پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ
ابن فاضل :
جیسے گوجرانوالہ کے لوگ پیٹ بھرتے ہیں بالکل ویسے گاڑی بھری گئی. بلکہ کچھ لوگوں کو پائیدان پر کھڑا کرکے باہر لٹکا بھی لیا۔ ایسے مناظر دیکھ کر ہمارے بغچہ تخیل پر سلاد کی وہ پلیٹ اترتی ہے جو اکثر ریستورانوں میں آپ کی صوابدید اور ہنرمندی کی آزمائش کے لیے آپ کو دی جاتی ہے کہ جتنا چاہے بھرلو. اور پھر یہ فرض دوستوں میں سب سے زیادہ فن پلیٹ بھرائی میں ماہر آدمی کو تفویض کیا جاتا کہ آپ لائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہوسِ سلاد اور حسِ تکاثر کی تسکین ہوسکے.
برسبیلِ تذکرہ ہمیں یہ بتانے میں ہرگز عار نہ ہے کہ اپنے حلقہ احباب میں یہ فریضہ ناپسندیدہ ادا کرنے کیلئے قرعہ فال ہمیشہ ہمارے نام نکلتا ہے اور ہم نے بھی کبھی دوستوں کو ان کے انتخاب پر نظرثانی کا موقع فراہم نہیں کیا. کبھی ترنگ میں ہوں تو ہم پلیٹ خوب ہی بھرتے ہیں، جیسے جیسے ہم سلاد کی پلیٹ تہہ در تہہ بھرتے جاتے ہیں قریب کھڑے بیروں کے چہروں پر تغیرو تبسم کے آثار واضح سے واضح تر ہوتے جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات توہم نے قریبی میزوں کے گرد بیٹھے خواتین وحضرات کو کہنیوں کی زبان میں ایک دوسرے کو مطلع کرتے بھی دیکھ رکھا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس جیپ والے صاحب سے کبھی مقابل ہوئے تو بآسانی ہار جائیں گے۔
بستی سے نکل کر جیپ استور کی طرف روانہ ہوئی. کچھ فاصلے تک تو سفر سڑک پر ہی کٹا. پھر سڑک تو غائب ہوگئی. اب پتھروں اور دھول بھرا ایک راستہ سا تھا جس کی چوڑائی جیپ کی چوڑائی کے عین برابر تھی. ہم جیپ کی دائیں طرف بیٹھے تھے اور اس طرف پہاڑ ساتھ ساتھ چل رہے تھے سو تادیر معاملہ کی نزاکت کا چنداں علم نہ ہوسکا.
مگر جونہی پہلا کامل موڑ کاٹا اور کھائی ہماری طرف آئی اندازہ ہوا کہ سفر کیسا پرخطر اور مہماتی ہے. نیچے دیکھنے پر احساس ہوتا کہ جیپ کے پہیے تو شاید کسی راستے کے پتھر پر ہی ہوں گے لیکن اس کا جسم یقیناً کھائی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کررہا تھا. بس یوں سمجھ لیں کہ راستہ کیا تھا کسی غریب مجبور کا جادہ حیات تھا. اس وقت ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ اس استور جانے والی سڑک کا خالق کوئی شدید مذہبی رجحانات رکھنے والا شخص ہوگا کہ جس نے اس سڑک کا تخیل یقیناً پل صراط سے لیا ہو گا .
اس پر ستم یہ کہ سڑک پر سمال سائز، میڈیم سائز، فیمیلی سائز اور ایکسٹرا لارج سائز کے کھڈے اس قدر کثرت سے تھے کہ وزیراعظم کی کابینہ میں وزیر و مشیرکیا ہوں گے. پل بھر بھی سیٹ پر تشریف فرما ہونا نصیب نہ ہوتا. بلکہ تشریف مبارکہ صرف سیٹ سے اچھال کی طاقت حاصل کرنے کیلئے مطلوب ضروری وقت اور قوت کیلئے ٹکراتی اور پھر ہوا میں. دائیں اور بائیں کی حرکات اس عمودی اچھل کود کے سوا تھیں.
