رٹو، استور، ضلع دیامیر

رٹو سے آگے (1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

سارا قصور ورغلانے والے کا نہیں ہوتا، کچھ نہ کچھ قصور تو ورغلنے والے کا بھی ہوتا ہے. جب ہی تو اس وقت کے غالباً کیپٹن اشفاق حسین کی ”جنٹلمین الحمدللہ“ اور ”جنٹلمین بسم اللہ“ تو لاکھوں لوگوں نے پڑھی ہوگی لیکن ”رٹو“ کے سحر میں گرفتار شاید ہزاروں ہی ہوئے ہوں اور اس گرفتاری میں باقاعدہ ”رٹو“ کی زیارت کیلئے کتنے لوگ نکل پڑے ہوں گے شاید درجن بھر. ان درجن بھر ورغلے ہوئے جنونیوں میں ایک ناقابل اصلاح مابدولت تھے.

آپ تصور کریں کہ کوئی زبردست مشاہدہ رکھنے والا حسن پرست ترسیدہ نوجوان جو خوبصورت اردو لکھنے کے فن میں بھی طاق ہو، کسی منظر پر فریفتہ ہوجائے تو اپنے قارئین کے تصورات پر کیسی بجلیاں گرا سکتا ہے، ان کے جذبات پر کیسی قیامتیں ڈھاسکتا ہے. بس اس بے رحم حرفوں کے مصور نے ہمارے ناپختہ ذہن کے کینوس پر ایسی ہی قیامت خیز منظر نگاری کہ ہم نے ہر صورت ” رٹو“ دیکھنے کا عہد کرلیا۔ یہ ذہنی دھلائی مطلب برین واشنگ کی پہلی کامیاب کوشش تھی جس کی مشق ہم پر کی گئی. اس کے بعد کی تمام ذہنی اور جسمانی دھلائیوں کا تعلق ہماری حیات جاودانی کے نشاۃ ثانیہ یعنی بعد از عقد سے ہے.

رٹو ضلع دیامیر کے صدرمقام استورسے تقریباً پینتیس کلومیٹر دور جنوب کی طرف ایک چھوٹی سی بستی ہے. سطح سمندر سے نوہزار فٹ بلند اس خوبصورت خطہ ارضی کی اولین شہرت تو اس کا لازوال حسن ہی ہے جبکہ دیگر وجوہات میں ہمارا وہاں قدم رنجہ فرمانا اور ایک عدد فوجی تربیتی سکول کا ہونا ہے.

جناب اشفاق صاحب رٹو کے حسن و جمال کو بالکل ایسے ہی بیان کرتے ہیں جیسے کوئی رنگین مزاج شاعراپنی محبوبہ کے خوال و عوارض کا نقشہ کھینچتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رٹو کے دو اطراف دو وادیاں ہیں جن کا ملن رٹو کے مقام پر ہوتا ہے. ایک وادی کا نام میر ملک اور دوسری کا غالباً فولووئی۔ شام کے دونوں وادیوں سے آنے والی ہوائیں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں تو ایسی سیٹیاں بجتی ہیں جن کی آواز سے آدم زاد تو کیا پریاں بھی مسحور ہوکر رقص کناں ہوجاتی ہیں.

لکھتے ہیں کہ کوئی گورا وہاں آیا اور اس کے حسن پر فریفتہ یوں گویا ہوا:
“Beauty thy name is Rattu”

مزید برآں یہ کہ آج تک وہ خود اور کوئی بھی اور شخص اس فقرے کا اس کے شایان شان ترجمہ نہیں کرسکتا۔ اب آپ خود سوچیں کہ کسی معصوم پہاڑوں کے حسن کے دلدادہ اور قدرتی حسن کے دیوانہ کو ایسی ایسی اشتہا آمیز ترکیبات سے رجھائیں گے تو وہ کیوں نہ سب کچھ تیج آمادہ دیدار واختلاط ہوگا۔ سو وہی ہوا۔ ہم نے جی میں عہد کرلیا کہ چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، اگلا ٹور بس رٹو کا ہی ہوگا۔

تاریخ میں 1992 کا سال جہاں پاکستان کے واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے اور اس سے جڑے دیگر حادثات کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا، وہیں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ہم اس سال 1992 میں بائیس سال کے ہوئے تھے. نیز یہ کہ اسی سال ہم نے کرنل اشفاق حسین کی ان کتب کا مطالعہ فرمایا جن کے بہکاوے میں آکر رٹو دیکھنے کا عہد کیا۔

یوں تو ایک عرصہ ہم مارچ سے لے کر ستمبر تک کم از تین مہماتِ کوہ پیمائی یا کوہ نوردی کی وجہ و عنوان ہوا کرتے تھے. مگر ان مہمات کیلئے ہمیں اپنے ایسے شوریدہ سر، ژولیدہ فکر دیوانگانِ کوہ نوردی، جاں نثارانِ حسنِ فطرت کی دستیابی بھی بکثرت میسر رہتی جو بس ہمارے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے کہ کہ کب ہمارے ذہن ذکی کہ آماجگاہ شیطان سے کوئی شاخ تخیل نو بابت آوارگی پھوٹے اور وہ اس حبابِ تخیل کو جامہ عمل پہنائیں۔

وقت کے بے رحم تھپیڑوں اور کوہ نوردی کی پے درپے بکھیڑوں نے ہمیں بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اگرچہ عہد طالب علمی میں وسائل کی کمیابی حائل تھی پھر بھی مگر ہم نے راول پنڈی کے جی ٹی ایس بس سٹاپ کے باہر قائم دکانوں سے کوہ نوردی کا سارا ضروری سامان رفتہ رفتہ خرید لیا تھا۔ ان دکانوں پر انگریز یا دیگر بدیسی مہم جوؤں کا وہ سامان دستیاب ہوتا جو وہ بعد از مہمات پاکستان سے جاتے ہوئے یہیں چھوڑ جاتے یا اونے پونے بیچ جاتے۔ ہمارے لیے یہ کم قیمت اشیاء کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھیں۔

ہم نے پیراشوٹ کے خیمے، مہماتی بستے (روک سیک)، سونے کے تھیلے ( سلیپنگ بیگز ) سردی سے بچائو کی پلاسٹک شیٹس، سفری چولہے، چھوٹے بیلچے اور ہائکنگ نائف تک یہاں سے خرید رکھے تھے۔ یہ سارا سامان ہمارے گھر میں موجود باورچی خانہ کے بالا خانے پر بنی ایک گیلری میں محفوظ رہتا تاوقتیکہ کہ متذکرہ بالا شیطانی خیال کے زیر اثر ہم کسی مہم کا فیصلہ صادر فرماتے۔ (جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں