پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ
ابن فاضل :
رات حسبِ معمول خیمہ میں گزاری. مزے سے اٹھے، سامان سمیٹا، اور بادل نخواستہ ربڑ مارکہ انڈوں سے ناشتہ کرنے چل دیے. وقت لگا کر ناشتہ کیا. غوری اور ہم ہمیشہ چائے کے دوکپ پیتے تھے. چٹا سارے دن میں ایک کپ. کیونکہ اسے کسی نے بتا رکھا تھا کہ زیادہ چائے پینے سے رنگ کالا ہوجاتا ہے. گو کہ ہم نے اسے بارہا بتایا کہ بھائی ! آپ تسلی رکھو کسی ایشیائی کا رنگ سے اس زیادہ کالا ہوہی نہیں سکتا. یعنی جینیاتی طور پر یہ ممکن ہی نہیں… مگر افسوس ہر شعبہ زندگی میں ہماری مشاورت سے فیصلے کرنے والا، اس بابت کبھی ہم پر بھروسہ نہ کرسکا۔
دس بجے گاڑی نے رٹو کے لیے روانہ ہونا تھا مگر آپ تو جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں وقت پر صرف اجل ہی آتی ہے سو گیارہ بجے کے بعد کہیں روانہ ہوئے. یہ ایک سرخ رنگ کی سی جے سیون تھی. ہمیں اور چٹے کو ڈرائیور کے ساتھ سیٹ ملی اور دیگر دو جوان پچھلے حصہ میں عمودی طور پر محو سفر تھے. جیپ میں انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر حیات ارضی یعنی بکریاں اور مرغیاں بھی محو سفر تھیں. یہ البتہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ بھی کیپٹن اشفاق حسین کی فین تھیں یا یونہی بے سبب جارہی تھیں۔
وین والے نے باآواز بلند بھارتی گانا ” سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آگئی “ لگارکھا تھا. جب بھی گانا ختم ہوتا وہ کیسٹ ریوائنڈ کرتا اور دوبارہ چلادیتا۔ یہ گانا دیویا بھارتی پر فلمایا گیا تھا جس نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ممبئی میں کسی بلند عمارت سے کود کر خودکشی کی تھی۔ سو اس تناظر میں ہمارے لیے وہ سننا تکلیف دہ تھا۔ ہم نے درخواست کی کہ کوئی دوسری کیسٹ لگا لو جسے شرف قبولیت ملتے ہوئے کافی وقت لگا۔ قریب آدھ گھنٹہ بعد اس نے ہماری درخواست پر عمل درآمد کرتے ہوئے شاید انتقاماً پشتو گانے لگادیے۔
استور سے رٹو کا راستہ بھی بے حد خوبصورت ہے مگر اس کا حسن سبزہ وگل نہیں بلکہ پرہیبت کالے پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ ان پہاڑوں میں بمشکل تمام ہی کہیں سبزہ نظر آتا ہے. دائیں طرف شفاف پرشور پرزور نالہ بہتا ہے جو غالباً جاکر دریائے استور میں شامل ہوتا ہے. اور دریائے استور آخر کار زبردست سندھ کی شان بڑھاتا ہے . وادی کافی چوڑی ہے. سڑک گہرائی میں نالے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے. کبھی اوپر بھی چلی جاتی ہے. نومبر کے شروع سے ان علاقوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے، جو مارچ کے اختتام تک اور کبھی وسط اپریل تک جاری رہتی ہے. اس دوران یہاں ہر شے برف کی چادر اوڑھے رکھتی ہے.
استور کے علاقے میں قابل کاشت زمین موجود ہے وہاں دیگر پہاری علاقوں کی طرح سال میں ایک ہی فصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اولین ترجیح گندم ہی کی رہی ہوگی. مختلف علاقوں کی بلندی کے حساب سے اواخر اپریل سے وسط مئی تک کاشت ہوتی ہے اور ستمبر کے آخر میں فصل اٹھائی جاتی ہے. اس کے علاوہ پھلوں میں آڑو، سیب، خوبانی، شہتوت، چیری اور بادام بکثرت پیدا ہوتے ہیں.
