے.

آگے سیدھا پہاڑ کھڑا ہو گا. اور وہیں سے برف شروع ہوگی. اس برف سے پہلے خیمہ لگا دیں. صبح پانچ بجے ہر طرح سے سامان لپیٹ کر تیار ہوں کیونکہ پہاڑ کی چوٹی تک بہ سرعت تمام بھی گئے تو گیارہ بجے پہنچ پائیں گے. اور بارہ بجے سے پہلے آپ نے ہر صورت نیچے اترنا ہے.

شنٹر کے بارے میں اس نے بتایا کہ جب پہاڑ پر چڑھنا شروع کریں گے تو اوپر آپ کو دو درے ساتھ ساتھ دکھائی دیں گے. ایک آپ کے بالکل قریب ہوگا اور دوسرا کچھ فاصلے پر. آپ نے دوسرے والے درہ سے نیچے اترنا ہے کیونکہ وہی شنٹر ہے اور محفوظ راستہ بھی. جبکہ قریب والا موت کی وادی میں اترتا ہے.

ہم نے سارا نقشہ ذہن پر اس طرح نقش کیا کہ ہمیں سب مجسم سامنے نظر آنا شروع ہوگیا. ہوٹل سے کھانا کھایا. ذہن اس قدر محو تھا کہ بالکل معلوم نہیں کہ کیا کھایا. اور پھر قریب ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے عازم سفرآخر ہوئے. مطلب یہ ہمارا اس وادی میں اس مہم کا آخری سفر تھا.

اس وقت بڑے سے بڑا نوٹ شاید پانچ سو کا تھا. جانے سے پہلے ہم نے یہ تسلی کر لی کہ پورٹر کم گائیڈ کو سات سو دینا ہیں وہ ہمارے پاس کھلے پیسوں کی صورت میں موجود ہوں. یہ نہ کہ ہو کہ شنٹر سے پیسے کھلے کروانے کیلئے پھر ایک بار رٹو آنا پڑے کیونکہ آخری آبادی یہی ہے. نالے کے ساتھ ساتھ سفر بالکل معمول کی ہائکنگ ہے. کبھی اتار، کبھی چڑھاؤ. اور ہم. آرام سے نپی تلی رفتار پر قطار اندر قطار، قدم قدم آگے بڑھ رہے تھے.

ان علاقوں میں بندر سے تھوڑا چھوٹا، چوہے کی شکل کا ایک جانور بہت پایا جاتا ہے.نہیں معلوم مقامی زبان میں اسے کیا کہتے ہیں اور نہ غیر مقامی زبان میں ہی معلوم ہے. بس اتنا پتہ ہے کہ دیوسائی، اور سدپارہ کے گرد مختلف مہمات میں ہم نے اسے بارہا دیکھا، شاید کچھ شرمیلا اور کچھ ڈرپوک ہونے کی وجہ سے ہمارا اس سے براہ راست تعارف نہیں ہوسکا تھا.

آج مگر ان کی ایک جماعت کا تعارف ہی نہیں بلکہ ہماری خبرگیری کا ارادہ تھا. ہم چاروں شرفا بڑے مزے سے قطار اندر قطار سفر کررہے تھے کہ دائیں طرف کسی قدر اونچے پہاڑ سے ہمارے اوپر جیسے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی. نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا تو ان چوہا نما بندروں کا ایک غول کافی بلندی سے ہماری جانب پتھر لڑھکا رہا تھا. جو پہاڑ کے ساتھ ساتھ لڑھکتے ہوئے ہم تک پہنچ رہے تھے.

ہمیں اس خطہ ارضی کے ان مقامی رہائشیوں کا یہ انداز خوش آمدید بہت عجیب لگا. شاید ان کی طبع فطرت آہنگ پر اس قدر خوبصورت اور پرسکون ماحول میں انسانی قدموں کی چاپ سے ہونے والی صوتی آلودگی گراں گذری تھی جس پر احتجاجاً انہوں نے اس آلودگی کے ذمہ داران کو سزاوار سنگ زنی جانا.