تنگی دامانِ سڑک، سامنے سے آنے والی کسی گاڑی کو راستہ دینے سے عاجز تھا. اگر کوئی گاڑی سامنے سے آجاتی تو اسے سڑک کے موڑ پر رک کر انتظار کرنا ہوتا کہ موڑ پر بہ امر مجبوری سڑک اس قدر کھلی ضرور بنانا پڑتی ہے کہ گاڑی کم از مڑ سکے.
ادھر جیپ کی حالت بھی وطن عزیز کی معاشی حالت سے کچھ کم نہ تھی. چڑھائی چڑھتی تو تیرگیِ شبِ ہجر سے بھی سیاہ دھواں اس قدر کثیر مقدار میں پہاڑوں کی شفاف ہواؤں میں چھوڑتی کہ جیسے جبین حسنِ فطرت پر کالا ٹیکہ لگانا مقصود ہو تاکہ نظر نہ لگ جائے۔
شاید ٹائر اور انجن کے سوا باقی گاڑی ناٹکو والی بس کی ہم عمر اور ہم ادا تھی. لیکن ڈرائیور کی مہارت کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی. اسقدر پرپیچ اور پر خطر راہ پر بےفکر گاڑی ایسے چلارہا تھا جیسے علی الصبح خالی شہر کی خالی سڑکوں پر من موجی اخبار بانٹنے والا سائیکل چلاتا ہے. اور اندازہ کی درستگی کا یہ عالم کہ گھنٹہ بھر کے سفر میں ہم نے بارہا سوچا کہ ابھی گاڑی کھائی میں لڑھکی کہ لڑھکی. لیکن بفضل تعالیٰ وہ تا منزل مقصود سڑک پر ہی لڑھکتی رہی.
یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ علاقہ بہت ہی خشک پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں سبزہ یا درخت خال خال ہی نظر آتے ہیں. پہاڑ تو بالکل ہی چٹیل اور پتھریلے ہیں، البتہ وادیوں میں کہیں کہیں زرخیز زمین کے قطعات موجود ہیں جہاں کچھ سبزہ دکھائی دیتا ہے اور اسی سبزہ کی وجہ سے ساتھ کوئی چھوٹی سی بستی.
چونکہ ہم نے شنکیاری سے آگے قراقرم کا سارا سفر رات کے اندھیرے میں طے کیا تھا. اس لیے اس علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کا بالکل علم حاصل نہ ہوسکا. لیکن بعد میں کیے جانے سفروں میں ہم نے جانا کہ شاہراہ قراقرم پر مانسہرہ سے بٹل، بٹگرام، تھاہ کوٹ، بھشام اور پھر داسو تک کا علاقہ بہت ہی سرسبز اور زرخیز ہے.
بارشوں کی کثرت اور پانی کی فراوانی سے بہت سے پھل جیسے آڑو، سیب، خوبانی ،جاپانی پھل اخروٹ، انجیر اور آلوچہ وغیرہ بکثرت ہوتے ہیں. اسی طرح گندم اور مکئی بھی وافر پیدا ہوتی ہے. گو کہ وسائل اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے انتہائی پرانے بلکہ شاید دقیانوسی ذرائع کھیتی باڑی مستعمل ہیں جن کی وجہ سے معیار اور مقدار ہر دو عالمی معیار سے بہت کم ہیں.
اسی طرح تھاہ کوٹ تک سارا راستہ سڑک کے ساتھ کوئی قابل ذکر دریا یا پہاڑی نالہ نہیں ہے. لیکن تھاہ کوٹ سے کچھ پہلے منہ زور پرشور دریائے سندھ سڑک کا ہم رو ہو جاتا ہے. پھر یہ یا اس کی کوئی شاخ ہر طرف سڑک کے ساتھ ساتھ بہتے ہیں.
وہ الگ بات ہے کہ کبھی سڑک ہزاروں فٹ اونچی ہوجاتی ہے اور دریا گہرائی میں محض ایک لکیر کی صورت دکھائی دیتا ہے. اور کبھی سڑک کے بالمقابل کہ جیسے کوئی دورویہ سڑک ہو جس کی ایک رو کول تار کی اور دوسری شفاف پانی کی بنی ہو.
زرعی اجناس کے ساتھ ساتھ یہ سارا علاقہ معدنی دولت سے بھی مالا مال ہے. یہاں کوارز، ڈائی اٹامیشیئس ارتھ، ابرق، ورمیکولائٹ ، سکہ ،جست، تابنہ، سونا، سٹیٹائٹ، پارہ اور ٹالک جیسے بیش قدر معدنی ذخائر بکثرت موجود ہیں. کچھ سال قبل الائی کے ایک علاقہ میں ایک تانبے کی کان کا دورہ کرنے کا اعزاز ہمیں خود حاصل ہے. اس کے علاوہ یہاں چلاس کے گردونواح میں کچھ ایسی دھاتیں بھی پائی جاتی ہیں جن کی قیمت سونے سے کئی گنا زیادہ ہے.
سرکار یا سیاسی جماعتیں تھوڑی سی بھی دلچسپی لیں تو اس علاقہ کے لوگوں کی معاشی تقدیر بدلی جاسکتی ہے. ایک مذہبی سیاسی جماعت کا بڑا زور ہے. ان کے بہت سے مدارس ہیں جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے. زیادہ تر لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے جگرگوشوں کو ان مدارس میں بھیج دیتے ہیں کیونکہ یہاں نہ صرف مفت تدریس کی جاتی ہے بلکہ قیام وطعام بھی مفت ہوتا ہے۔
اگر ان مدرسوں کے سلیبس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ایک ہنر جیسے فوڈ پراسیسنگ،کھیتی باڑی کے جدید ذرائع یا کان کنی وغیرہ کی تربیت بھی دیدی جائے تو یہ لوگ اپنے لیے اور ملک کیلئے بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں.
چلاس سے پہلے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بہت جگہوں پر مقامی لوگوں کو سندھ کی ریت سے سونا نکالتے دیکھا ہے. چھوٹے چھوٹے برتنوں میں ریت لیکر ان کو دریا کے پانی سے دھوتے ہوئے سارے دن میں ایک آدمی اتنا سونا اکٹھا کرلیتا ایک مزدور کے ایک دن کے مشاہرہ جتنی رقم مل جاتی ہے.
اب اگر یہ تین چار لوگ ملکر ایک ویلفلے شیکنگ ٹیبل wilflay shaking) tables) لگا لیں، یا ایک گریٹوی سیپیریٹر سپائرل (Spiral gravity separators) لگا لیں. جس کیلئے جو تھوڑی سی توانائی درکار ہے وہ سولر پینل یا دریائے سند کی روانی سے با آسانی مل سکتی ہے، تو ان لوگوں کو ان کے گمان زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے. اور یہ دونوں اشیاء نہ بہت زیادہ مہنگی ہیں اور نہ ہی ان کا استعمال بہت زیادہ مشکل ہے.
تو صاحب! بات ہورہی تھی ازمنہ رفتہ کی جیپ کی جو زور لگاتی، دھواں اڑاتی پر پیچ و پر خطر راستوں راستوں پر جانب منزل رواں تھی. ویسے ہم سوچا کیے کہ جو لوگ چوہے سے، چھپکلی سے، لال بیگ سے یا اندھیرے وغیرہ سے ڈرتے ہیں، یا جولوگ شام کے ملگجے میں گلی میں بندھی بکری کو کتا سمجھ کر گلی بدل لیتے ہیں، یا جو لوگ گھر میں اکیلے ہوں تو ان کو عجیب عجیب آوازیں سنائی دیتی ہیں، ان سب سے درخواست کریں گے کہ وہ اس سڑک پر سفر کرنے سے پہلے کوئی ڈر بھگانے کا کورس کرلیں یا کم از کم کوئی بے خوفی کا انگریزی میں لکھا گیا تعویذ لے لیں.
بصورت دیگر آغازِ سفر سے قبل بڑوں والے پیمپرز ضرور لگا لیں، وہی والے جو امریکی فوجی افغانیوں سے صف آراء ہونے سے پہلے لگایا کرتے تھے. ہاں البتہ شادی شدگان کو استثناء ہے کہ ان کی مقدور بھر تربیت پہلے سے ہوچکی لیکن وہ کیا ہے کہ اب دشمنان حسن فطرت نے یہ استور روڈ اس قدر کشادہ اور آرام دہ کردی ہے کہ اس پر سفر کا سارا لطف ہی جاتا رہا. بالکل ایسے جیسے آپ مری جارہے ہوں. اس وقت عام حالات میں چار گھنٹہ میں طے ہونے والا سفر اب محض ڈیڑھ گھنٹہ میں کٹ جاتا ہے.
ہمیں تو مگر اس روز بھی چھ گھنٹے لگے تھے کہ ایک جگہ سے سڑک بوجہ لینڈ سلائیڈنگ غائب ہی ہوچکی تھی. اور فوجی جوان اور ان کے ڈورز عارضی راستہ بنانے میں مشغول تھے. دونوں طرف سے آنے والی گاڑیاں دونوں اطراف قطار اندر قطار رکی تھیں. اور بہت سی سیماب صفت سواریاں گاڑیوں سے اتر کر مشینوں کو مشغول کار دیکھ رہی تھیں۔
قریب دو گھنٹہ جاری رہنے والا یہ آپریشن بحالی سڑک اس قدر راستہ بنانے میں کامیاب رہا کہ گاڑی بمشکل تمام وہاں سے گزر پائے. سو ہم ڈیڑھ ، دوبجے کے قریب استور پہنچے۔ غوری صاحب بھوک سے مرے جارہے تھے حالانکہ صبح تین پراٹھے دو انڈے اور دو چائے کے کپ پی کرنکلے تھے. راستہ بھر سیب، آڑو مکئی کے سٹے اور بسکٹ وغیرہ بھی کھا چکے تھے۔
سو سب سے پہلے مناسب ہوٹل تلاش کیا گیا. یہ محلہ عید گاہ کے پاس ایک نسبتاً بہتر حالت کا ہوٹل تھا. ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اس کا ڈائیننگ ہال چھوٹا سا مگر آراستہ پیراستہ تھا۔ سب سے زیادہ حیرت ہمیں اس ہال کی کھڑکیوں پر خوبصورت گہرے سرخ رنگ کے نفیس ودبیز پردے دیکھ کر ہورہی تھی۔
ایسے دور افتادہ علاقوں میں جہاں عوام الناس کی آمدورفت انتہائی کم ہو ایسے چونچلے عیاشی محسوس ہورہے تھے. ہم وطن عزیز کی پاک مٹی چہروں اور سروں سے دھو کر تازہ دم ہولیے اور ایک میز پر قبضہ جماکر بیٹھ گئے.
بیرے کی جاری کردہ زبانی مینو میں اگرچہ دال ماش موجود تھی، لیکن غوری صاحب کے تیور دیکھ کر ہمیں اپنا دائمی فیصلہ بدلنا پڑا. ہم نے چھوٹے گوشت اور پالک کا آرڈر دیا لیکن روٹیوں کی تعداد ہرگز نہیں بتائی.
( جاری ہے )
تصویر: سکرین شارٹ
بشکریہ گندھارا ٹریلز ڈاٹ کام