استور سے رٹو پینتیس کلومیٹر دور ہے اور آج کل یہ فاصلہ ایک گھنٹہ میں طے ہوتا ہے لیکن تب ہمیں شاید تین ساڑھے تین گھنٹے لگے. راستہ میں آنے والی بستیوں میں پرسکون انداز سے گاڑی کھڑی کردی جاتی. سواریاں اترتیں . مزید سواریوں کا انتظار بھی کیا جاتا. بکریوں ، مرغیوں کی پکڑدھکڑ بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی. استور کے بعد آنے والا قابلِ ذکر قصبہ گوری کوٹ ہے. خدا کی قدرت ہے کہ گوری کوٹ سے کچھ آگے پہاڑ ایک دم سرسبز ہوجاتے ہیں. پھر رٹو تک اور اس کے آگے کا کافی علاقہ زبردست زرخیز اور سرسبز ہے.
ان علاقوں میں فضا بہت صاف ہے. مگر ہماری جیپ ان خوبصورت صاف فضاؤں میں ڈیزل کا کالا دھواں چھوڑتی آگے بڑھ رہی تھی. کالا دھواں یہ صاف فضا ئیں مادی ترقی کے خراج کے طور خندہ پیشانی سے جذب کرلیتی ہیں. اور ہم سفر کے خراج کے طور پر پشتو گانے جذب کررہے تھے. ویسے ہمیں لگتا ہے کہ سارے پشتو گانے ایک ہی دھن اور رفتار پر بنائے جاتے ہیں. بالکل جیسے چار سو میٹر کی دوڑ ہوتی ہے ویسے لگتے ہیں. ایک بار جو فائر کی آواز سے شروع ہوتی ہے تو اختتامی فیتہ کو چھو کرہی ختم ہوتی ہے.
رٹو میں ہمیں جہاں اتارا گیا وہاں سامنے ہی ایک بڑا سا سکول تھا. اگر کسی بستی میں قیام کرنا ہو تو بالعموم ہماری خواہش ہوتی ہے کہ سکول کی حدود میں خیمہ لگایا جائے. کیونکہ چاردیواری کے اندر جانوروں وغیرہ کے داخلہ کے امکانات کم سے کم ہوتے ہیں. ویسے تو ان دوردرازعلاقوں میں بہت سے سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہی ہوتے ہیں. اور کمرے کے آگے چھوٹا سا برآمدہ ہوتا ہے. چاردیواری کا تکلف نہیں ہوتا. لیکن یہ سکول خاصا بڑا تھا اور اس کی چار دیواری بھی تھی. بس رات یہیں بسر کرنے کی نیت سے ہم سکول میں داخل ہو گئے. اب ہمیں کسی ذمہ دار شخص کی تلاش تھی.
سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سکول میں ہی سکونت پذیر تھے. انہیں اطلاع ملی تو تشریف لائے. ہم نے تعارف کرایا اور مدعا بیان کیا. انہوں نے نہ صرف ہمیں شب بسری کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ حکم دیا کہ کل ان کے نویں اور دسویں کے طلباء کو موٹیوشنل لیکچر دیا جائے تاکہ ان میں کچھ ترقی کی آرزو پیدا ہو۔
سکول کے میدان میں ایک طرف خیمہ نصب کردیا گیا. سامان رکھ کر رٹو دیکھنے کیلئے نکلے. سڑک کے دائیں طرف سکول تھا. سکول کے دائیں طرف نیچے وادی ہے جس میں نالہ ہے. سڑک کے بائیں طرف تھوڑی سی اٹھان کے ساتھ پیچھے اونچے پہاڑ. پہاڑ کے اوپر سورج چمک رہا تھا. اور عین وسط میں ایک بہت بڑی آبشار بہہ رہی تھی. یہ منظر ہی اس قدر خوبصورت تھا کہ ہمارے جیسے اوسط حسن پرست کو مبہوت کرنے کے لیے کافی تھا.
ہم رٹو کے تقریباً وسط میں کھڑے تھے. ہمارے دائیں طرف نالہ تھا تو سامنے کی طرف سے دو وادیوں نے انگریزی کا حرف وائی بنا رکھا تھا. یہ ایک وادی میرملک اور دوسری پھولووئی. دونوں وادیوں کے سنگم پر خوبصورت سرخ سرکاری عمارت اور تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ. بے شک رٹو بہت ہی خوبصورت جگہ ہے. اگر ہم اپنے پیمانے سے بتائیں تو راما سے نصف سے زیادہ خوبصورت ہے۔ رٹو کے طول وعرض آوارہ گردی کرنے اور کھانا کھانے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ آبشار پر جایا جائے مگر دیگر تینوں دوستوں کو لگتا تھا کہ اگلے معرکے بہت سخت ہیں ہمیں آرام کرنا چاہیے.
ہم نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انہیں خیمے میں چھوڑا اور خود کیمرا کی معیت میں آبشار کی طرف چل دیے. تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی کٹھن چڑھائی کے بعد ہم آبشار کے بالکل قریب پہنچے. پہاڑوں کے پیچھے سورج چھپنے کی کوشش کررہا تھا. کچھ وقت وہاں رکنے اور چند تصاویر بنانے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا. یاد رہے کہ اس وقت کیمرے میں فوٹو گرافیک فلم پڑتی تھی جس میں چھتیس تصاویر ہوتی تھیں. ہم بہرحال کچھ احتیاط سے انتالیس، چالیس تصاویر نکال لیا کرتے تھے.
یہ یاشیکا کا ایک سٹینڈرڈ لینز والا کیمرا تھا. فلم اور اس کی دھلائی پھر پرنٹنگ وغیرہ سب کافی خرچے والا کام ہوتا تھا اور دوران تعلیم وسائل بہرحال محدود ہی ہوتے ہیں سو آج کل کی طرح ایک منظر کی بے تحاشہ تصاویر لینے کی عیاشی نہیں کی جاسکتی تھی. عموماً ہم ایک مہم پر تین رول یعنی ایک سو بیس تصاویر لیا کرتے تھے. آج کل تو اس سے چھوٹے سفر میں ہزار تصاویر ہوجاتی ہیں.
جب ہم واپس پہنچے اندھیرا ہوچکا تھا. خیمہ میں تاش کہ بازی اور گرما گرم بحث جاری تھی. تین لوگوں میں ہم اڑتالیس پتوں کے ساتھ رنگ کھیلا کرتے تھے جس میں ٹیموں کی بجائے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار دار ہوتا ہے. ہماری تشریف آوری پر کورم پورا ہوگیا اور دیر گئے تک رنگ کی بازی، چائے اور بھنے ہوئے چنوں کا دور چلتا رہا. گو کہ اس وقت ابھی رات بارہ بجے سونے کا چلن نہیں تھا تاہم شہروں میں پھر بھی رات ان دوردرازعلاقوں کی نسبت دیر سے ہی ہوتی تھی. وہاں تو سورج غروب ہوتے ہی گلیاں ایسے سنسان ہوتی ہیں جیسے کرفیو نافذ کردیا گیا ہو.
صبح خیمے کے گرد سکول کے طلبا کا ایسے مجمع تھا جیسے ہم لاہور سے اپنے ساتھ کچھ سدھارے ہوئے جانور لائے ہیں اور ابھی ان کو ڈگڈگیوں کے مینار پر بکری چڑھا کر دکھائیں گے. تاہم اسمبلی کی گھنٹی بجتے ہی سب غائب ہوگئے. ہم نے کارن فلیکس کا ناشتہ کیا. خیمہ سمیٹا ،بیگ پیک کیے. اور بن ٹھن کر نو بجے کے قریب ہیڈماسٹر صاحب کے دفتر میں چلے گئے. گھنٹہ بھر ان سے گپ شپ کی. چائے کا دور چلا ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے جس کی چھال پیس کرجلے اور زخموں پر لگانے سے فوراً آفاقہ ہوتا ہے. ان کا خیال تھا کہ اس چھال کو پیس کرپانی میں ملانے سے جو پیسٹ سی تیار ہوتی ہے اس کا رنگ اورشکل بالکل مشہور زمانہ دوا برنال جیسی ہوتی ہے. اور خواص بھی ویسے ہی ہیں.
ہم آج تک نہیں جان پائے کہ ایسے ایسے قدرتی خزائن سے مالا مال یہ ملک اور اس کے باسی اس قدر بےحال کیوں ہیں. دیکھیں دنیا بھر میں آرگینک کا کیسا شور ہے. مشرق ومغرب میں ہر صاحب حیثیت ہر چیز آرگینک حاصل کرنا چاہتا ہے. ایسے میں اگر آپ آرگینک اینٹی بائیوٹکس مرہم لے کر جاتے ہیں تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کیا مول مل سکتا ہے. ہم اتنے غافل، خوابیدہ اور نااہل نہ ہوتے تو خوشحالی ہمارا مقدر ہوتی اور دولت ہماری باندی.
ہیڈ ماسٹر صاحب ہمیں کلاس میں لے کر گئے. نویں اور دسویں جماعت کے طلباء کو ایک جماعت میں اکٹھا بٹھایا گیا تھا. ان سے گزارشات کا قرعہ فال بھی ظاہر ہے ہمارے نام ہی نکلنا تھا. پہلے ہم نے انہیں ایک ریاضی کا سوال سمجھایا. دسویں کی ریاضی کی کتاب میں مسئلے ہوا کرتے تھے. ان میں ایک مسئلہ نمبر سات تھا. جس میں ثابت کیا جاتا تھا کہ دو متوازی لائنوں کو منقطع کرنے والی لائن سے بننے والے زاویے برابر ہوتے ہیں. وہ ہم نے انہیں سمجھایا.
انجینئرنگ یونیورسٹی میں دوران تدریس بہت سے طلباء میٹرک، ایف ایس سی کے بچوں کو ٹیویشن پڑھایا کرتے تھے تاکہ کچھ جیب خرچ مہیا ہو. ہم بھی چونکہ داخل دفتر شغل ہذا تھے سو میٹرک کا سارا سلیبس ازبر تھا. بچوں کو ہمارا انداز تدریس بہت پسند آیا. اس کے بعد دس پندرہ منٹ کی ایک موٹیوشنل تقریر. دوتین بچے بہت قابل تھے. انہیں پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا. ایک بچے نے بڑی عقیدت سے خط وکتابت کے لیے پتہ لیا. بعد میں اس نے کئی بار خط بھی لکھے. پھر رابطہ ختم ہوگیا. اللہ کرے جہاں ہو خوش اور آسودہ حال ہو . اللہ کی بہت رحمتیں ہوں.
ہیڈ ماسٹر صاحب نے بوقت گفتگو پوچھا کہ آگے جائیں گے یا واپس. ہم نے عرض کیا کہ شنٹر پاس سے ہوتے ہوئے کشمیر جانے کا ارادہ ہے. کہنے لگے آپ شہری بابو ہیں، آپ کیلئے یہ کام بہت مشکل ہے بہتر ہوگا آگے مت جائیں واپس چلے جائیں. ایک تو ابھی اوائل موسم بہار ہے برف بہت زیادہ ہے. دوسرا یہ کہ لاہور کے ایک بڑے اور مشہور کالج کے دوطلباء پچھلے سال یہاں سے شنٹر کیلئے گئے تھے مگر وہ دوبارہ نہیں ملے. انہیں ان کے گھر والے تلاش کرتے ہر جگہ گئے. اور تیسرا یہ کہ آگے بستی میں تازہ تازہ حادثہ ہوا ہے. آگے ایک بستی میں ایک لانی چلی ہے اور پورا محلہ اس کے نیچے دب گیا ہے. فضا بہت سوگوار ہے.
یاد رہے کہ لانی برف کے گلیشیر کو کہتے ہیں. زیادہ بلندی والے پہاڑوں پر جہاں زیادہ برف پڑتی ہے وہاں گلیشیر کا گرنا ایک طرح کا معمول ہے. گلیشیرز کے گرنے کا عمل بھی بڑا عجیب ہے. اکثر دوپہاڑوں کے درمیان جو تھوڑی سی گہرائی ہوتی ہے چونکہ ان کی ڈھلوان خود پہاڑوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے اس لیے اس میں برف کی بہت زیادہ مقدار جمع ہوجا تی ہے. جب کہ پہاڑوں سے ساتھ ساتھ پھسلتی رہتی ہے اس لیے ان پر کم جمع ہوتی ہے.
جب موسم گرم ہونا شروع ہوتا ہے تو برف بھی پگھلنا شروع ہوجاتی ہے. برف کے پگھلنے میں بھی ایک سائنس ہے. اوپری سطح سے سفید رنگت کی وجہ سے سورج کی زیادہ تر شعاعیں منعکس ہوتی رہتی ہیں اس لیے کم حدت ملتی ہے. جبکہ زمین کی طرف سے زیادہ حدت ملتی ہے چنانچہ برف زمین کی طرف سے زیادہ پگھلتی ہے.
کچھ عرصہ میں پورا گلیشیر زمین کی طرف سے خالی ہوجاتا ہے. اب وہ زیادہ تر صرف ان درختوں کی وجہ سے جو اس میں پھنسے ہوئے ہیں، ہوا میں معلق کھڑا ہوتا ہے. نچلی طرف سے جو برف پگھل کر پانی بن رہی ہے. وہ درختوں کی جڑوں کے ادر گرد زمین کو نرم کررہی ہے. اب اگر درختوں کی مقدارکم ہے اور گلیشیر کا وزن زیادہ ہے تو وہ اپنے اندر موجود سارے درختوں کو اکھاڑ کر نیچے کی طرف لڑھکنا شروع کردیتا ہے.
تھوڑی ہی دیر میں یہ ڈھلوان کی وجہ سے اس قدر رفتار پکڑتا ہے کہ نیچے آنی والی ہر چیز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے. اگر گلیشیر تھوڑا زیادہ بڑا ہو تو اس کی اس تیز رفتار حرکت کی وجہ سے سامنے کی طرف اس قدر تیز ہوا چلتی ہے کہ کافی فاصلے تک گھروں کی چھتیں صرف اس کی آندھی سے ہی اڑ جاتی ہیں. ہم نے کاغان اور ناران کے درمیان ایک بار گلیشیر کی آندھی سے ہونے والی تباہی کا منظر دیکھ رکھا ہے. رٹو کے علاقے میں بھی ہمارے پہنچنے سے دو روز پہلے ایسا ہی ایک حادثہ پیش آیا جس میں چالیس سے زائد لوگ جان سے گئے.
تو بات ہورہی تھی ہیڈ ماسٹر صاحب سے ہونے والی گفتگو کی، ہم نے ان سے وعدہ کیا کہ ہر صورت آپ کے مشوروں پر عمل کریں گے اور اگر تمام امور قابو میں ہوئے تو ہی آگے جائیں گے وگرنہ واپس چلے جائیں گے. مگر حقیقت یہ ہے کہ دل ہی دل میں ہم یہ ورد کررہے تھے
وہ اور ہوں گے جنہیں موت آگئی ہوگی
نگاہ یار سے پائی ہے زندگی میں نے
گیارہ بجے کے قریب سکول سے نکلے. خوبصورت رٹو میں سے ہوتے ہوئے آگے کو سفرشروع کیا. ایک ہوٹل پر رکے. دوسری رائے کیلئے وہاں موجود لوگوں سے بات کی. سب نے بیک زبان تصدیق کی پچھلے سال دو جوان شنٹر کی برفوں میں کہیں ہمت ہار بیٹھے اور آج تک ان کا نشان نہیں ملا. مزید برآں انہوں نے یہ بھی کہا کہ شنٹر کے ساتھ ساتھ تین چار درے ہیں، آپ شنٹر پہچان نہیں پائیں گے اور اگر خدانخواستہ غلطی سے کسی اور درے میں اتر گئے تو شاید آپ کا انجام بھی ان سے مختلف نہ ہو.
ایک بات جو انتہائی اہم تھی وہ یہ کہ رٹو کی سطح زمین سے اونچائی نوہزار فٹ، جبکہ شنٹر پاس ساڑھے چودہ ہزار فٹ بلند ہے. اور یہ ساری ساڑھے پانچ ہزار فٹ چڑھائی بالکل سیدھی اور محض ایک، ڈیڑھ کلومیٹر کے اندر اندر ہے. یعنی بیس کیمپ سے سیدھا پہاڑ چڑھنا ہے، یہ ہائکنگ نہیں بلکہ ماؤنٹیرنگ ہے. اور ظاہر ہے کہ ہم اس سب کیلئے تیار ہوکر نہیں گئے تھے نہ ہی ہماری تربیت تھی. ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ دن بارہ بجے سے پہلے پہلے ہر صورت درے سے دوسری طرف اتر جائیں، کیونکہ عموماً بارہ بجے کے بعد وہاں طوفان کی صورت حال بن جاتی ہے. ان سب نصائح کے بعد سب کا خیال تھا کہ واپس چلے جائیں اسی میں سب کا بھلا ہے.
مقامی لوگ ہمارے بارے میں بہت متفکر تھے. لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی خوفزدہ نہیں تھا. اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہمیں حقیقت میں حالات کی سنگینی اور ممکنہ خطرات کا اندازہ نہیں ہوپارہا تھا. یا شاید ہماری پچھلی مہمات کی وجہ سے مجتمع اعتماد ہمارے خائف ہونے میں حائل تھا. عین ممکن ہے کہ ہم صبا اکبر آبادی کے دریافت کردہ قانون کے زیر اثر ہوں. کہہ گئے ہیں…
جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
(جاری ہے)
( فوٹو کے لئے شکریہ ٹور مائی پاکستان ڈاٹ کام )