ہم نے جواباً ،بہرحال اشاروں اور آوازوں سے پیغامات تہینات بھیجے، جو انہیں اور بھی برے لگے. کیونکہ سنگ باری کی رفتار بڑھا دی گئی تھی. بس پھر حضرت انسان کا اندر کا بندر جاگا اور ایک ہی جوابی حملے میں سب کے سب وہاں سے بھاگ لیے.

کچھ فاصلہ چلنے کے بعد مقامی لوگوں کے بتائے گئے نقشہ کے مطابق راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا تھا. یعنی یہاں دو وادیوں کا سنگم تھا. ہم نے حسبِ ہدایت دائیں طرف کا راستہ پکڑا اور چلتے رہے. اب ہمیں سامنے بلند وبالا برف پوش چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں. اور ہم انہی چوٹیوں کے پار جانا تھا. ان کی بلندی اور رعب دیکھ کر ایک بار تو دل خائف ہوا لیکن کیا ہے کہ جب سے ” ارنسٹ ہیمنگ وے “ کے مشہور زمانہ ناول ” دا اولڈ مین اینڈ دا سی “ پر بنی فلم دیکھی ہے، ہماری زندگی کا بس یہی نعرہ رہا ہے
“Man is not made for defeat, a man can be destroyed but not defeated “

بس اب بھی ہم اسی نعرہ کا دل ہی دل ورد کرتے آگے بڑھ رہے تھے. ان دنوں یہی ہمارے لیے اسم اعظم تھا، یہی ہمارے اوراد فتیحہ اور یہی وہ انگریزی تعویذ جس کا آپ نے ہم سے بارہا تذکرہ سن رکھا ہے. گو کہ بعد میں کسی مرد قلندر نے ہمارا تعارف اصلی والے اسم اعظم اور ذات اعظم سے بھی کروادیا تھا. خدا انہیں جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، تاہم اب بھی ہمارے خیال میں انسانوں کی سہل پسندی اور سستی سے جڑی ہر بیماری کا یہ وظیفہ شافعی و کافی علاج ہے.

شام ڈھلے ہم شنٹر کی بیس پر پہنچ چکے تھے. پرشکوہ، حسین مگر ہیبت ناک، مکمل برف سے ڈھکا پہاڑ اپنی تمام تر رعنائی ورعب کے ساتھ ہمارے سامنے ایستادہ اپنے خالق کی صناعی، حسن تخلیق اور ذوقِ جمال کی غمازی کررہا تھا. برف شروع ہونے سے دس قدم ادھر ہم نے ایک ہموار جگہ پر خیمہ لگایا. جس جگہ خیمہ لگایا وہ جگہ صرف خیمہ کے جتنی ہی چوڑی تھی. دائیں طرف پہاڑ تھا اور بائیں طرف برف کے نیچے سے نکل کر آنے والا ٹھنڈا شفاف نالا بہہ رہا تھا.

اب جس آزمائش کا ہمیں سر دست سامنا تھا وہ تھی بھوک. شام کے چھ بج رہے تھے، گیارہ بجے کا کھانا کھا رکھا تھا. اور مسلسل پیدل سفر بھی کیا تھا. نیز یہ کہ صبح پانچ بجے سفر شروع کرنا تھا، اور بارہ بجے سے پہلے شنٹر پار کرنا تھا. اور شنٹر کے اس پار کون سا ہماری خالہ صغراں تیتروں کی کڑاہی اور گڑ والی سویاں بنا کر ہمارا انتظار کررہی تھیں. نہیں معلوم کہ اگلا کھانا اب کب نصیب ہونا تھا. سوجیسے بھی ممکن ہو اس کھانے کو ہی زبردست اور انتہائی صحت بخش ہونا چاہیے تھا.

دوسری طرف جب اپنے ذخیرہ خوراک کا جائزہ لیا تو اس میں سے سوائے چاولوں کے کچھ برآمد نہ ہوا. ہم شنٹر پار کرنے کی دھن اور متوقع مسائل کے دباؤ میں آج رات کے کھانے کے متعلق بالکل بھی سوچ نہ پائے. اور چاول پکانے کے متعلق ہماری ہنرمندی سے تو آپ اچھی طرح آشنا ہیں ہی. پھر بھی مگر اب کچھ تو کھانا تھا سو ایک بار پھر عزمِ نو لیے چاولوں سے کوئی نئی ڈش ایجاد کرنے کیلئے تیار تھے.

اس بار مٹی کے تیل کا چولہے جلایا گیا. پتھروں سے دیگچی کا سٹینڈ بنایا. چاول نالے کے یخ بستہ پانی میں بھگو کر رکھ دیے. اور پیاز…. مگر پیاز تو تھے ہی نہیں. اف پھر اب کیسے پکیں گے چاول. تڑکا کس چیز سے لگے گا، رنگ کیسے نکلے گا.

اس بابت نہ آئن سٹائن نے کچھ بتا رکھا تھا اور نہ ہی حضرت علامہ نے. سو خود ہی کچھ کرنا پڑے گا. ہم نے رنگ نکالنے والی تمام دستیاب اشیاء اکٹھا کرنے فیصلہ کیا. تلاشِ بسیار کے بعد ہمیں سینتیس دانے چائے کی پتی کے اور تہتر چھلکے بھنے کالے چنوں کے مہیا ہوئے تھے. چونکہ ہم جانتے تھے کہ بڑی بڑی کمپنیاں بھی پتی میں کالے چنوں کے چھلکے برکت کیلئے ڈالتی ہیں، سو ہم نے از خود یہ برکت حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور وہ بھی چاولوں کے تڑکے کے طور پر.

اب ترتیب دیکھیں. پہلے تھوڑے سے پانی میں پتی اور چاولوں کے چھلکے ڈال کر قہوہ بنایا گیا. اس قہوہ میں تھوڑا سا گھی اور نمک مرچیں ڈال کر براؤن چاولوں کا مسالہ بنایا گیا. اس میں پھر مزید پانی ڈال کر ابلنے کیلئے رکھ دیا. اور اس سارے عمل میں بھر پور احتیاط برتی گئی کہ چاولوں کو بالکل علم نہ ہو کہ ہم نے یہ سارا فارمولا بنا پیاز کے تیار کیا ہے.

پچھلی بار چاول باہر سے گلے تھے اور اندر سے سخت تھے. لیکن اس بار انہوں نے یہ منافقت نہیں دکھائی. وہ باہر سے بھی نہیں گلے تھے. اور وجہ اس یک رنگی کی شاید سطح سمندر سے زیادہ بلندی تھی. پھر سعی مزید کے طور پر ان میں مزید پانی ڈالا گیا، پانی کا درجہ حرارت برف سے دو ڈگری زیادہ ہوگا.ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس ٹھنڈے پانی کی آمیزش کو بھی چاول فعل ناپسندیدہ گردانتے ہیں. سو وہ پکنے کی بجائے آہستہ آہستہ ایک ربڑ کے گولے میں تبدیل ہورہے تھے. اور ہم صبروشکیب سے ان کو بس دیکھ سکتے تھے.

تمام تر دستیاب علم وتجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے بالآخر ہم گھنٹے بھر کی ریاضت سے ایک بڑا سا دانے دار ہلکا براؤن کوفتہ پکانے میں کامیاب ہوچکے تھے. معلوم انسانی تاریخ میں روئے زمین پر یہ پہلا کوفتہ تھا جو گوشت کے بغیر بنا تھا اور اسے کھاتے ہوئے سخت کوفت ہورہی تھی.

ساری مشق پکوائی چونکہ خیمہ کے باہر کی گئی تھی. اس لیے خوب سردی کھائی تھی. برف کے بہت بڑے پہاڑ سے ٹکرا کر آنے والی ٹھنڈی یخ ہوائیں تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود جسم کو چھلنی کررہی تھیں. لہٰذا جیسا تیسا کھانا کھانے کے بعد ہم نے نالے کے ٹھنڈے یخ پانی کو تھوڑا گرم کرکے اس سے دو دو پیراسیٹامول کھالیں تاکہ موسم کی جارحیت سے محفوظ رہ سکیں. حالانکہ ضرورت تو چائے کی تھی مگرذخیرہ میں موجود ساری پتی رنگین کوفتہ کی نذر ہوچکی تھی.

ایک بات جسے یہاں بتائے بغیر یہ داستان مہم شاید نامکمل رہے وہ یہ کہ برفیلے پہاڑ کے پہلو میں اس یخ بستہ شب کا آسمان اس قدر خوبصورت اور تاروں بھرا تھا کہ ہم نے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا تاروں بھرا آسمان دیکھا. اس پر تاحد نگاہ ،نقرئی برف سے ٹکرا کر آنے والی چاند کی مدھم روشنی نے ماحول کو طلسم کدہ بنارکھا تھا. جی چاہتا تھا کہ خیمہ کے باہر بستر بچھا کر آسمان کی طرف منہ کئے لیٹ جائیں اور سپیدہ سحر تک بس اسے ہی دیکھتے جائیں. مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

ایک تو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا، دوسرا ہمیں بہرحال توانائی بحال کرنے کیلئے اور تازہ دم ہونے کیلئے سونا تھا. اللہ کا شکر ہے تمام تر خوف، اوہام، تنہائی اور موسمی شدت کے باوجود سکون سے سوئے. حیاتیاتی الارم کی پہلی گھنٹی پر علی الصبح بیدار ہوئے.جلدی جلدی خیمہ اور دیگر سامان سمیٹا.

اشیاء سمیٹنے کے دوران ہم نے نوٹ کیا کہ رات جو نالہ ہمارے خیمہ کے بائیں طرف تھا اب نہیں ہے. صبح کے ملگجے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جما پڑا ہے اور شفاف سخت برف کا ایک بڑا سا تختہ بنا تھا. یہ ہماری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ کوئی تیز رفتار پہاڑی نالہ شب بھر میں جم گیا ہو. ابھی ہم پوری طرح تیار نہ ہو پائے تھے کہ ہمیں اندھیرے میں دور سے ایک ہیولا اپنی اور بڑھتا دکھائی دیا.

قریب آنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی صاحب ہیں اور گھوڑے سمیت تشریف لے آئے ہیں. ہماری تسلی اور ذہنی آسودگی کا اندازہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے کبھی بیچ منجدھار ڈوبتے ہوئے کو کسی رضاکار نے آن بچایا ہو. جلدی جلدی سارے بیگ گھوڑے پر لاد کر باندھے گئے اور برف پر پہلا قدم رکھا. جو لوگ ایسے تجربات سے گذرتے رہتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ برف جب گررہی ہوتی ہے یا تازہ گری ہوتی ہے، وہ تو بالکل نرم ہوتی ہے.

اس پر پاؤں رکھتے ہیں اندر دھنس جاتے ہیں، جبکہ پرانی برف بہت ہی سخت اور پھسلویں ہوتی ہے. اس پر پاؤں جمانے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے. اور ہمیں جس برف کا سامنا تھا وہ سخت اور پھسلویں ہونے کے ساتھ ساتھ عمودی بھی تھی. سو ہر قدم پر پنجے سے ٹھوکر لگا کر اس کا کچھ حصہ اڑانا پڑتا تاکہ پاؤں جمانے کیلئے پاؤں بھر جگہ سیدھی میسر آجائے.

اسی ترتیب سے برف پر ستواں چڑھائی کا سفر شروع ہوا. شروع میں تو ہمارا گائیڈ اور ہم ساتھ ساتھ چل رہے تھے. لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اور چاولوں کے کوفتہ سے حاصل کردہ توانائی معدوم ہوتی گئی ہمارا اور گھوڑے والے کا فاصلہ بھی بڑھتا گیا. البتہ اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ گھوڑے کے چلنے کی وجہ سے برف پر جو گہرے نشان بن رہے تھے ہمیں ان نشانوں پر چلتے ہوئے نسبتاً کم زور لگانا پڑرہا تھا.

پہلے ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں ہمیں لگا جیسے ہم نے نصف فاصلہ اور نصف بلندی طے کر لی ہے اور اسی رفتار سے ہم ڈیڑھ نہیں تو دو گھنٹے میں ٹاپ پر ہوں گے لیکن ہمارا خیال اور تجزیہ دونوں خام تھے. کیونکہ اگلے گھنٹہ ڈیڑھ کی مشقت اور چڑھائی کے بعد بھی یہی لگ رہا تھا کہ نصف فاصلہ طے ہوچکا ہے.( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں